غیر مناسب سوالات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
چار غیر مناسب ”بدعات“اکثریت پاکیزگی کی دلیل نہیں

اس میں شک نہیں کہ سوال کرنا حقائق کو سمجھنے کی کلید ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو کم پوچھتے ہیں کم جانتے ہیں ۔آیات وروایاتِ اسلامی میں بھی مسلمان کو تاکیدی حکم دیاگیا ہے کہ جو کچھ وہ نہیں جانتے پوچھیں، لیکن چونکہ ہر قانون کا کوئی استثنائی پہلو ہوتا ہے لہٰذاتعلیم وتربیت کی یہ بنیاد بھی استثنا سے خالی نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض اوقات کچھ مسائل کا مخفی رہنا اجتمائی نظام کی حفاظت اور لوگوں کی مصلحتوں کے پیش نظر بہتر ہوتا ہے ۔ ایسے مواقع پر واقعیت اور حقیقت کے چہرے سے پردہ اُٹھانے کے لئے جستجو کرنا اور پے در پے سوال کرنا نہ صرف یہ کہ فضیلت نہیں رکھتا، بلکہ مذموم و ناپسندیدہ بھی ہے ۔ مثلاً زیادہ تر ڈاکٹراسی میں مصلحت جانتے ہیں کہ سخت اور وحشت ناک بیماریوں کو بیمار سے مخفی رکھیں ۔ بعض اوقات صرف ساتھ والے لوگوں کو اصل ماجرا کی خبر دیتے ہیں، اس شرط کے ساتھ کہ بیمار سے چھپائے رکھیں ۔ کیونکہ تجربہ نشاندہی کرتا ہے کہ بہت سے لوگ اگر اپنی بیماری کے گہرے پن سے باخبر ہوجائیں تو وحشت و سرگردانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں یہ وحشت اُنھیں مارنہ ڈالے تو کم از کم بیماری سے صحت یابی میں تاخیر کا سبب ضرور بن جاتی ہے ۔
لہٰذا ایسے مواقع پر بیمار کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنے ہمدرد و طبیب کے سامنے سوال و اصرار کرنے لگے کیونکہ اس کا بار بار اصرار بعض اوقات طبیب پر میدان کو اس طرح تنگ کردیتا ہے کہ وہ اپنی آسودگی اور دوسرے بیماروں کی خبر گیری کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں دیکھتا کہ اس ”ہٹ دھرم“بیمار کے لئے حقیقت واضع کردے، اگر چہ اسے اس سے بہت نقصانات اٹھانا پڑیں ۔
اسی طرح لوگ اپنے ساتھیوں کے بارے میں خوش گمانی کے محتاج ہیں اور اس عظیم سرمائے کی حفاظت کے لئے بہتر ہی ہے کہ ایک دوسرے کے حالات کی تمام تفصیلات سے باخبر ہوں، کیونکہ آخر کام ہر شخص میں کوئی نہ کوئی کمزوری ضرور ہوتی ہے، اور تمام کمزوریوں کا فاش ہوجانا، لوگوں کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے میں مشکلات پیدا کردے گا ۔مثلاً ہوسکتا ہے کہ ایک فرد جو موثر شخصیت کامالک ہے، اتفاق سے کسی پست اور نچلے خاندان میں پیدا ہوا ہے اب اگر اس کا سابقہ حال فاش ہوجائے تو ہوسکتا ہے کہ اس کے وجود کی تاثیر معاشرے میں متزلزل ہوجائے ۔ اس لئے اس قسم کے مواقع پر لوگوں کو کسی طرح بھی اصرار نہیں کرنا چاہیے اور کسی جستجو میں نہیں پڑنا چاہیے ۔
یا یہ کہ مبارزات اجتماعی کے بہت سے منصوبے ایسے ہوتے ہیں جنھیں عملی شکل دینے تک پوشیدہ رہنا چاہیے اور ان کے افشا پر اصرار کرنا معاشرے کی کامیابی پر منفی طور پر اثر انداز ہوگا ۔
یہ اور ان جیسے کئی ایک مواقع ایسے ہیں جن میں سوال کرنا صحیح نہیں ہے اور رہبر اور قائدین کو جب تک وہ بہت زیادہ دباؤ اور فشار میں نہ ہوں ان کا جواب نہیں دینا چاہیے ۔
قرآن زیر نظر آیت میں اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صراحت کے ساتھ کہتا ہے: اے ایمان لانے والو! ایسے امور کے افشا کے متعلق سوال نہ کرو کہ جو موجب رنج و تکلیف ہوں
( یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَسْاٴَلُوا عَنْ اٴَشْیَاءَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ ) ۔
لیکن اس سبب سے کہ بعض افراد کی طرف سے پے در پے سوالات کا ہونا اور ان کا جواب نہ دینا ممکن ہے دوسروں کے لئے شک و شبہ کا باعث بن جائے اور بہت سے مفاسد پیدا کرد ے تو مزید کہتا ہے: اگر ایسے مواقع پر زیادہ اصرار کرو گے تو آیاتِ قرآن کے ذریعے تمھارے لئے افشاء ہوجائیں گے اور تم زحمت و تکلیف میں پڑ جاؤ گے
(وَإِنْ تَسْاٴَلُوا عَنْھَا حِینَ یُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَکُم) ۔
یہ جوان کے افشاء کرنے کو نزول قرآن کے زمانے کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سوالات ایسے مسائل سے مربوط تھے جنھیں وحی کے ذریعے ہی واضح اور روشن ہونا تھا ۔
مزید ارشاد ہوتا ہے: یہ خیال نہ کرو کہ اگر خدا کچھ مسائل بیان کرنے سے سکوت اختیار کرتا ہے تو اُن سے غافل تھا بلکہ وہ تمھارے لئے وسعت چاہتا ہے اور انھیں معاف کردیا ہے اور خدا بخشنے والا حلیم و بردبار ہے
( عَفَا اللهُ عَنْھَا وَاللهُ غَفُورٌ حَلِیم) ۔
ایک حدیث میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
”ان اللّٰہ افترض علیکم فرائض فلا تضیعوہا وحد لکم حدوداً فلا تعتدوہا و نہی عن اشیاء فلا تنتھکوہا و سکت لکم عن اشیاء ولم یدعہا نسیانا فلا تتکلفوہا “
خدا نے کچھ واجبات تمھارے لئے مقرر کیے ہیں، انھیں ضائع نہ کرو اور کچھ حدود تمھارے لئے نافذ کی ہیں اُن سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں سے منع کیا ہے اُن کی پردہ دری نہ کرو اور کچھ امور سے خاموش رہا ہے اور ان کے پوشیدہ رکھنے کو اس نے بہتر سمجھا ہے اور یہ پوشیدہ رکھنا نسیان اور بھول چوک کی وجہ سے ہرگز نہیں تھا ۔ ایسے امور کے افشاء اور ظاہر کرنے پر اصرار نہ کرنا ۔ (1)

 

ایک سوال اوراس کا جواب

 

ممکن ہے کہا جائے کہ اگر ان امور کا افشا کرنا لوگوں کی مصلحت کے خلاف ہے تو پھر اصرار کی صورت میں اُسے کیوں افشاء کیا جاتا ہے؟
اس کی دلیل وہی ہے جس کی طرف اُوپر اشارہ ہوچکا ہے کہ بعض اوقات اگر پے در پے سوالات کے مقابلے میں سکوت اور خاموشی اختیار کرلی جائے تو اُس سے کئی دوسرے مفاسد پیدا ہوجاتے ہیں، بدگمانیاں سر اٹھالیتی ہیں، اور لوگوں کے اذہان خراب ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ جیساکہ اگر طبیب بیمار کے پے در پے سوالات کے جواب میں سکوت اختیار کرے تو بعض اوقات ہوسکتا ہے یہ امر بیمار کو طبیب کے بارے میںبیماری کی اصل تشخیص کے سلسلے میں شک میں ڈال دے اور وہ یہ خیال کرے کہ اصولی طور پر اس کی بیماری کی شناخت نہیں ہوسکی ۔ لہٰذا وہ طبیب کی ہدایات پر عمل نہ کرے تو اس صورت میں طبیب کے پاس بیماری کے افشاء کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا ۔ اگر چہ بیمار اس طریقے سے کئی ایک مشکلات اور دشواریاں پیدا کرے گا ۔
بعد والی آیت میں اِس آیت کی تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے: گذشتہ اقوام میں سے بھی بعض لوگ اسی قسم کے سوالات کیا کرتے تھے اور جب انھیں جواب دیا گیا تو مخالفت اور نافرمانی کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے
( قَدْ سَاٴَلَھَا قَوْمٌ مِنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اٴَصْبَحُوا بِھَا کَافِرِینَ ) ۔
اس سلسلے میں کہ یہ اشارہ گذشتہ اقوام میں سے کس قوم سے مربوط ہے، مفسّرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض کا تو یہ خیال ہے کہ اس کا تعلق حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کے اپنے شاگردوں کے ذریعہ مائدہ آسمانی کی درخواست سے مربوط ہے کہ جس کے صورت پذیر ہوجانے کے بعد بعض مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے ۔
بعض نے یہ احتمال پیش کیا ہے کہ اس کا ربط حضرت صالح(علیه السلام) سے معجزہ طلب کرنے کے ساتھ ہے لیکن ظاہراً یہ تمام احتمالات صحیح نہیں ہیں کیونکہ آیت ایسے سوال کے بارے میں گفتگو کررہی ہے جس کا معنی ”پوچھنا“ اور کشفِ مجہول کرنا ہے نہ کہ وہ سوال جس کا معنی تقاضا کرنا اور کسی چیز کی درخواست کرنا ہے ۔ گویا لفظ ”سوال“ کا دونوں معنی میں استعمال ہونا اس قسم کے اشتباہ کا سبب بنا ہے ۔
البتہ ممکن ہے کہ جماعت بنی اسرائیل مراد ہو کہ جب وہ ایک جرم (قتل) کی تحقیق کے سلسلے میں ایک گائے کے ذبح کرنے پر مامور ہوئے تھے (جس کی توضیح جلد اول میں گزرچکی ہے) تو اُنہوں نے موسیٰ سے ٹیڑھے سوال کیے اور گائے کی جزئیات کے بارے میں ایسے پے در پے سوالات کیے جن کے بارے میں کوئی خاص حکم اُنھیں نہیں دیا گیا تھا ۔ اسی بناء پر انہوں نے کام اپنے اُوپر اتنا سخت کرلیا تھا کہ ایسی گائے کا ہاتھ آنا اس قدر مشکل اور قیمتی ہوگیا کہ قریب تھا کہ اس سے صرف نظر کرلیں ۔
”اٴَصْبَحُوا بِھَا کَافِرِینَ“۔ اس جملے کے بارے میں دو احتمال پائے جاتے ہیں: پہلا یہ کہ ”کفر“ سے مراد نافرمانی اور مخالفت ہو جیسا کہ اوپر اشارہ کرچکے ہیں اور دوسرا یہ کہ ”کفر“ اپنے مشہور معنیٰ میں ہو، کیونکہ بعض اوقات ایسے تکلیف دہ جوابات سُننا جو سُننے والے کے ذہن پر بوجھ بن جاتے ہیں کہ وہ اصل موضوع اور کہنے والے کی صلاحیت کا ہی انکار کرنے پر آمادہ ہوجائے، مثلاً یہ کہ بعض اوقات طبیب کی طرف سے ایک تکلیف دہ جواب کا سننا اس بات کا سبب بن جاتا ہے کہ بیمار اپنی طرف سے مخالفت کا اظہار کرے اور اس کی صلاحیت کا ہی انکار کردے اور اس تشخیص کو بڑھاپے کا نتیجہ قرار دے یا یہ کہے کہ طیب مخبوط الحواس ہے ۔
اس بحث کے آخر میں ہم یہ نکتہ دُہرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ زیر بحث آیات کسی صورت میں بھی، منطقی، علمی، تہذیبی اور تربیتی سوالات کی راہ لوگوں بند نہیں کرتیں بلکہ یہ پابندی منحصر طور پر صرف بے جا اور نامناسب سوالات اور ایسے امور کے متعلق جستجو سے مربوط ہے جس کے پوچھنے کی نہ صرف یہ کہ ضرورت واحتیاج نہیں ہے بلکہ ان کا چُھپا رہنا ہی بہتر بلکہ بعض اوقات تو لازمی اور ضروری ہوتا ہے

۱۰۳ مَا جَعَلَ اللهُ مِنْ بَحِیرَةٍ وَلاَسَائِبَةٍ وَلاَوَصِیلَةٍ وَلاَحَامٍ وَلَکِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا یَفْتَرُونَ عَلَی اللهِ الْکَذِبَ وَاٴَکْثَرُھُمْ لاَیَعْقِلُونَ
۱۰۴ وَإِذَا قِیلَ لَھُمْ تَعَالَوْا إِلَی مَا اٴَنزَلَ اللهُ وَإِلَی الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَائَنَا اٴَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُھُمْ لاَیَعْلَمُونَ شَیْئًا وَلاَیَھْتَدُونَ
ترجمہ
۱۰۳۔ خدا نے کوئی
”بحیرہ“، ”سائبہ“، ”وصیلہ“، ”حام“ قرار نہیں دیا(۱) لیکن جو لوگ کافر ہوگئے انھوںنے خدا پر جھوٹ باندھا اور اُن میں سے زیادہ تر تو سمجھتے نہیں ہیں ۔
۱۰۴۔ اور جس وقت ان سے کہا جائے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کی طرف اور پیغمبر کی طرف آؤ۔ تو وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے اپنے آباؤاجداد سے پایا ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے ۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ ان کے آباؤاجداد کچھ نہیں جانتے اور انھوں نے ہدایت حاصل نہیں کی تھی ۔

 

 


 
1۔ مجمع البیان آیہ محل بحث کے ذیل میں ۔
چار غیر مناسب ”بدعات“اکثریت پاکیزگی کی دلیل نہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma