اس دن سے ڈرو جس دن خدا پیغمبروں کو جمع کرے گا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
مسیح(علیه السلام) پر انعاماتِ الٰہیاسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ایک حفظِ حقوق

یہ آیت حقیقت میں گذشتہ آیات کی تکمیل کرتی ہے کیونکہ گذشتہ آیات کے ذیل میں جو حق وباطل کی شہادت کے مسئلہ کے ساتھ مربوط تھیں ، تقویٰ اور حکم خدا کی مخالفت سے ڈرنے کا حکم دیا گیا تھا، اس آیت میں کہتا ہے کہ اس دن سے ڈرو جس دن خدا پیغمبروں کو جمع کرے گا اور اُن سے رسالت اور ان کی ماموریت کے بارے میں سوال کرے گا اور اُن سے کہے گا کہ لوگوں نے تمھاری دعوت کا کیا جواب دیا تھا (یَوْمَ یَجْمَعُ اللهُ الرُّسُلَ فَیَقُولُ مَاذَا اٴُجِبْتُمْ) ۔
وہ اپنے کسی بھی قسم کے ذاتی علم کی نفی کرتے ہوئے تمام حقائق کو علم پروردگار کے ساتھ وابستہ کرکے کہیں گے: خداوندا! ہمیں کوئی علم نہیں ہے تو ہی تمام پوشیدہ اور چھپی ہوئی چیزوں سے آگاہ ہے
(قَالُوا لاَعِلْمَ لَنَا إِنَّکَ اٴَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ) ۔
اسی طرح تمھارا ایسے علام الغیوب خدا اور ایسی عدالت سے سامنا ہوگا، اسی لئے تم اپنی گواہیوں میں حق وانصاف کو ملحوظ نظر رکھو(۱) یہاں پر دو سوال سامنے آتے ہیں:
پہلا: یہ کہ قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء ومرسلین(علیه السلام) اپنی اُمت کے گواہ اور شاہد ہیں جب کہ اُوپر والی آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے علم کی نفی کرتے ہیں اور تمام چیزوں کو خدا کے سپُرد کررہے ہیں ۔
لیکن ان دونوں باتوں کے درمیان کوئی تضاد اور اختلاف نہیں ہے، بلکہ یہ دونوںباتیں علیحدہ علیحدہ مرحلوں کے ساتھ مربوط ہیں، پہلے مرحلہ میں جس کی طرف زیرِ بحث آیت میں اشارہ ہے انبیاء علیہم السلام نے پروردگار کے سوال کے جواب میں اظہارِ ادب کیا اور اپنے آپ سے علم کینفی کی ہے اور تمام چیزوں کو خدا کے علم سے وابستہ کیا ہے، لیکن بعد کے مرحلوں میں اپنی اُمت کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں اس کو واضح کریں گے اور اس کی گواہی دیں کے، یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح سے کہ بعض استاد اپنے شاگرد سے کہتا ہے کہ فلاں شخص کے سوال کا جواب دو اور شاگرد پہلے تو اظہار ادب کے طور پر اپنے استاد کے علم کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر قرار دیتا ہے اور پھر جو کچھ وہ جانتا ہے اسے بیان کرتا ہے ۔
دوسرا: یہ کہ انبیاء علیہم السلام اپنے سے علم کی نفی کیسے کریں گے حالانکہ وہ عام عادی علم کے علاوہ بہت سے مخفی پروردگار کی تعلیم کے ذریعے جانتے ہیں ۔
اگرچہ اس سوال کے جواب میں مفسّرین نے طرح طرح کی بحثیں کی ہیں لیکن ہمارے عقیدے کے مطابق یہ بات بالکل واضح وروشن ہے کہ یہاں پر انبیاء علیہم السلام کی مراد یہ ہے کہ وہ اپنے علم کو خدا کے علم کے مقابلے میں ہیچ سمجھتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے، ہماری ہستی اس کی بے پایاں ہستی کے سامنے کوئی چیز ہی نہیں ہے اور ہمارا علم اس کے علم کے سامنے کوئی علم ہی شمار نہیں ہوتا اور خلاصہ یہ ہے کہ ”ممکن“ جو کچھ بھی ہو ”واجب“ کے مقابلے میں کوئی چیز نہیں ہے، دوسرے لفظوں میں اگرچہ انبیاء علیہم السلام کا علم ودانش اپنے مقام پر بہت زیادہ ہے لیکن جب اس کا قیاس علم پروردگار کے ساتھ کیا جائے گا تو وہ کوئی شمار نہیں ہوگا ۔
حقیقت میں عالمِ واقعی وہ ذات ہے کہ جو ہر جگہ اور ہر وقت حاضر وناظر ہو اور تمام ذرّات عالم کے ایک دوسرے سے وصل وپیوند سے باخبر ہو اور جہان کی تمام خصوصیات سے کہ جو ایک وحدت کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوا ہے اور یہ صفت صرف خداوندتعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ۔
ہم نے اب تک جو کچھ بیان کیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ آیت پیغمبروں اور اماموں سے ہر قسم کے علمِ غیب کی نفی کی دلیل نہیں ہوسکتی، جیسا کہ بعض لوگوں نے خیال کررکھا ہے کیونکہ علم غیب ذاتی طور پر تو اُسے علم غیب دیا اتنا ہی وہ جانتا ہے، قرآن کی متعدد آیات اس چیز کی گواہ ہیں کہ جن میں سے سورہٴ جن کی آیت ۲۶ میں ہے:
”عَالِمُ الْغَیْبِ فَلاَیُظْہِرُ عَلَی غَیْبِہِ اٴَحَدًا، إِلاَّ مَنْ ارْتَضَی مِنْ رَسُول“
”خداوند تعالیٰ عالم الغیب ہے اور سوائے ان رسولوں کے کہ جنھیں اس نے برگزیدہ کیا اور کسی کو اپنے علم غیب سے آگاہ نہیں کرتا“
نیز سورہٴ ہود کی آیت ۴۹ میں ہے:
” تِلْکَ مِنْ اٴَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیہَا إِلَیْک“
”یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تجھ پر وحی کرتے ہیں“
ان آیات اور ان جیسی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ علم غیب ذات خدا کے ساتھ مخصوص نہیں ہے لیکن جس شخص کے لئے وہ جتنا مصلحت سمجھتا ہے اسے تعلیم دیتا ہے اور اس کی کمیت وکیفیت اس کی خواہش اور مشیّت سے مربوط ہے ۔

۱۱۰ إِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِی عَلَیْکَ وَعَلی وَالِدَتِکَ إِذْ اٴَیَّدتُّکَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنْ الطِّینِ کَھَیْئَةِ الطَّیْرِ بِإِذْنِی فَتَنفُخُ فِیھَا فَتَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِی وَتُبْرِءُ الْاٴَکْمَہَ وَالْاٴَبْرَصَ بِإِذْنِی وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَی بِإِذْنِی وَإِذْ کَفَفْتُ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَنْکَ إِذْ جِئْتَھُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْھُمْ إِنْ ھَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُبِینٌ
ترجمہ
۱۱۰۔ وہ وقت یاد کرو جب خدا ن عیسیٰ بن مریم سے کہا کہ اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمھاری والدہ پر کی ہے جب میں نے روح القدس کے ذریعے تیری تقویت کی کہ تو گہوارے میں اور بڑے ہوکر لوگوں سے گفتگو کرتا تھا، اور جب میں نے تجھے کتاب وحکمت اور توریت وانجیل کی تعلیم دی اور جب کہ تو میرے حکم سے مٹی سے پرندے کی شکل بناتا اور اُس میں پھونکتا تھا اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا اور مادر زاد اندھے اور برص کی بیماری والے کو تو میرے حکم سے شفا دیتا تھا اور مُردوں کو (بھی) تو میرے حکم سے زندہ کرتا تھا اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھے اذیت وتکلیف پہنچانے سے بازرکھا جب تو ان کے پاس واضح دلائل لے کر آیا تھا لیکن اُن میں سے کافروں کی ایک جماعت نے کہا کہ یہ تو کھلے ہوئے جادو کے سوا کچھ نہیں ۔
تفسیر


 
۱۔ جو کچھ اوپر کہا جاچکا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعراب کے لحاظ سے ”یوم“ تقوا کا مفعول ہے کہ جو اس کی تقدیر ہے اور پہلی آیت سے ظاہر ہوتا ہے ۔
 
 

 

مسیح(علیه السلام) پر انعاماتِ الٰہیاسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ایک حفظِ حقوق
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma