گذشتہ دو آیات میں مشرکین کی ہٹ دھرمی کے کچھ اعمال کی طرف اشارہ ہوا تھا اور وہ ان دو آیات میں ان کے اعمال کے نتائج کا منظر مجسم ہوا ہے تاکہ وہ دیکھ لیں کہ انھیں کیسا برا انجام درپیش ہے اور وہ بیدار ہوجائےں یا کم از ک ان کی کیفیت دوسروں کے لئے باعث عبرت۔
پہلے فرمایا گیاہے: اگر تم ان کی حالت جب وہ قیامت کے دن جہنم کی آگ کے سامنے کھڑے ہوں گے، دیکھو، تو تم تصدیق کرو گے کہ وہ کس دردناک انجام وعاقبت میں گرفتار ہوئے ہیں
( وَلَوْ تَرَی إِذْ وُقِفُوا عَلَی النَّارِ---)(۱) ۔
وہ اس حالت سے اس طرح منقلب ہوں گے کہ دادوفریاد کریں گے کاش اس سرنوشت شوم سے نجات اور برے کاموں کی تلافی کے لئے دوبارہ دنیا میں پلٹ جاتے، اور وہاں آیات خدا کی تکذیب نہ کرتے اور مومنین کی صف میں قرار پاتے( فَقَالُوا یَالَیْتَنَا نُرَدُّ وَلاَنُکَذِّبَ بِآیَاتِ رَبِّنَا وَنَکُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ)(۲)
بعد والی آیت میں کہا گیا ہے کہ یہ جھوٹی آرزو ہے بلکہ یہ اس بنا پر ہے کہ اس دنیا میں جو عقائد ،نیتیں اور اعمال انھوں نے چھپا رکھے تھے وہ سب ان کے سامنے آشکار ہوگئے ہیں اور وہ وقتی طور پر بیدار ہوئے ہیں ( بَلْ بَدَا لھُمْ مَا کَانُوا یُخْفُونَ مِنْ قَبْل) ۔
لیکن یہ پائیدار اور محکم اور بیداری نہیں ہے، اور مخصوص حالات میں پیدا ہوئی ہے لہٰذا اگر بغرض محال وہ دوبارہ اس جہاں می پلٹ بھی جائیں تو انھیں کاموں کے پیچھے لپکے گے جن سے انھیں روکا گیا ہے( وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُھُوا عَنْہُ) ۔
اس بنا پر وہ اپنی آرزو اورمدعا میں سچے نہیں ہیں اور وہ جھوٹ بولتے ہیں ( وَإِنَّھُمْ لَکَاذِبُونَ) ۔