معاد پر استدلال

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
خدا کے سوا اور کوئی پناہ گاہ نہیں ہےوہ چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہے کس کی ہیں ،

اس آیت میں پہلے کی طرح مشرکین سے بحث ہورہی ہے، گذشتہ آیات میں مسئلہ توحید کو موضوع بحث بنایا گیا تھا، اس آیت میں مسئلہ معاد پر بحث ہورہی ہے، توحید کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ ہی اس کے بعد مسئلہ قیامت اور معاد کو بڑے عمدہ طریقہ سے بیان کیا جارہا ہے،آیت سوال وجواب کی صورت میں ہے، سوال کرنے والا اور جواب دینے والا دونوں ایک ہی ہے جوابیات میں ایک خوبصورت طریقہ ہے ۔

 

معاد پر استدلال

 

معاد پر استدلال کے لئے مقدمہ کے طور پر دو باتیں کہی گئی ہیں:
۱۔ پہلے کہتا ہے: کہہ دو کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اس کے لئے ہے (قُلْ لِمَنْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ) ۔
پھر اس کے بعد فورا بلا فاصلہ کہتا ہے کہ تم خود زبان فطرت اور ان کی روح کا جواب دے دو کہ خدا کے لئے ۔ (قُلْ للّٰہ)، اس مقدمہ کے مطابق تمام جہان خدا کی ملکیت ہے اور اس کی تدبیر اس کے ہاتھ میں ہے ۔
۲۔پروردگار عالم تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے، وہی ہے وہ ذات کہ جس نے رحمت کو اپنے ذمہ لے لیا ہے اور بے شمار نعمتیں سب کے لئے عام کردی ہیں

 

( کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ) ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ایس خدا اجازت دے کہ انسانوں کا رشتہ حیات موت کے ذریعہ کلی طور پر منقطع ہوجائے اور کمال کی جانب اس کا سفر ختم ہوجائے، کیا یہ بات اس کے اصلا فیاض ہونے اوراس کی رحمت واسعہ کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے ، کیا وہ اپنے بندوں کے بارے میں کہ جن کا وہ مالک ومدبر ہے اس قسم کی بے مہری کرسکتا ہے کہ وہ ایک مدت کے بعد بالکل فنا ہوجائے اور ان کا کوئی وجود ہی باقی نہ رہے ۔
مسلمہ طور پر ایسا نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کی رحمت واسعہ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ موجودات کو خاص طور پر انسان کو درجہ کمال تک پہنچانے کے لئے اور آگے بڑھائے جس طرح اپنی رحمت کے سائے میں ایک بے قدروقیمت چھوٹے سے بیج کو تناور اور پھلدار درخت میں یا گل زیبا کی شاخ میں بدل دیتا ہے ۔ جیسا کہ اپنے فیض وکرم کے سایہ میں بے قدروقیمت نطفہ کو انسان کامل میں بدل دیتا ہے، اسی رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کو کہ جو بقا اور حیات جاودانی کی استعداد رکھتا ہے موت کے بعد نئی زندگی کے لباس میں اور زیادہ وسیع عالم میں لے آئے اور تکامل کی سیرابدی میں اس کی رحمت کا ہاتھ اس کے سر پر ہے ۔
لہذ ان دونوں مقدمات کے بعد کہتا ہے مسلمہ طور پر تم سب کو قیامت کے دن جس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے جمع کرے گا(َ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیہ) ۔
یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ آیت سوال سے شروع ہورہی ہے جیسے اصطلاح میں استفہام تقریری کہتے ہیں جس میں صرف مقابل سے اقرار لینا مطلوب ہوتا ہے اور چونکہ یہ مطلب فطرت کی نگاہ سے بھی مسلم تھا اور خود مشرکین بھی اس کے معترف تھے کہ عالم ہستی کی ملکیت بتوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ خدا سے مربوط ہے، لہٰذا وہ خود ہی بلا فاصلہ سوال کا جواب دیتا ہے اور مختلف مسائل کو حل کرنے کے سلسلہ میں یہ ایک اچھا شمار ہوتا ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ معاد کے لئے دوسرے مقامات پر مختلف طریقوں سے مثلا قانون عدالت، قانون تکامل اور حکمت پروردگار کے طریقہ سے استدلال ہوا ہے، لیکن رحمت کے ساتھ استدلال ایک نیا استدلال ہے، جو اوپر والی آیت میں موضوع بحث قرار پایا ہے ۔
آیت کے آخر میں ہٹ دھرم مشرکین کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے:وہ خدا جو زندگی کے بازار تجارت میں اپنے وجود کا سرمایہ ضائع کرچکے ہیں وہ ان حقائق پر ایمان نہیں لائیں گے( الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَھُمْ فَھُمْ لاَیُؤْمِنُونَ) ۔
اس قدر عجیب وغریب تعبیر ہے بعض اوقات انسان مال یا مقام یا اپنے سرمایہ میں سے کوئی اور چیز ہاتھ کھو بیٹھتا ہے، ان چیزوں میں اگرچہ اس نے نقصان کیا ہوتا ہے لیکن پھر اس نے ایسی چیزیں اپنے ہاتھ سے دی ہے جو اس کے وجود کا جزء نہیں ہے، یعنی یہ چیزیں اس کے وجود سے باہر ہیں ، لیکن سب سے بڑا خسارہ جسے حقیقی خسارے کا نام دیا جاسکتا ہے اس وقت ہوگا جب انسان خود اپنے اصل ہستی ہی کو ہاتھ سے دے بیٹھے اور خود اپنے وجود کو ہی داوء پر لگا دے ۔
حق کے دشمن اور ہٹ دھرم لوگ اپنی عمر کی پونجی اور اپنی فکر، عقل، فطرت اور تمام روحانی اور جسمانی نعمات کو جنھیں راہ حق میں کام آنا چاہئے تھا تاکہ وہ اپنے کمال کو پہنچ سکے ، کلی طور پر ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں نہ سرمایہ باقی رہتا ہے نہ سرمایہ دار یہ تعبیر قرآن مجید کی متعدد آیات میں آئی ہے اور یہ وہ ہلا دینے والی تعبیرات ہے کہ جو منکرین حق اور گناہگاروں کا دردناک انجام واضح کردیتی ہے ۔

 

ایک سوال اور اس کا جواب

 

ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ابدی زندگی مومنین کے لئے تو مصداق”رحمت“ ہے لیکن ان کے غیر لئے ہے تو سوائے ” زحمت وبد بختی“ کے اور کوئی چیز نہ ہوگی۔
اس میں شک نہیں کہ خدا کا کام اسباب رحمت فراہم کرنا ہے ، اس نے انسان کو پیدا کیا اوراسے عقل دی اور اس کی رہبری اور راہنمائی کے لئے پیغمبر بھیجے اور طرح طرح کی نعمتوں کو اس کے اختیار میں دے دیا اور حیات جاوداں کی طرف سب کے لئے راہیں کھول دیں ، یہ سب چیزیں بغیر استثناء کے رحمت ہیں ۔
اب اگر راستے میں ان رحمتوں کے نتیجہ اور ثمر تک پہنچنے سے پہلے انسان خود راستے کو ٹیڑھا کرے اور تمام اسباب رحمت کو اپنے لئے زحمت میں تبدیل کردے تویہ بات ان اسباب کے رحمت ہونے کی نفی نہیں کرتی اور ملامت کا حقدار وہ انسان ہے کہ جس نے اسباب رحمت کو عذاب میں بدل لیا ہے ۔
بعد والی آیت اصل میں گذشتہ آیت کی تکمیل کرتی ہے کیوںکہ پہلی آیت میں خدا وندتعالیٰ کی تمام موجودات کے بارے میں مالکیت کی طرف اشارہ تھا اس طریق سے کہ وہ سب ایک افق مکان میں واقع ہیں لہٰذا فرمایا کہ خدا ان تمام چیزوں کا مالک ہے کہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔
اب یہ آیت اس کے افق ووسعت زمان میں واقع ہونے کے طریق سے اس کی مالکیت کی طرف اشارہ ہے ، لہٰذا کہتا ہے : اور اس کے لئے ہے جو کچھ رات اور دن میں ہے ( وَلَہُ مَا سَکَنَ فِی اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ ) ۔
حقیقت میں جہان مادہ اس سے یعنی زمان ومکان سے خالی نہیں ہے، اور تمام موجودات جو ظرف زمان ومکان میں آتے ہیں یعنی تمام جہاں مادہ اس کی ملکیت ہے اور یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ رات اور دن اس نظام شمسی کے ساتھ ہی مخصوص ہے بلکہ تمام موجودات آسمان وزمین شب وروز رکھتے ہیں اور بعض میں ہمیشہ دن ہوتا ہے رات نہیں ہوتی اور بعض میں ہمیشہ رات ہوتی ہے دن نہیں ہوتا، مثلا سورج میں ہمیشہ دن ہے کیونکہ وہاں روشنی ہی روشنی ہے اور تاریکی کا کوئی وجود نہیں ہے جب کہ بعض ستارے بجھے ہوئے اور بے نور ہیں وہ آسمان کہ جو ستاروں سے بہت دور ہیں وہاں ہمیشہ رات کی تاریکی چھائی رہتی ہے اور اوپر والی آیت ان سب پر صادق آتی ہے ۔
ضمنی طورپر اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ ”سکن“ کسی موجود کا کسی چیز میں سکونت ،توقف اور قرار پانے کے معنی میں ہے، چاہے وہ موجود حالت حرکت میں ہو یا سکون میں مثلا ہم کہتے ہیں کہ ہم فلاں شہر میں ساکن ہیں یعنی ہم وہاں ٹھہرے ہوئے ہیں اور مقیم ہیں چاہے ہم اس شہر کی سڑکوں پر حالت حرکت میں ہوں یا کہیں حالت سکون میں ہوں ۔
آیت میں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ یہاں”سکون“ صرف حرکت کے مقابلے میں ہو اور چونکہ یہ دونوں امور نسبتی ہیں لہٰذا ایک کا ذکر ہمیں دوسرے سے بے نیز کردیتا ہے اس بنا پر آیت کا مطلب یوں ہوجاتا ہے کہ جوکچھ روز وشب اور افق زمان میں سکون وحرکت کی حالت میں ہے وہ سب خدا کی ملکیت ہے ۔
اور اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ آیت توحید کے استدلالات میں سے ایک استدلال کی طرف اشارہ ہو، کیوںکہ ”حرکت“ و”سکون“ دوعارضی حالتیں ہیں، جو حتمی طور پر حادث ہیں اور وہ قدیم وازلی نہیں ہوسکتیں کیونکہ حرکت عبارت ایک چیز کا دومختلف اوقات دومختلف مکانوں میںہونے سے اور سکون ہے ایک چیز کا دو زمانوں میں ایک معین مکان میں رہنا، اس بنا پر حرکت وسکون کی ذات میں سابقہ حالت کی طرف توجہ پوشیدہ ہے اور ہم جانتے ہیں کہ وہ چیز کہ جو اس حالت سے پہلے دوسری حالت میں ہو وہ ازلی نہیںہو سکتی۔
اس گفتگو سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ”اجسام حرکت وسکون سے خالی نہیں ہیں “ اور جو حرکت وسکون سے خالی نہ ہو وہ ازلی نہیں ہو سکتا ۔
لہٰذا تمام اجسام حادث ہیں اور چونکہ وہ حادث ہیںلہٰذا وہ پیدا کرنے ولے کے محتاج ہے (غور کیجئے گا) ۔
لیکن چونکہ خدا جسم نہیں ہے وہ نہ حرکت رکھتا ہے اور نہ سکون، نہ زمان رکھتا ہے نہ مکان ،اسی لئے وہ ازلی وابدی ہے اور آیت کے آخر میں توحید کا ذکر کرنے کے بعد خدا وندتعالیٰ کی دو نمایاں صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے: اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے(وھو سمیع العلیم) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جہان ہستی کی وسعت اور وہ موجودات کہ جو زمان ومکان کے افق میں قرار رکھتے ہیں کبھی بھی اس بات میں منع نہیں ہے کہ خدا ان کے اسرار سے آگاہ ہو، بلکہ وہ ان کی گفتگو سنتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک کمزور چیونٹی کی حرکت کو بھی جانتا ہے جو تاریک رات میں سیاہ پتھر کے اوپر ایک خاموش دور دراز کے درے کی گہرائی میں ہوں اور اس کی ضروریات اور باقی تمام موجودات کی حاجات سے آگاہ ہے اور سب کے اعمال اور کاموں سے مطلع ہے ۔
۱۴ قُلْ اٴَغَیْرَ اللّٰہِ اٴَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَھُوَ یُطْعِمُ وَلاَیُطْعَمُ قُلْ إِنِّی اٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ اٴَوَّلَ مَنْ اٴَسْلَمَ وَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُشْرِکِینَ ۔
۱۵ قُلْ إِنِّی اٴَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ۔
۱۶ مَنْ یُصْرَفْ عَنْہُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَہُ وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِینُ ،
ترجمہ
۱۴۔کہہ دوکیا میں غیر خدا کو اپنا ولی بنالوں جب کہ وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ، وہ ہے کہ جو روزی دیتا ہے اور کسی سے روزی نہیں لیتا، تم کہہ دو کہ میں اس بات پر مامور ہوں کہ میں سب سے پہلے ”اس کے حکم کو تسلیم کرنے والا“(مسلمان) ہوں (اور خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ ) مشرکین میں سے نہ ہونا ۔
۱۵۔ کہہ دو کہ میں بھی اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو بڑے دن (قیامت کے) عذاب سے ڈر تا ہوں ۔
۱۶۔ اس دن جس شخص کے اوپر سے عذاب الٰہی اٹھ جائے (تو یوں سمجھو کہ) خدا نے اپنی رحمت اس کے شامل حال کر دی ہے اور یہ واضح کامیابی ہے ۔

 

 

خدا کے سوا اور کوئی پناہ گاہ نہیں ہےوہ چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہے کس کی ہیں ،
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma