حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی روح دین ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 02
مذہبی اختلافات کا سر چشمہ ۳۔ علماء کی حیثیت و وقعت

” دِین “ کا معنی ہے ” جزاء “ ۔” پاداش“ ، حکم کی اطاعت“ اور ” پیروی “۔ مذہبی اصطلاح میں دین عبارت ہے ان عقائد ، قوانین اور آداب سے جن کے ذریعے انسان دنیا و آخرت کی سعادت و خوش بختی تک رسائی حاصل کرسکت اہے ۔ نیز انفرادی و اجتماعی اور اخلاقی و تربیتی لحاظ سے صحیح راہ پر گامزن ہوسکتا ہے ۔
” اِ سلام “ ” تسلیم “ کے معنی میں ہے اور یہاں مراد خدا کے سامنے تسلیم ہونا ہے ،
اس لئے ” انّ الدِّین عند الاسلام “کامعنی یہ ہوگا کہ بار گاہ الہٰی میں حقیقی دین اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کسی دوسری چیز کا نام نہیں البتہ چونکہ پیغمبر اکرم  کا دین و آئین اس کا علیٰ ترین نمونہ تھا اس لئے اس کے لیے اسلام کے نام کا انتخاب ہوا ۔
نہج البلاغہ کے کلمات ِ قصارمیں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا اس حقیقت کے بارے میں عمیق اور گہرے مفہوم پر مبنی یہ جملہ مقصد کو واضح کرتا ہے :
”لا نسبن الاسلام نسبة لم ینسبھا احد قبلی: الاسلام ھو التّسلیم ، و التَّسلیم ھو الیقین ، و الیقین ھو التّصدیق ھو التّصدیق ، و التّصدیق ھو الاقرار، و الاقرار ھو الاداء، و الاداء ھو العمل ۔“
اس عبارت میں امام علیہ السلام نے پہلے فرمایا ہے :
” میں چاہتا ہوں اسلام کی ایسی تفسیر بیان کروں جو کسی نے نہ کی ہو ۔
اس کے بعد آپ (ع) نے اسلام کے چھ مر حلے بیان فرمائے ہیں جو یہ ہیں ::
۱۔ اسلام حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے ۔
۲۔ تسلیم یقین کے بغیر ممکن نہیں ( کیونکہ یقین کے بغیر تسلیم اندھادھند تسلیم ہے عالمانہ نہیں )
۳۔ یقین تصدیق کا دوسرا نام ہے ( یعنی علم و دانائی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ اعتقاد اور تصدیق قلب ضروری ہے ۔
۴۔ تصدیق ہی اقرار ہے ( یعنی قلب و روح سے تصدیق کافی نہیں بلکہ جراٴت و ہمت سے اس کا اظہار بھی کرنا چاہئیے ۔
۵۔ اقرار ذمہ داری کو پورا کرنا ہے ، اقرار تو زبان تک محدود ہوتا ہے ، اصل تو مسئولیت اور ذمہ داری کو قبول کرنا ہے ) ۔
۶۔ مسئولیت کو قبول کرنا ادائیگی اور عمل ہی کو کہتے ہیں ۔
اور وہ لوگ جو اپنی وقت و توانائی کو فقط گفتگو ، بیانات، جلسوں او رکانفرنسوں ہی میں صرف کرکے رہ جاتے ہیں اور باتوں سے آگے نہیں بڑھتے وہ نہ اپنی ذمہ داری کو قبول کیے ہوئے ہیں اور نہ روحِ اسلام سے واقف ہیں ۔
اسلام کے تمام پہلووٴں کو مد نظر رکھنے والی یہ واضح ترین تفسیر ہے ۔
”وما اختلف الذین اوتوا الکتاب الاّمن بعد ما جائھم العلم بغیاً بینھم“۔
اس جملے میں قرآن نے مذہبی اختلافات کے سر چشمے کا تذکرہ کیا ہے اور فرمایا ہے : وہ لوگ جو حقیقت سے آگاہ تھے اِ س کے باوجود انہوں نے دین ِ خدامیں اختلاف پیدا کیا ان کے اس عمل ک اسبب طغیان ، سر کشی ، ظلم و ستم اور حسد کے علاوہ کچھ نہیں تھا کیونکہ ہر آسمانی دین ہمیشہ واضح مدرارک سے منسلک ہوتاہے جن وجہ سے متلاشیان حقیقت کے لئے کوئی ابہام باقی نہیں رہتا ۔ مثلاً پیغمبر اسلام کے لئے واضح معجزات ، کھلی نشانیوں اور روشن دلائل کے علاوہ جو آپ کے دین میں موجود تھے اور آپ کی حقانیت کے گواہ تھے ۔ گذشتہ کتب آسمانی میں مذکور آپ کے اوصاف اور نشانیاں بھی موجود تھیں اور ان کتب کے کچھ حصّے ان کے پاس تھے بھی اور انہی کے پیش نظر ان کے علماء آپ کے ظہور سے قبل آپ کے ظہور کی بشارت دیا کرتے تھے لیکن آپ کی بعثت کے بعد انہیں اپنے فوائد معرض خطر میں نظر آنے لگے اس لیے ظلم و ستم اور طغیان و سر کشی کی راہ اختیار کرتے ہوئے انہوں نے وہ سب کچھ پسِ پشت ڈال دیا ۔
” فمن یّکفر باٰیات اللہ فانّ اللّہ سریع الحساب“۔
آیات کے آخر میں ایسے لوگوں کا مال کار بیان کیا گیا : وہ لوگ جو آیات الہٰی کو ٹھکرادیتے ہیں ، اپنے اعمال کا مکمل نتیجہ حاصل کریں گے ، خدا تعالیٰ ان کے اعمال کا بہت جلد حساب کرے گا ۔
سریع الحساب کے مفہوم کے بارے میں اسی جلد میں سورہ بقرہ کی آیت ۲۰۲ کے ذیل میں بحث کی جاچکی ہے ، اس سے رجوع فرمائیں ۔

مذہبی اختلافات کا سر چشمہ ۳۔ علماء کی حیثیت و وقعت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma