خدا نے بیت الحرام کو لوگوں کے امر کے قیام کا ذریعہ قرار دیا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
کعبہ کی اہمیت حالتِ احرام میں شکار کی حرمت کا فلسفہ

گذشتہ آیات میں حالتِ احرام میں شکار کی حرمت کے بارے میں بحث تھی ۔ اس آیت میں ”مکہ“ کی اہمیت اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی اصلاح و ترتیب میں اس کے اثر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پہلے فرماتا ہے: خدا نے بیت الحرام کو لوگوں کے امر کے قیام کا ذریعہ قرار دیا (جَعَلَ اللهُ الْکَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِلنَّاس) ۔
یہ مقدس گھر لوگوں کے اتحاد کی علامت، دلوں کے مجتمع ہونے کا ایک وسیلہ اور مختلف رشتوں اور گرہوں کے استحکام کے لئے ایک عظیم مرکز ہے ۔ اس مقدس گھر اور اس کی مرکزیت و معنویت کے سائے میں کہ جو گہری تاریخی بنیادوں پر استوار ہے، وہ اپنی بہت سی بے سامانیوں کا سامان (اور بہت سی خرابیوں اور کمزوریوں کی اصلاح) کرسکتے ہیں اور اپنی سعادت کا محل اس کی بنیادوں پر کھڑا کرسکتے ہیں ۔ اس لئے سورہٴ آلِ عمران میں خانہ کعبہ کو وہ پہلا گھر بتایا گیا ہے جو لوگوں کے فائدے کے لئے بنایا گیا ہے ۔ (۱)
حقیقت یہ ہے کہ
”قِیَاماً لِلنَّاسِ“ کے معنی کی وسعت کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمان اس گھر کی پناہ میں اور حج کے اسلامی حکم کے سائے میں اپنے تمام معاملات کی اصلاح کرسکتے ہیں ۔
چونکہ ضروری تھا کہ یہ مراسم جنگ، کشمکش اور نزاع سے ہٹ کر امن و امان کے ماحول میں صورت پذیر ہوں، حرام مہینوں (وہ مہینے کہ جن میں جنگ مطلقاً حرام ہے) کے اثر کی طرف اس موضوع میں اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے
(وَالشَّہْرُ الْحَرَامَ) ۔ (۲)
علاوہ ازیں اس نظر سے کہ بے نشان قربانیوں (صدی) اور نشاندار قربانیوں (قلائد) کا وجود، کہ جو مراسم حج و عمرہ میں مشغول ہونے کے دونوں میں لوگوں کو غذا مہیا کرتا ہے اور ان کی سوچ کو اس جہت سے آسودہ خاطر کرتا ہے، اس پروگرام کی تکمیل میں مخصوص اثر رکھتا ہے ۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے
(وَالْہَدْیَ وَ الْقَلَائِدَ) ۔۔
اور چونکہ یہ تمام پروگرام، قوانین اور مقرر شدہ احکامِ شکار، اور اسی طرح حرم مکہ و ماہ حرام وغیرہ ایک قانون ساز کی وسعتِ علم اور تدبیر کی گہرائی کا پتہ دیتے ہیں لہٰذا آیت کے آخر میں اس طرح کہتا ہے کہ: خدانے یہ منظم پروگرام اس لئے مقرر کیے ہیں تاکہ تمھیں معلوم ہوجائے کہ اس کا علم اس قدر وسیع ہے کہ جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب کو جانتا ہے اور تمام چیزوں سے خصوصاً اپنے بندوں کی روحانی اور جسمانی ضروریات سے باخبر ہے
(ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ وَاٴَنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ) ۔
ہم جو کچھ سطور بالا میں کہہ آئے ہیں اسے مد نظر رکھتے ہوئے آیت کی ابتدا ور انتہا کا با ہمی تعلق واضع ہو جاتا ہے ۔کیونکہ ان گہرے تشریع احکام کو وہی ذات منظم کرسکتی ہے جو قوامین تکوینی کی گہرائی سے آگاہ اورباخبر ہو ۔ جب تک کوئی زمین اور آسمان کے تمام جزئیات اور روح وجسم کے تخلیقی رموز سے آگاہ نہ ہو، وہ ایسے احکام کی پیش بینی نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ وہی قانون درست اور اصلاح کنندہ ہوسکتا ہے جو قانونِ خلقت و فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو ۔
پھر بعد والی آیت میں گذشتہ احکام کی تاکید، لوگوں کو ان کے انجام دینے کی تشویق اور مخالفین اور نافرمانوں کی تہدید کے طور پر فرماتا ہے: جان لو کہ خدا شدید العقاب (ہونے کے ساتھ) غفور رحیم بھی ہے
(اعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ وَاٴَنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ) ۔
نیز یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ مندرجہ بالا آیت میں
”شدید العقاب“کو ”غفور رحیم“ پر مقدم رکھا گیا ہے، تو شاید یہ امن بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدائی سزاکو اس کی پوری شدت کے باوجود توبہ کہ پانی سے دھویا جاسکتا ہے اور خداکی مغفرت و رحمت شامل حال ہوسکتی ہے ۔
پھر مزید تاکید کے لئے فرماتا ہے: اپنے اعمال کے جواب دہ خود تمہی ہو، اور پیغمبر کی ذمہ داری تبلیغِ رسالت اور احکام خدا تم تک پہنچانے کے سوا کچھ نہیں
(مَا عَلَی الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ ) ۔
اس کے باوجود خدا تمھاری نیتوں سے اور تمھارے سب آشکار وپنہاں اعمال سے باخبر آگاہ ہے
(وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَکْتُمُون) ۔

 

 

 
۱۔سورہٴ آل عمران، آیت۹۶-
۲۔حرام مہینوں کے بارے میں جلد دوم میں سورہٴ بقرہ کی آیت۱۹۴ کے ذیل میں بحث ہوچکی ہے-
کعبہ کی اہمیت حالتِ احرام میں شکار کی حرمت کا فلسفہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma