چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
تجھ سے پہلے پیغمبروں کی بھی تکذیب کی گئی ہے مگر وقتی اور بے اثر بیداری

۱۔ ”بدالہم“(ان کے لئے آشکار ہوا) سے ظاہرا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ حقائق کے ایک سلسلہ کو نہ صرف لوگوں سے بلکہ خود اپنے آپ سے بھی مخفی رکھتے تھے جو قیامت کے دن ان پر آشکار ہوجائیں گے اور یہ مقام تعجب نہیں ہے کہ انسان کسی حقیقت کو خود اپنے آپ تک سے بھی مخفی رکھے اور اپنے وجدان اور فطرت پر پردہ ڈال دے تاکہ وہ جھوٹا اطمینان حاصل کرے ۔
وجدان کو فریب دینے کا مسئلہ اور حقائق کو اپنے آپ سے چھپانا اہم مسائل میں سے ہے کہ جس پر وجدان کی فعالیت سے مربوط بحثوں میں خصوصی غور وفکر کیا گیا ہے، مثلا ہم بہت سے ہوس پرست افراد کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے ہوس آلود اعمال کے شدید نقصان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں لیکن اس سبب سے کہ راحت کے خیال سے اپنے اعمال کو جاری رکھیں یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اس آگاہی کو اپنے اندر ہی چھپائیں رکھیں ۔
لیکن بہت سے مفسرین نے لفظ ”لہم“ کی تعبیر کی طرف کےے بغیر آیت کی اس طرح تفسیر کی ہے کہ وہ ایسے اعمال پر منطبق ہو کہ جنھیں وہ لوگوں سے مخفی رکھتے تھے (غور کیجیے) ۔
۲۔ ممکن ہے کہا جائے کہ آرزو کرنا کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس میں جھوٹ یا سچ ہو اور وہ اصطلاح میں ”انشاء“ کی ایک قسم اور ”انشاء“ میں جھوٹ یا سچ کا وجود ہی نہیں ہوتا لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کیوںکہ بہت سے”انشاء “ ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ کسی خبر کا مفہوم بھی موجود ہوتا ہے، جن میں صدق یا کذب کی گنجائش ہوتی ہے مثلا بعض اوقات پر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میری تمنا یہ ہے کہ خدا مجھے بہت سا مال دے تو میں تمھاری مدد کروں ، یہ ایک آرزو ہے ، لیکن اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر خدا مجھے ایسا مال دیدے تو مجھے میں تمھاری مدد کروں گا اور یہ ایک خبری مفہوم ہے، جو ہوسکتا ہے جھوٹا ہو، لہٰذا مد مقابل جو اس کی بخل اور تنگ نظری سے آگاہ ہے کہتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، اگر خدا تجھے دے بھی دے تو پھر بھی تو ہرگزایسا نہیں کرے گا(ایسی صورت بہت سے انشائی جملوں میں نظر آتی ہے) ۔
۳۔ یہ جو ہم آیت میں پڑھتے ہیں کہ اگر وہ دنیا کی طرف پلٹ جائیں تو دوبارہ وہی کام کرنے لگے گے، یہ اس بنا پر ہے کہ بہت سے لوگ جس وقت اپنی آنکھ سے اپنے اعمال کے نتائج دیکھتے ہیں ،یعنی مرحلہ شھود کو پہنچ جاتے ہیں تو وہ وقتی طور پر پریشان اور پشیمان ہوکر یہ آرزو کرتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے اعمال کی تلافی کرسیکں، لیکن یہ ندامت اور پشیمانیاں جو اسی حال شھود اور اعمال کا نتیجہ دیکھنے سے مربوط ہے، ناپائیدارہوتی ہے جو تما لوگوں میں عینی سزاؤں کا سامنا کرتے وقت پیدا ہوتی رہتی ہے لیکن جب مشاہدات عینی برطرف ہوجاتے ہیں تو یہ خاصیت بھی زائل ہوجاتی ہے اور سابقہ کیفیت پلٹ آتی ہے ۔
انھیں بت پرستوں کی طرح کہ جو سمندر کے سخت طوفانوں میں گرفتارہونے پر اور خود کو موت اور فنا کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھ کر خدا کے سوا تمام چیزیں بھوکل جاتے ہیں لیکن جو نہی طوفان رکتا ہے اور وہ امن وامان کے مسائل تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر تمام چیزیں اپنی جگہ پلٹ آتی ہیں(1) ۔
۴۔ اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ مذکورہ بالا حالات بت پرستوں کی ایک خاص جماعت کے ساتھ مخصوص ہے کہ جن کی طرف گذشتہ آیات میں اشارہ ہو چکا ہے، یہ نہیں کہ سب بت پرست ایسے تھے، لہٰذا پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم اس بات پر مامور تھے کہ باقی تمام کو پند ونصیحت کریں، انھیں بیدار کریں اور ہدایت کریں ۔
۲۹ وَقَالُوا إِنْ ھِیَ إِلاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِینَ۔
۳۰ وَلَوْ تَرَی إِذْ وُقِفُوا عَلَی رَبِّھِمْ قَالَ اٴَلَیْسَ ھَذَا بِالْحَقِّ قَالُوا بَلَی وَرَبِّنَا قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْفُرُونَ۔
۳۱ قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللّٰہِ حَتَّی إِذَا جَائَتْھُمْ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا یَاحَسْرَتَنَا عَلَی مَا فَرَّطْنَا فِیھَا وَھُمْ یَحْمِلُونَ اٴَوْزَارَھُمْ عَلَی ظُھُورِھِمْ اٴَلاَسَاءَ مَا یَزِرُونَ۔
۳۲ وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَھْوٌ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَیْرٌ لِلَّذِینَ یَتَّقُونَ اٴَفَلاَتَعْقِلُونَ۔
ترجمہ
۲۹۔ انھوں نے کہا : اس دنیاوی زندگی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور ہم ہرگز دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے نہیں جائیں گے ۔
۳۰۔اگر تم انہیں اس وقت دیکھو جب وہ اپنے پروردگار (کی عدالت)کے سامنے کھڑے ہوں گے تو انھیں کہا جائے گا:کیا یہ حق نہیں ہے-؟تو وہ اس کے جواب میں کہیں گے:جی ہاں،ہمارے پروردگار کی قسم(یہ حق ہے)،تو وہ کہے گا:جس بات کا تم انکار کیا کرتے تھے اس کی سزا میں اب عذاب کا مزہ چکھو ۔
۳۱۔جنھوںنے لقائے پروردگار کا انکار کیامسلمہ طور پر انہوںنے نقصان اٹھایا(اور یہ انکار ہمیشہ رہے گا)یہاں تک کہ قیامت آجائے گی تو وہ کہیں گے ہائے افسوس کہ ہم نے اس کے بارے میںکوتاہی کی،وہ اپنے گناہوںکا(بھاری بوجھ)اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوں گے اور کیسا برُا بوجھ ہے جو انھوںنے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہوگا ۔
۳۲۔ اور دنیاوی زندگی سوائے کھیل کود کے اور کچھ نہیں ہے اور آخرت کا گھر اُن لوگوں کے لیے بہتر ہے جو پرہیزگار ہیں،کیا تم سوچتے نہیں ہو ۔


 
1۔ یونس، ۲۲-
 
تجھ سے پہلے پیغمبروں کی بھی تکذیب کی گئی ہے مگر وقتی اور بے اثر بیداری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma