حضرت یحییٰ کی ولادت کی بشارت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 02
اس جملے میں قرآن نے بتا یا ہےحضرت زکری(ع) کا تعجب اور حیرانی کس بناء پر تھی

یہاں حضرت زکری(ع) حضرت یحییٰ کی ولادت کی بشارت پر کسی نشانی کی درخواست کرتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اس عجیب و غریب واقعہ پر حضرت زکریا (ع) کا اظہار تعجب اور پروردگار سے کسی نشانی کا تقاضا کسی طرح سے بھی اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر بے اعتمادی کی دلیل نہیں ہے ۔ خصوصاً جب کہ ” کذٰلک اللہ یفعل من یشآء “۔ ( اسی طرح خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے ) کہہ کر بشارت الہٰی کی تاکید بھی کی جاچکی ہے ۔ حضرت زکریا (ع) چاہتے تھے کہ اس امرسے ان کا ایمان ، ایمان شہودی کا درجہ حاصل کرلے ۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا دل ایمان سے مالا مال ہو جائے جیسے حضرت ابراہیم (ع) نے مشاہدہ حسّی کے ذریعے اطمینان کے حصول کی خواہش کی تھی ، وہ بھی اس مرحلے تک جاپہنچیں ۔
”قَالَ آیَتُکَ اٴَلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَةَ اٴَیَّامٍ إِلاَّ رَمْزًا “۔
” رمز “ اصل میں ہونٹوں سے اشارہ کرنے کو کہتے ہیں ۔ آہستہ آہستہ کی جانے والی گفتگو کو بھی ” رمز “ کہتے ہیں ۔ تدریجاً ” رمز “ کے مفہوم میں وسعت پیدا ہو گئی ہے اور اب ہر ایسی بات، اشارہ اور نشانی کو رمز کہا جا نے لگا ہے جو صریح اور مخفی طور پر ہو ۔
خدا تعالیٰ نے حضرت زکریا (ع) کی یہ درخواست بھی قبول فرمالی اور ان کے لئے ایک نشانی مقرر فرمائی گئی کہ ان کی زبان کسی طبیعی عامل کے بغیر تین دن کے لئے بے کار ہو گئی ۔ وہ عام گفتگو نہ کرسکتے تھے لیکن خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کی تسبیح کے وقت ان کی زبان بغیر کسی تکلیف کے کام کرتی تھی ۔ یہ عجیب و غریب کیفیت تمام امور پر اللہ کی قدرت کے لئے ایک نشانی تھی ۔ وہ خدا جو بندزبان کو اپنے ذکر کے وقت کھول دینے کی طاقت رکھتا ہے وہ یہ قدرت بھی رکھتا ہے کہ کسی بانجھ رحم سے ایک ایسا بایمان بچہ پیدا کردے جو ذکر پر وردگار کا مظہر ہو اسی سے اس نشانی کا اس چیز سے ربط ظاہر ہوجاتا ہے جو حضرت زکریا (ع) چاہتے تھے ۔
یہی مضمون سورہ ٴ مریم کی ابتدائی آیات میں بھی ہے ۔
ممکن ہے اس نشانی میں ایک اور نکتہ پنہاں ہو اور وہ یہ کہ اس مسئلے میں جناب زکریا (ع) کا زیادہ اصرار اور نشانی کا تقاضا اگر چہ فعل حرام اور مکروہ نہ تھا لیکن بہرحال ترکِ اولیٰ سے کچھ مشابہ ضرور تھا اسی لئے خداتعالیٰ کی طرف سے ایسی نشانی دی گئی جو قدرت نمائی بھی تھی اور ترک اولیٰ پر تنبیہ اور اشارہ بھی تھا ۔
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ کیا پیغمبروں کی زبان کی بندش ان کے مقام نبوت اور تبلیغی فریضے سے مناسبت رکھتی ہے ؟
اس سوال کا جواب زیادہ مشکل نہیں کیونکہ یہ بات اس وقت فریضہ نبوت سے مناسبت رکھتی جب اس کا عرصہ طویل ہوتا، ایسی تھوڑی سی مدت جس میں پیغمبر اپنی امت سے الگ ہو کر عبادت ِخدا میں مشغول رہے تو کچھ غیر مناسب نہیں جبکہ وہ اس مدت میں بھی ضروری امور اشارے سے بتا سکتے تھے یا آیاتِ خدا کے ذریعے حقائق سمجھا سکتے تھے کیونکہ آیا ت خدا تو ذکر پروردگار شمار ہوتی تھیں اور اتفاق کی بات ہے کہ ا نہوں نے یہ کام بھی اور اشارے سے لوگوں کو ذکر خدا کی تبلیغ کی ۔
” وَاذْکُرْ رَبَّکَ کَثِیرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَالْإِبْکارِ“۔
”لفظ ”عشی“ عموماً”دن کے آخری لمحات“کےلئے استعمال ہوتا ہے جیسے ” دن کی ابتدائی گھڑیوں“کو ”اِبکار “ کہتے ہیں اور بعض کا نظریہ ہے کہ ابتدائے زوال سے لے کر غروب آفتاب تک ” عشی “ ہے اور طلوع فجر کی ابتداء سے لے کر زوال تک ”اِبکار“ ہے ۔ (”المصحف المفتر“از فرید وجدی ، محل بحث آیت کے ذیل میں ۔لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں یہ دونوں لفظ زیادہ تر پہلے معانی کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔

 

اس جملے میں قرآن نے بتا یا ہےحضرت زکری(ع) کا تعجب اور حیرانی کس بناء پر تھی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma