جرح وتنقید اور اعتراضات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
۱۔ کیا مولیٰ کا معنی اولیٰ بالتصرف ہے؟واقعہ غدیر کا خلاصہ

اس میں شک نہیں کہ اگر یہ آیت خلافتِ علی  کے علاوہ کسی دوسرے موضوع سے متعلق ہوتی تو جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ ان روایات اور خود آیت میں موجود قرائن سے کم مقدار پر بھی قناعت کرلی جاتی جیسا کہ دنیائے اسلام کے بڑے بڑے مفسّرین نے قرآن کریم کی باقی تمام آیات کی تعبیر میں بعض اوقات زیر نظر آیت کے موجود مدارک کے دسویں حصّہ بلکہ اس سے بھی کم تر پر قناعت کرلی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس مقام پر تعصّب کے پردے بہت سے حقائق کو قبول کرنے میں رکاوٹ بن گئے ہیں ۔
جن لوگوں نے اس آیت کی تفسیر اور اُن متعدد روایات کے متعلق جو اس آیت کی شان نزول کے بارے میں بیان ہوئی ہیں اختلاف کیا ہے اور حدِّ تواتر سے بڑھی ہوئی اُن روایات کے مقابلے میں علم مخالفت بلند کیا ہے جو دراصل واقعہ غدیر کے متعلق ہیں دوقسم کے ہیں:
پہلی قسم ان لوگوں کی ہے کہ جو شروع ہی سے نہ صرف دشمنی اور ہٹ دھرمی سے اس پر بحث کرتے ہیں بلکہ انھوں نے شیعوں کی ہتک وتوہین، بدگوی اور دشنام طرازی کا راستہ اختیار کیا ہے ۔
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنھوں نے روح تحقیق کی حفاظت کی ہے اور وہ کسی حد تک حقیقت کی تہ تک پہنچ گئے ہیں لہٰذا انھوں نے استدلال کی راہ اپنائی ہے اسی بناپر انھوں نے حقائق کے ایک حصّے کا اعتراف کرلیا ہے ۔ لیکن انھوں نے اس آیت اور اس سے مربوط روایات بیان کرنے سے پہلے کچھ اشکالات بیان کئے ہیں اور وہ اشکالات جو شاید اُن حالات کا نتیجہ تھے جو اُن کے فکری ماحول پر محیط تھا، بیان کرنے کے بعد اس آیت اور اس آیت سے مربوط روایات ذکر کی ہیں ۔
پہلے گروہ کا واضح نمونہ ابن تیمیہ ہے اس نے اپنا موقف کتاب ”منہاج السنة“ میں بیان کیا ہے اس میں اس کی حالت بالکل اس شخص کی طرح ہے جو روز روشن میں اپنی آنکھیں بند کرلے اور اپنی انگلیاں زور سے کانوںمیں ٹھونس لے اور چلّانا شروع کردے کہ سورج کہاں ہے ۔ نہ تو وہ اپنی آنکھوں کو کھولنے کے لئے تیار ہوتا ہے کہ کچھ حقائق کو دیکھ لے، نہ کانوں سے انگلیاں نکالنے پر آمادہ ہوتا ہے کہ کچھ اسلامی محدثین ومفسّرین کی داد وفریاد سن سکے، بس مسلسل اور پے درپے گالیاں دیئے چلے جارہا ہے اور ہتک حرمت پر کمربستہ ہے ۔ ایسے افراد جہالت، بے خبری، ہٹ دھرمی اور خشونت آمیز تعصّب کے ہاتھوں اتنے مجبور ہیں کہ ایسے واضح اور بدیہی مسائل کا بھی انکار کردیتے ہیں جن کا ہر آدمی آسانی کے ساتھ اِدراک کرسکتا ہے ۔ لہٰذا ایسے شخص کی باتیں نقل کرنے کی ہم اپنے آپ کو زحمت دیتے ہیں اور نہ ہی ان کے جوابات پڑھنے کی تکلیف قارئین کو دیتے ہیں کیونکہ عظیم اسلامی علماء ومفسرین جن کی اکثریت علماء اہل سنت میں سے ہے جنھوں نے نے تصریح کی ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جو شخص ان کے خلاف ڈھٹائی سے کہے کہ ان میں سے کسی ایک نے بھی ایسی کوئی چیز اپنی کتاب میں نقل نہیں کی، ایسے شخص کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں اور ایسے آدمی کی بات کیا وزن رکھتی ہے کہ جس پر ہم بحث کریں ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ”ابن تیمیہ“ نے اُن بہت سی معتبر کتابوں کے مقابلے میں کہ جن میں اس آیت کے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اپنی برائت کے لئے اس مضحکہ خیز جملہ پر اکتفا کیا ہے:
”اُن علماء میں سے جویہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں کوئی بھی اس آیت کوحضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے کو نہیں جانتا“
گویا صرف وہ علماء جو ابن تیمیہ کے عناد آلود ہٹ دھرمی کے افراط زدہ میلانات کے ساتھ ہم آواز ہیں صرف وہی ”سمجھتے ہیں کہ کیا کہہ رہے“ ورنہ جو شخص اس کا ہم آواز نہیں ہے وہ ایسا دانشمند ہے کہ جسے یہ پتہ ہی نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔ یہ ایسے شخص کی منطق ہے کہ جس کی فکر خود خواہی اور ہٹ دھرمی سایہ فگن ہے ۔ ہم اس گروہ کا ذکر یہیں پر چھوڑتے ہیں ۔
البتہ ان اعتراضات میں سے جو دوسرے گروہ نے کئے ہیں اُن میں چند قابل بحث ہیں جنھیں ہم ذیل میں آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں ۔

۱۔ کیا مولیٰ کا معنی اولیٰ بالتصرف ہے؟واقعہ غدیر کا خلاصہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma