مصنوعی تلقیح(مصنوعی طریقے سے عورت کے رحم میں نطفہ ڈالنا)

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 03
حمل کی روک تھامجنسیت کی تبدیلی

سوال ١٤٣٦۔ بعض مراجع عظام نے تلقیح کو اُس صورت میں جائز جانا ہے اور وہ اس سلسلے میں فرماتے ہیں: ''شوہر کا نطفہ مقدمات حرام کے ایجاد ہوئے بغیر، خود شوہر کے ذریعہ بیوی کے رحم میں ڈالا جائے'' اب اگر یہ کام عدم تخصص اور ناآگاہی کی وجہ سے سیپٹک کے پھیلنے کا سبب ہوجائے اور اتفاقاً بیوی مربھی جائے، کیا شوہر ضامن ہے، یا وہ افراد ضامن ہیں جنھوں نے اس کو بغیر آگاہی لازم ہے اس کام کے کرنے کی ترغیب دلائی تھی؟

جواب: اگر اس کام کی ضرورت محسوس کی جائے تو ماہر افراد اس کام کو انجام دے سکتے ہیں تاکہ کوئی خطرہ پیش نہ آئے ۔

سوال ١٤٣٧۔اگر کسی جگہ تلقیح کا عمل شبہہ ناک ہو (مثلاً عورت گمان کرے کہ نطفہ اُس کے شوہر کا ہی تھا اور مرد بھی گمان کرے کہ جس عورت کے رحم میں نطفہ ڈالا گیا ہے وہ اس کی ہی بیوی تھی، حالانکہ ایسا نہیں تھا) کیا اس بچے پر جو اس عمل سے دنیا میں آئے گا اولاد کے احکام جاری ہوں گے؟

جواب: صاحب نطفہ اور اس عورت کے لئے وہ بچہ، ولد شبہہ ہے اور اس عورت کے شوہر کے لئے بھی محرم ہے ۔

سوال ١٤٣٨۔ اگر آئندہ میں علم اتنا ترقی کرجائے کہ مرد کا نطفہ بغیر عورت کے نطفہ کی ترکیب کے ایک مصنوعی رحم میں پرورش کیا جائے، تو اس کا حکم کیا ہوگا؟

جواب: وہ بچّہ فقط صاحب نطفہ سے منسوب ہوگا؛ لیکن اس کا شرعی فرزند شمار نہیں ہوگا۔

سوال ١٤٣٩۔ اگر علم اتنی ترقی کرجائے کہ نطفہ کو دانوںنباتات سے نکال کر عورت کے رحم میں ڈال دیں اور ایک مصنوعی بچہ وجود میں آجائے، اس صورت میں وہ بچہ کس سے منسوب ہوگا؟

جواب: یہ بچّہ فقط اس عورت کے لئے محرم ہے، لیکن اس بچے کا اُس عورت سے میراث لینا ثابت نہیں ہے ۔

سوال ١٤٤٠۔ اگر نطفہ کو نباتات سے حاصل کرکے ایک مضنوعی رحم میں پرورش کریں اور اس سے ایک بچہ پیدا ہوجائے، یہ بچہ کس سے ملحق ہوگا؟

جواب: یہ بچہ کسی سے بھی ملحق نہیں ہوگا؛ یعنی نہ اس کا کوئی باپ ہے اور نہ کوئی ماں ۔

سوال ١٤٤١۔ آزمائش گاہ (لیبارٹی) میں حاملہ کرنے کے مختلف طریقے ہیں مہربانی فرماکر ہر ایک کا حکم بیان فرمائیں:
١۔ آزمائشگاہ میں مرد کی منی سے فعّال اسپرموں( جنس نرکے سیلز) کو جدا کرے ان کو بیوی کے رحم میں ڈالنا۔

جواب: اس کام میں ذاتاًکوئی اشکال نہیں ہے؛ لیکن اگر غیر شرعی نظر اور لمس کا باعث ہو تو فقط ضرورت کے وقت جائز ہے ۔
٢۔ شوہر اور ایک اجنبی مرد کی منی کو مخلوط کرکے مرد کی بیوی کے رحم میں منتقل کرنا۔

جواب: اگر نطفہ کا انعقاد شوہر کی منی سے ہو تو اشکال نہیں ہے) ہرچند کہ اجنبی مرد کی منی نے اس کو تقویت پہنچائی ہو، لیکن اگر نفطہ کا انعقاد اجنبی مرد کے نطفہ سے ہو تو حرام ہے ۔

سوال ١٤٤٢۔ ایک عورت اپنے رحم میں ایک اجنبی مرد کا نطفہ انجکشن کے ذریعہ نطفہ منتقل کرانے سے حاملہ ہوئی (گویا اس نے اپنے رحم کو کرایہ پر دیا ہے) وضع حمل کے بعد بچے کو صاحب نطفہ کے سپرد کردیتی ہے اس مسئلہ کا کیا حم ہے؟ بچہ کس سے ملحق ہے؟ میراث کی نظر سے کیسا ہے؟

جواب: اجنبی مرد کا نطفہ اجنبی عورت کے رحم میں منتقل ہونا حرام ہے وہ بچہ جو ان دونوں کے نطفہ کی ترکیب سے متولد ہوا ہے نامشروع بچے کا حکم رکھتا ہے، لیکن اگر مرد کے نطفہ کو اس کی شرعی بیوی کے نطفہ کو رحم سے باہر ترکیب دیں اور اس کو کسی دوسری عورت کے رحم میں پرورش دیں تو بچہ مشروع اور صاحبان نطفہ سے متعلق ہوگا، لیکن اگر اس کام میں ضروری مواقع کے علاوہ اشکال ہے ۔

سوال ١٤٤٣۔ اگر اس جنین کو جو شوہر اور بیوی کے نطفہ کو مصنوعی رحم میں ڈالنے سے وجود میں آیا ہے ایک اجنبی عورت کے (جانشین ماں) کے رحم میں منتقل کردیں تو اس سلسلے میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں:
١۔ تکلیفی لحاظ سے اس کام کا کیا حکم ہے؟

جواب: یہ کام ذاتاً جائز ہے؛ لیکن غالباً نظر اور لمسِ حرام کا باعث ہے لہٰذا ضروری موارد کے علاوہ جائز نہیں ہے ۔

٢۔ اس بچے کی ماں کونسی عورت ہے؟ کیا جانشین ماں کو رضاعی ماں کے حکم میں مان سکتے ہیں؟

جواب: نطفہ کے صاحبان بچّے کے حقیقی ماں باپ ہیں اور جانشین ماں بچّے کی رضاعی ماں کے حکم میں ہے ۔

٣۔ کیا اجنبی عورت (جانشین ماں)کا شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہونا اس کو علم ہونا یا نہ ہونا، رحم کو مفت دینا یا مفت نہ دینا مربوطہ احکام میں مؤثر ہیں؟

جواب: ان سب میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن اگر جانشین ماں شادی شدہ ہے تو شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے ۔

سوال ١٤٤٤۔ کیا اجنبی مرد اور عورت کے نطفہ کو آزمائشی ٹیوب میں ڈال سکتے ہیں؟ اگر اس سے کوئی بچہ پیدا ہوجائے تو کس سے متعلق ہوگا؟ کیا ولدالزنا کے حکم میں ہوگا؟

جواب: یہ کام جائز نہیں ہے اور اگر کوئی بچہ پیدا ہوجائے تو بہت سے احکام میں صاحبان نطفہ کے تابع ہوگا؛ لیکن ان کا وارث نہیں بن سکتا۔

سوال١٤٤٥۔ میں ٢٦سالہ عورت ہوں، شادی سے پہلے ہر ماہ بہت شدید درد مں مبتلا رہتی تھی، ڈاکٹروں نے کہا: یہ مشکل شادی اور بچے کی ولادت کے بعد حل ہوجائے گی اسی وجہ سے ٦ سال پہلے شادی کی اور چونکہ میں بہت زیادہ درد برداشت کرتی رہی ہوں لہٰذا چاہتی تھی کہ جلد از جلد ماں بن جائوں، لیکن افسوس کہ شادی کے ٩ ماہ بعد متوجہ ہوئی کہ میرا شوہر کاملاً عقیم ہے اور میں ماں نہیں بن سکتی، چونکہ یہ مسئلہ میرے لئے بہت مہم تھا اس لئے وقت سے پہلے اپنا حوصلہ کھو بیٹھی، اب ڈاکٹر کہتے ہیں فقط ایک راستہ ہے وہ یہ کہ: ''انجکشن کے ذریعہ اجنبی مرد کا نطفہ تمھارے رحم میں ڈالا جائے'' پہلے تو میں اس کام پر راضی نہیں تھی، کیونکہ آپ کی مقلّدہ ہوں اور آپ کے فتوے کے مطابق یہ کام حرام ہے لیکن اب میری جان پر بنی ہے، لہٰذا حضور فرمائیں کہ کیا کروں کہ ماں بھی بن جاؤں اور گناہ کی مرتکب بھی نہ ہوؤں؟

جواب: اس کی شرعی راہ فقط یہ ہے کہ آپ اپنے شوہر سے (چاہے مخفی طریقے سے ہی کیوں نہ ہو اور اطراف والے بھی نہ سمجھ پائیں) طلاق لے لیں اور عدت کے بعد صاحب نطفہ سے عقدِ مؤقت (متعہ) کرلیں (چاہے ایک دوسرے کو نہ بھی دیکھیں) پھر آپ کے رحم میں اس کا نطفہ ڈلاجائے، عقد مؤقت (متعہ) کی مدّت گذر جانے اور ولادت کے بعد دوبارہ پہلے شوہر کے عقد میں آجائیں،٫اس طرح تم اس بچے کی ماں اور صاحب نطفہ، اُس بچے کا باپ ہوگا اور وہ بچہ تمھارے شوہر کے لئے بھی محرم ہے لیکن تمھارے شوہر کے اعزاء واقارب کے لئے محرم نہیں ہے لیکن تمھارے اعزاء واقارب کے لئے محرم ہے ۔

حمل کی روک تھامجنسیت کی تبدیلی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma