دوسوال اور ان کا جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
عظیم کامیابیحضرت مسیح(علیه السلام) کی اپنے پیروکاروں کے شرک سے بیزاری

۱۔ کیا عیسائیوں کی تاریخ میں کہیں دیکھا گیا ہے کہ وہ مریم کو اپنا معبود قرار دیتے ہوں ۔ یا یہ کہ وہ صرف تثلیث یعنی تین خداؤں ”باپ خدا“، ”بیٹا خدا“ اور ”روح القدس“ کے قائل تھے اور اس میں شک نہیں ہے کہ ان کے نظریہ کے مطابق ”روح القدس“ ”باپ خدا“ اور ”بیٹا خدا“ کے درمیان واسطہ ہے اور وہ مریم کے علاوہ ہے ۔
اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تو صحیح ہے کہ عیسائی حضرت مریم کو خدا تو نہیں جانتے تھے لیکن اس کے باوجود اُن کے اور اُن کے مجسمے کے سامنے مراسم عبادت سرانجام دیتے رہے تھے جیسا کہ بت پرست بتوں کو خدا نہیںسمجھتے تھے پھر بھی انھیں عبادت میں خدا کا شریک سمجھتے تھے اور زیادہ واضح الفاظ میں
”الله“ بمعنی خدا اور ”الٰہ“ بمعنی معبود میں فرق ہے، عیسائی جناب مریم کو الٰہ یعنی معبود جانتے تھے نہ کہ خدا ۔
ایک مفسّر کی تعبیرکے مطابق اگرچہ کوئی عیسائی فرقہ
”اِلٰہ“ اور ”معبود“ کا اطلاق جناب مریم پر نہیں کرتا بلکہ انھیں صرف خدا کی ماں سمجھتے ہیں، لیکن عملی طور پر اس کے سامنے خصوع خشوع اور مراسم عبادت بجالاتے ہیں، چاہے یہ نام ان کے لیے رکھیں یا نہ رکھیں ۔ اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ بیروت میں عیسائیوں کے مجلہ ’مشرق“ کے ساتویں سال کے نویں شمارے میں پاپ بیوس نہم کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر حضرت مریم کی شخصیت کے بارے میں چند قابلِ ملاحظہ مطالب منتشر ہوئے تھے اس شمارہ میں پوری صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ مشرقی گرجوں میں بھی مغربی گرجوں کی طرح حضرت میرم کی عبادت کی جاتی ہے ۔ اسی مجلہ کے پانچویں سال کے چودھویں شمارے میں ایک مقالہ انستاس کرملی کے قلم سے لکھا ہوا درج تھا جس میں یہ کوشش کی گئی تھی کہ حضرت مریم کی عبادت کے مسئلہ کے سلسلہ میں عہد عتیق اور تورات سے بھی کوئی دلیل پیدا کی جائے ۔ چنانچہ وہ سانپ (شیطان) اور عورت (حوّا) کی دشمنی کی داستان کو مریم کے عنوان سے تفسیر کرتا ہے ۔ اس بناپر حضرت مریم(علیه السلام) کی پرستش اور عبادت ان میں موجود ہے ۔
۲۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت مسیح(علیه السلام) ایسے الفاظ میں جس سے شفاعت کی بو آتی ہے اپنی اُمت کے مشرکین کے بارے میں کیوں گفتگو کرتے ہیں اور یہ کیوں عرض کرتے ہیں کہ اگر تو انھیں بخش دے تو تُو عزیز وحکیم ہے ۔
اس کے جواب میں اس نکتے کی طرف توجہ رکھنی چاہیے کہ اگر حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کا ہدف شفاعت ہوتا تو آپ یوں فرماتے کہ
(اِنَّکَ اَنتَ الغَفُورُ الرَّحِیم) کیونکہ خدا کا غفور ورحیم ہونا مقام شفاعت کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ خدا کی عزیز وحکیم کے ساتھ توصیف کررہے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لیے شفاعت اور بخشش کی درخواست منظور نہیں ہے بلکہ اس میں اصلیہدف اپنی ذات سے ہر قسم کے اختیار کی نفی کرنا اور معاملہ کو پروردگار کے سپُرد کرنا ہے یعنی یہ کام تیرے ہی ہاتھ میں ہے اگر چاہے تو بخش دے اور اگر چاہے تو سزا دے اگرچہ نہ تیری سزا بغیر دلیل کے ہے اور نہ ہی تیری بخشش بغیر علّت وسبب کے ہے اور ہر حالت میں تیری قدرت وتوانائی سے تو باہر ہی ہے ۔
علاوہ ازیں یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے درمیان کسی گروہ نے اپنے اشتباہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے توبہ کی راہ اختیار کرلی ہو اور یہ جملہ اُس گروہ کے بارے میں ہو ۔

۱۱۹ قَالَ اللهُ ھَذَا یَوْمُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدْقُھُمْ لَھُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِھَا الْاٴَنھَارُ خَالِدِینَ فِیھَا اٴَبَدًا رَضِیَ اللهُ عَنْھُمْ وَرَضُوا عَنْہُ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ-
۱۲۰ لِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا فِیھِنَّ وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ-
ترجمہ
۱۱۹۔ خدا کہتا ہے کہ یہ وہ دن ہے جس میں سچّوں کو ان کی سچائی فائدہ بخشے گی ۔ ان کے لیے جنت کے باغات ہیں جن کے (درختوں) کے نیچے پانی کی نہریں جاری ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، خدا اُن سے راضی وخوشنود ہوگا اور وہ خدا سے راضی اور خوشنود ہوں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔
۱۲۰۔ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان تمام چیزوں کی حکومت الله ہی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

تفسیر



۔ تفسیر المنار، ج۷، ص۲۶۳-

 


عظیم کامیابیحضرت مسیح(علیه السلام) کی اپنے پیروکاروں کے شرک سے بیزاری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma