چند ضروری نکات کی یاد دہانی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
حضرت مسیح(علیه السلام) کی اپنے پیروکاروں کے شرک سے بیزاریحواریوں پر مائدہ کے نزول کا واقعہ
 
 

ان آیات میں چند ایسے نکات ہیں کہ جن کا مطالعہ کرنا ضروری ہے:
۱۔ مائدہ کے مطالبہ سے کیا مراد تھی؟ اس میں توشک نہیں ہے کہ حوارئین اس درخواست میں کوئی بُرا ارادہ نہیں رکھتے تھے اور ان کا مقصد حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کے مقابلے میں ہٹ دھرمی کرنا نہیں تھا بلکہ مزید اطمینان کی جستجو تھا تاکہ ان کے دلوں کی گہرائیوں میں جو شکوک و شبہات اور دسو سے باقی ہیں وہ بھی دور ہوجائیں ۔ کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی مطلب کو استدلال کے ذریعے یہاں تک کہ کبھی کبھی تجربہ کی بنیاد پر بھی ثابت کرلیتا ہے لیکن جب مسئلہ زیادہ اہم ہوتا ہے تو بہت سے دسو سے اور شکوک و شبہات اس کے دل کے گوشوں میں باقی رہ جاتے ہیں لہٰذا اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ یا تو بار بار کے تجربے اور آزمائش کے ذریعے اور یا استدلال علمی کو عینی مشاہدات کے ساتھ بدل کر شکوک و شبہات اور دسوسوں کو اپنے دل کی گہرائیوں سے اکھاڑ کر پھینک دے ۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) باوجود اس کے کہ وہ ایمان و یقین کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے پھر بھی خداوند تعالیٰ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ مسئلہ معاد کا اپنی آنکھوں کے ساتھ مشاہدہ کریں تاکہ ان کا وہ ایمان جو آز روئے علم تھا ”عین الیقین“ اور شہود سے بدل جائے ۔
لیکن اس سبب سے کہ حواریوں کے مطالبہ کا ظاہری طور پر جو مطلب نکلتا تھا وہ چھبتا ہوا معلوم ہوتا تھا لہٰذا حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نے اسے بہانہ جوئی پر محلول کیا اور ان پر اعتراض کیا، لیکن جب انہوں نے کافی وضاحت کے ساتھ اپنا مقصد روشن کردیا تو حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نے بھی ان کی بات کو تسلیم کرلیا ۔
۲ ۔
”ہَلْ ییَسْتَطِیْعُ رَبُُکَ“ سے کیا مراد ہے؟ مسلمہ طور پر ابتدا میںیہ جملہ یہی معنی دیتا ہے کہ حوارئین نزول مائدہ کے سلسلے میں قدرت خدا میں شک رکھتے تھے لیکن اس کی تفسیر میں اسلامی مفسّرین کے بعض بیانات جالب نظر ہیں، پہلا یہ کہ یہ درخواست انھوں نے ابتدائے کار میں کی تھی، جبکہ وہ مکمل طور پر صفات خداوندی سے آشنا نہیں ہوئے تھے، دوسرا یہ کہ ان کی مراد یہ تھی کہ کیا خداوند تعالیٰ کے نزدیک اس میں مصلحت ہے کہ وہ اس قسم کا مائدہ ہم پر نازل کردے، جیسا کہ مثال کے طور پر ایک شخص دوسرے سے یہ کہے کہ میں اپنی ساری دولت فلاں شخص کے ہاتھ میں نہیں دے سکتا، یعنی میں اس میں مصلحت نہیں سمجھتا ، نہ یہ کہ میں قدرت نہیں رکھتا، تیسرا یہ کہ ”یستطیع“ کا معنی ”یستجیب“ ہو، کیونکہ مادہ طوع کا معنی انقیاد ومطیع ہونا ہے اور جب وہ باب (استفعال) میں چلا جائے تو پھر اس سے یہ مطلب لیا جاسکتا ہے ۔ اس بناپر اس جملے کا یہ معنی ہوگا کہ کیا تیرا پروردگار ہماری اس بات کو قبول کرے گا کہ آسمانی مائدہ ہم پر نال کرے ۔
۳۔ یہ آسمانی مائدہ کیا تھا؟ یہ آسمانی مائدہ جن چیزوں پر مشتمل تھا ان کے بارے میں قرآن میں کوئی تذکرہ نہیں ہے لیکن احادیث میں کہ جن میں سے ایک حدیث امام باقر علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ کھانا چند روٹیاں اور چند مچھلیاں تھیں ۔ شایداس قسم کے معجزے کے مطالبے کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے سُن رکھا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ سے بنی اسرائیل پر مائدہ آسمانی اُترا تھا ۔ لہٰذا انھوں نے بھی حضرت عیسی(علیه السلام)ٰ سے اسی قسم کا تقاضا کیا ۔
۴۔ کیا ان پر کوئی مائدہ نازل ہوا؟ باوجود اس کے کہ مذکورہ بالا آیات نزول مائدہ کو تقریباً صراحت کے ساتھ بیان کررہی ہیں کیونکہ خداوندتعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض مفسّرین نے نزول مائدہ کی تردید کی ہے اور انھوں نے یہ کہا ہے کہ جب حوارئین نے نزول مائدہ کے بعد سخت ذمہ داری کا احساس کیا تو انھوں نے اپنا مطالبہ ترک کردیا لیکن حق بات یہ ہے کہ مائدہ ان پر نازل ہوا ۔
۵۔ عید کسے کہتے ہیں؟ عید لغت میں مادہ عود سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی بازگشت (لوٹ آنا) کے ہیں ، اسی لئے اُن دنوں کو جن میں کسی قوم وملّت کی مشکلات برطرف ہوجاتی ہیں اور وہ پہلے جیسی کامیابیوں اور راحتوں کی طرف پلٹ آتی ہے، عید کہا جاتا ہے، اسلامی عیدوں کو اس مناسب سے عید کہا جاتا ہے کہ ماہِ مبارک رمضان میں ایک مہینے کی اطاعت کے بعد یا حج کا عظیم فریضہ انجام دینے کی وجہ سے روح میں پہلی سی فطری صفائی اور پاکیزگی لوٹ آتی ہے اور وہ آلودگیاں جو خلاف فطرت ہیں ختم ہوجاتی ہیں، چونکہ نزول مائدہ کا دن کامیابی، پاکیزگی اور خدا پر ایمان لانے کی طرف بازگشت کا دن تھا لہٰذا حضرت عیسیٰ(علیه السلام) نے اس کا نام عید رکھا، جیسا کہ روایات میں آیا ہے مائدہ کا نزول اتوار کے دن ہوا تھا لہٰذا شاید عیسائیوں کے نزدیک اتوار کے احترام کی علتوں میں سے ایک علت یہ بھی ہو ۔
حضرت علی علیہ السلام سے نقل شدہ ایک روایت میں ہے کہ:
”وکل یوم لایعصی الله فیہ فہو یوم عید“
”یعنی ہر وہ دن کہ جس میں خداوند تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی جائے وہ عید کا دن ہے“(1)
یہ بھی اس امر کی طرف اشارہ ہے کیونکہ گناہ کو چھوڑنے کا دن کامیابی، پاکیزگی اور فطرت اوّلیہ کی طرف لوٹنے کا دن ہے ۔
۶۔ عذاب شدید کس بناپر تھا؟ یہاں پر ایک اہم نکتہ ہے جس کی طرف توجہ کرنا چاہیے اور وہ یہ کہ جب ایمان مرحلہ شہود اور عین الیقین کو پہنچ جائے یعنی حقیقت کو آنکھ سے دیکھ لے اور کسی قسم کے تردّد اور وسوسے کی گنجائش باقی نہ رہے تو پھر ایسے شخص کی ذمہ داری اور مسئولیت بہت زیادہ سخت ہوجاتی ہے، کیونکہ اب یہ وہ سابق انسان نہیں ہے کہ جس کا ایمان پایہٴ شہود پر نہیں تھا اور کبھی کبھار اس میں وسوسے پیدا ہوجاتے تھے، وہ ایمان اور ذمہ داری کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، اب اس کی تھوڑی تقصیر اور کوتاہی بھی مجازات شدید اور سخت سزا کا سبب بنے گی، اسی لیے تو انبیاء اور اولیائے خدا کی مسئولیت بہت سخت تھی اسی طرح کہ وہ ہمیشہ اُس سے وحشت وپریشانی میں رہتے تھے، ہم اپنی روزمرّہ کی زندگی میں بھی اس قسم کی باتوں کا سامنا کرتے رہتے ہیں، مثلاً اصولی طور پر ہر کسی کو معلوم ہے کہ اُس کے شہر اور علاقے میں کئی بھوکے ایسے موجود ہیں جن کے بارے میں اُس سے بازپُرس ہوگی، لیکن جب وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ ایک بے گناہ انسان بھوک کی شدّت سے فریاد کررہا ہے تو اب اس کی جوابدہی کی صورت مل جائے گی اور سخت تر ہوجائے گی۔
۷۔ عہد جدید اور مائدہ: موجودہ چاروں انجیلوں میں مائدہ کے بارے میں اس طرح گفتگو نہیں ہے جس طرح کہ ہم قرآن مجید میں دیکھتے ہیں، اگرچہ انجیل یوجنا باب ۲۱ میں ایک بیان ایسا موجود ہے کہ جس میں حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کی طرف سے لوگوں کو کھانا کھلانے اور اُن کی طرف سے روٹی اور مچھلی کے ساتھ معجزانہ طور پر دعوت کا ذکر کیا گیا ہے لیکن تھوڑی سی توجہ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا مائدہ آسمانی اور حواریوں کے مسئلے سے کوئی ربط نہیں ہے(2)
کتاب ”اعمالِ رسولان“ میں بھی جو ”عہد جدید“ کی ایک کتاب ہے، پطرس نامی ایک حواری پر نزول مائدہ کا ذکر کیا گیا ہے، وہ بھی اُس بحث سے الگ چیز ہے کہ جس کے بارے میں ہم گفتگو کررہے ہیں، لیکن کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے ایسے حقائق ہیں کہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل نہیں ہوئے تھے لہٰذا اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے نزول مائدہ کے واقعہ کے سلسلے میں کوئی مشکل پیدا نہیں ہوگی(3)
۱۱۶ وَإِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اٴَاٴَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَاٴُمِّی إِلَھَیْنِ مِنْ دُونِ اللهِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِی اٴَنْ اٴَقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ إِنْ کُنتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی وَلاَاٴَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِکَ إِنَّکَ اٴَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ-
۱۱۷ مَا قُلْتُ لَھُمْ إِلاَّ مَا اٴَمَرْتَنِی بِہِ اٴَنْ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ وَکُنتُ عَلَیْھِمْ شَھِیدًا مَا دُمْتُ فِیھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی کُنتَ اٴَنْتَ الرَّقِیبَ عَلَیْھِمْ وَاٴَنْتَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَھِیدٌ-
۱۱۸ إِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَإِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَإِنَّکَ اٴَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ-
ترجمہ
۱۱۶۔وہ وقت یاد کرو جب خداوندتعالیٰ عیسیٰ ابن مریم سے کہے گا کہ (اے عیسیٰ) کیا تونے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو الله کے علاوہ دو خدا بنالو، وہ جواب دیں گے کہ تیری ذات پاک ہے، مجھے کوئی حق نہیں ہے کہ ایسی بات کہوں جو میرے لائق نہیں ہے، اگر میں نے کوئی ایسی بات کہی ہوگی تو اس کا تجھے ضرور علم ہوگا ۔ تُو ان سب باتوں کو جاننا ہے کہ جو میرے نفس وروح میں ہیں، لیکن میں جو کچھ تیری ذات پاک میں ہے اُسے نہیں جانتا کیونکہ تو تمام اسرار اور پوشیدہ چیزوں سے باخبر ہے ۔
۱۱۷۔مجھے تو نے جس کام پر مامور کیا تھا اُس کے سوا اُن سے اور کوئی بات نہیں کہی تھی ۔ میں نے تو اُن سے یہی کہا تھا کہ اُس خدا کی پرستش کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھار بھی پروردگار ہے اور میں تو اس وقت تک ہی اُن کا نگران اور گواہ تھا جب تک کہ اُن کے درمیان تھا اور جب تونے مجھے ان کے درمیان سے اٹھالیا تو پھر تُو ہی اُن کا نگران تھا اور تو ہی ہر چیز پر گواہ ہے ۔
۱۱۸۔ (اس صورت میں )اگر تُو انھیں سزا دے تو وہ تیرے بندے ہیں (اور وہ تیری عدم حکمت کی نشانی ہے اور نہ ہی تیری بخشش کمزوری کی علامت ہے) ۔

 

 

 

 
1۔ نہج البلاغہ، کلمات قصار، ۴۲۸-
2۔ الہدیٰ الیٰ دین المصطفیٰ، ج۲، ص۲۴۹-
3۔ حوالہ سابقہ-
 
حضرت مسیح(علیه السلام) کی اپنے پیروکاروں کے شرک سے بیزاریحواریوں پر مائدہ کے نزول کا واقعہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma