حضرت مسیح(علیه السلام) کی اپنے پیروکاروں کے شرک سے بیزاری

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
دوسوال اور ان کا جوابچند ضروری نکات کی یاد دہانی

حضرت مسیح(علیه السلام) کی اپنے پیروکاروں کے شرک سے بیزاری
یہ آیات قیامت کے دن حضرت مسیح(علیه السلام) سے گفتگو کے بارے میں ہیں اور دلیل اس کی یہ ہے کہ بعد کی چند آیات میں ہے کہ:
”ھَذَا یَوْمُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدْقُھُمْ“
”آج کا دن وہ دن ہے کہ جس میں سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی“
اور یہ بات مسلّم ہے کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے ۔
اس کے علاوہ
(فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی کُنتَ اٴَنْتَ الرَّقِیبَ عَلَیْھِمْ) کا جملہ اس پر دوسری دلیل ہے کہ یہ گفتگو مسیح(علیه السلام) کی نبوت ورسالت کا زمانہ گزرنے کے بعد کی ہے اور آیت کی ابتدا ”قال“کے جملے ساتھ کرنا کہ جو فعل ماضی کے لیے ہے کوئی مشکل پیدا نہیں کرتا، کیونکہ قرآن مجید میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ قیامت سے مربوط مسائل زمان ماضی کی شکل میں بیان کیے گئے ہیں اور یہ چیز قیامت کے قطعی ویقینی ہونے کی دلیل ہے یعنی اس کا زمانہ آئندہ میں واقع ہونا ایسا مسلّم ہے گویا کہ وہ زمانہ ماضی میں واقع ہوچکا ہے لہٰذا اسے فعل ماضی کے صیغہ کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے ۔
بہر حال پہلی آیت یہ کہتی ہے کہ خداوند تعالیٰ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ(علیه السلام) سے کہے گا کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو الله کے علاوہ اپنا معبود قرار دو اور ہماری پرستش کرو
(وَإِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اٴَاٴَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَاٴُمِّی إِلَھَیْنِ مِنْ دُونِ اللهِ) ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ(علیه السلام) نے کوئی ایسی بات نہیں کہی ہے بلکہ صرف توحید اور عبادت خدا کی دعوت دی ہے، لیکن اس استفہام کا مطلب یہ ہے کہ اُن سے اُن کی اُمت کے سامنے اقرار لے کر اُن کی اُمت کا جرم ثابت کیا جائے ۔
مسیح علیہ السلام اس سوال کے جواب میں انتہائی احترام کے ساتھ چند جملے کہیں گے:
۱۔ پہلے خداوندتعالیٰ کو ہر قسم کے شریک وشبیہ سے پاک کرتے ہوئے کہیں گے: اے خدا! تو ہر قسم کے شریک سے پاک ہے
(قَالَ سُبْحَانَکَ) ۔
۲۔ کس طرح ممکن ہے کہ میں ایسی بات کہوں جو میرے لیے شائستہ اور مناسب نہیں ہے
(مَا یَکُونُ لِی اٴَنْ اٴَقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ) ۔
حقیقت میں نہ صرف اس بات کے کہنے کی وہ اپنے سے نفی کرتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر میں اس قسم کا کوئی حق ہی نہیں رکھتا اور اس قسم کی گفتگو میں مرتبہ ومقام کے ساتھ ہرگز سازگار ہی نہیں ۔
۳۔ اس کے بعد پروردگار عالم کے علم بے پایاں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: میری گواہ یہ حقیقت ہے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو تجھے اس کا علم ضرور ہوتا کیونکہ تو اس سے بھی آگاہ ہے جو میری روح کے اندر ہے جبکہ میں اُس سے بے خبر ہوں جو تیری ذات پاک میں ہے، کیونکہ علام الغیوب ہے اور تمام رازوں اور پوشیدہ چیزوں سے باخبر ہے
( إِنْ کُنتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی وَلاَاٴَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِکَ إِنَّکَ اٴَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ) ۔ (۱)
۴۔ میں نے جو بات ان سے کہی ہے وہ صرف وہی تھی جس کے لئے تو نے مجھے مامور کیا تھا اور وہ یہ کہ میں انھیں تیری عبادت کی طرف دعوت دوں اور اُن سے کہوں کہ اس خدائے یگانہ کی پرستش کرو کہ جو میرا اور تمھارا پروردگار ہے
(مَا قُلْتُ لَھُمْ إِلاَّ مَا اٴَمَرْتَنِی بِہِ اٴَنْ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ) ۔
۵۔ اور جس وقت تک میں اُن کے درمیان رہا ان کا نگران وگواہ تھا اور میں نے انھیں راہِ شرک اختیار نہیں کرنے دیا، لیکن جب تونے مجھے اُن کے درمیان سے اٹھالیا تو پھر تُو ہی اُن کا نگران ونگہبان تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے
(وَکُنتُ عَلَیْھِمْ شَھِیدًا مَا دُمْتُ فِیھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی کُنتَ اٴَنْتَ الرَّقِیبَ عَلَیْھِمْ وَاٴَنْتَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَھِیدٌ) ۔ (۲)
۶۔ ان تمام باتوں کے باوجود پھر بھی حکم تو تیرا چلے گا ہی اور جو تو چاہے گا وہی ہوگا، اب اگر تو انھیں ان کے اس عظیم انحراف پر سزا دے گا تو وہ تیرے بندے ہیں اور وہ تیری سزا سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکیں گے اور تیرا یہ حق تیرے نافرمان بندوں کے لیے ثابت ہے اور اگر تو انھیں بخش دے اور ان کے گناہوں کی طرف سے چشم پوشی کرے تو توانا وحکیم ہے نہ تو تیری بخشش ہی کمزوری کی علامت ہے اور نہ ہی تیری سزا حکمت وحساب سے خالی ہے
(إِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَإِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَإِنَّکَ اٴَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ) ۔



۱۔ یہاں پر لفظ نفس کا اطلاق روح اور جان کے معنی میں نہیں ہے بلکہ نفس کا ایک معنی ذات ہے (جیسے کہتے ہیں وہ نفس بنفیس آئے) ۔
۲۔ ”توفی“ کے معنی کے بارے میں اور یہ کہ اس سے مراد مرنا نہیں ہے، سورہٴ آل عمران کی آیت ۵۵ کے ذیل میں صفحہ ۲۴۱ پر تفصیلی بحث ہوچکی ہے (جلد۲، اردو ترجمہ)
دوسوال اور ان کا جوابچند ضروری نکات کی یاد دہانی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma