مصلحین کے راستے میں ہمیشہ مشکلات رہی ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
زندہ نما مردےتجھ سے پہلے پیغمبروں کی بھی تکذیب کی گئی ہے مگر

اس میں شک نہی ہے کہ پیغمبر اپنی منطقی گفتگو اور فکری مبارزات میں جو وہ ہٹ دھرم اور سخت مشرکین کے ساتھ رہتے تھے بعض اوقات ان کی ہٹ دھرمی سے اور اپنی باتوں سے ان کی روح میں اثر نہ ہونے سے اور بعض اوقات ان کی ان غیر مناسب نسبتوں سے وہ جو حضرت کی طرف دیتے تھے غمگین اور اندوہناک ہوجاتے تھے، خدا وند تعالیٰ بارہا قرآن مجید میں اپنے پیغمبر کو ایسے موقع پر تسلی اور دلاسا دیا کرتا تھا تاکہ آنحضرت زیادہ گرمجوشی اور صبر واستقامت کے ساتھ اپنے پروگرام میں مشغول رہیں، انھیں میں سے مندرجہ بالا ٓیات بھی ہیں ، پہلی آیت میں فرماتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ان کی باتیں تجھے محزون ومغموم کردیتی ہیں (قَدْ نَعْلَمُ إِنَّہُ لَیَحْزُنُکَ الّذِی یَقُولُونَ) ۔
لیکن تمھیں معلوم ہونا چاہےے کہ وہ تمھاری تکذیب نہیں کرتے وہ تو درحقیقت ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں، لہٰذا ان کے اصل مخالف تو حقیقت میں ہم ہیں نہ کہ تم( فَإِنَّھُمْ لاَیُکَذِّبُونَکَ وَلَکِنَّ الظَّالِمِینَ بِآیَاتِ اللّٰہِ یَجْحَدُونَ ) ۔
اور اس بات کی نظیر ہمارے درمیان گفتگو میں بھی نظر آتی ہے جب کہ بعض اوقات بزرگ تر شخصیت اپنے نمائندہ کے ناراحت ہونے کے وقت اس سے کہتی ہے کہ تم کوئی غم نہ کرو یہ اصل میں تو انھوں نے میری مخالفت کی ہے، لہٰذا اگر کوئی مشکل پیدا ہوگی تو وہ میرے لئے ہوگی نہ کہ تمھارے لئے اور اس طرح سے وہ شخصیت اس کی تسلی وتشفی کے اسباب مہیا کرتی ہے ۔
زیر نظر آیت میں مفسرین نے کچھ احتمالات بھی پیش کئے ہیں، لیکن ظاہر مفہوم وہی ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں ۔
یہ احتمال بھی ایک جہت سے قابل ملاحظہ ہے کہ آیت سے مراد یہ ہے کہ :تیرے مخالفین حقیقت میں تو تیرے صدق ودرستی کے معتقد ہیں اور تیری دعوت کے حق ہونے میں شک نہیں رکھتے اگر چہ ان کے منافع خطرے میں پڑ جانے کا خوف ان کے لئے حق کو تسلیم کرنے میں مانع ہوجاتا ہے یا تعصب اور ہٹ دھر می اسے قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتی ۔
تاریخ اسلامی سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے سخت ترین دشمن تک باطنا آپ کی صداقت اور راست بازی سے معتقد تھے، ان میں سے ایک یہ واقعہ ہے کہ ایک دن ابو جہل نے پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم سے ملاقات کی اورآپ سے مصافحہ کیا ، تو کسی نے اس پر اعتراض کیا: تم اس شخص سے مصافحہ کیوں کررہے ہو ، اس نے کہا: خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ پیغمبر ہیں لیکن کیا ہم کسی زمانے میں ”عبد مناف“ کے تابع اور پیرو رہے ہیں! یعنی اس کی دعوت کو قبول کرنا اس بات کا سبب بن جائے گا کہ ہم ان کے قبیلہ کے تابع ہوجائےں (اور یہ بھی تاریخوں میں لکھا ہے کہ) ایک رات ابو جہل ، ابوسفیان اور اخنس بن شریق، جو مشرکین مکہ کے سردار اور رئیس تھے، میں سے باہر ہر ایک ایسے مخفی طریقے سے کہ کوئی شخص ان کی طرف متوجہ نہ ہو، یہاں تک یہ تینوں افراد بھی ایک دوسرے کی حالت سے باخبر نہیں تھے پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کے ارشادات سننے کے لئے ایک گوشے میں چھپ کر بیٹھ گئے اور صبح تک آیت قرآن کی تلاوت سنتے رہے، جب صبح کی سفیدی نمودار ہوئی تو وہاں سے چلتے بنے لیکن لوٹتے وقت راستہ میں ایک دوسرے کا آمناسامنا ہوگیا تو ہر ایک اپنا عذر دوسرے سے بیان کرنے لگا، پھر انھوں نے عہد کیا کہ اب دوبارہ یہ کام نہیں کریں گے کیوں کہ اگر قریش کے جوانوں کو اس بات کی خبر ہوگئی تو یہ بات ان کے محمد کی طرف جھکاؤ کا سبب بن جائے گی۔
دوسر ی رات اس گمان سے کہ اس کے ساتھی اس رات نہیں آئے گے ہر ایک آیت قرآن سننے کی غرض سے پیغمبر کے گھر کے قریب یا مسلمانوں کے مجمع کے قریب آگیا لیکن صبح ہوتے ہیں پھر ان کا رازایک دوسرے پر فاش ہوگیا لیکن اتفاق کی بات ہے کہ یہ کام تیسری رات پھر دہرا یا گیا، جب صبح ہوئی تو اخنس بن شریق اپنا عصا لئے ہوئے ابو سفیان کی تلاش میں نکلا اور اس سے کہنے لگا: مجھے صاف ،صاف بتا کہ تمھارا ان باتوں کے بارے میں جو تم نے محمد سے سنی ہیں کیا عقیدہ ہے، تو وہ کہنے لگا :خدا کی قسم کچھ چیزیں تو میں نے ایسی سنی ہیں جنھیں میں نے اچھی طرح جان لیا ہے اور ان کا مقصود و مضمون اچھی طرح سمجھ لیا ہے لیکن کچھ ایسی آیات بھی سنی ہیں جن کا معنی ومقصد میری سمجھ میں نہیں آیا، اخنس نے کہا خدا کی قسم میں بھی یہی محسوس کرتا ہوں اس کے بعد وہ اٹھا اور ابو جہل کی تلاش میں گیا اور یہی سوال اس سے کیا کہ ان باتوں کے بارے میں جو تم نے محمد سے سنی ہیں تمھاری کیا رائے ہے اس نے کہاتو کیا سننا چاہتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم اور اولاد عبد مناف سرداری کے حصول میں ایک دوسرے کے رقیب ہیں انھوں نے لوگوں کو کھانا کھلایا تو ہم نے بھی اس غرض سے کہ کہیں پیچھے نہ رہ جائیں کھانا کھلایا،انھوں نے سواریاں بخشی تو ہم نے بھی سواریاں بخشی، انھوں نے اور دوسری عنایات کیںتو ہم نے بھی اور دوسری عنایات کیںتو اس طرح سے ہم ایک دوسرے کے دوش بدوش تھے، اب وہ کہتے ہیں کہ ہم میں پیغمبر ہے کہ جس پر آسمانی وحی نازل ہوتی ہے لیکن اب ہم اس امر میں ان کی رقابت کس طرح کرسکتے ہیں(واللّٰہ لا نومن بہ ابدا ولانصدقہ) خدا کی قسم ہم کبھی بھی اس پر ایمان نہیں لائیں گے اور نہ اس کہ تصدیق کریں گے،اخنس کھڑا ہوگیا اور اس کی مجلس سے نکل گیا ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ ایک دن”اخنس بن شریق“ کا ابو جہل سے آمنا سامنا ہویگا جب کہ وہاں پر اور کوئی دوسرا آدمی موجود نہیں تھا، تو اخنس نے اس سے کہا: سچ بتا محمد سچا ہے یا جھوٹا، قریش میں سے کوئی شخص سوا میرے وتیرے یہاں موجود نہیں ہے جو ہماری باتوں کو سنے ۔
ابو جہل نے کہا: وائے ہو تجھ پر خدا کی قسم ! وہ میرے عقیدے میں سچ کہتا ہے اور اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن اگر یہ اس بات کی بنا ہوجائے کہ محمد کا خاندان سب چیزوں کو اپنے قبضہ میں کرلے،حج کا پرچم، حاجیوں کو پانی پلانا، کعبہ کی پردہ داری اورمقام نبوت تو باقی قریش کے لئے کیا رہ جائے گا(۱) ۔
ان روایات اور انھیں جیسی دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کے بہت سے سخت ترین دشمن باطنا آپ کی سچائی کے معترف تھے لیکن قبائلی رقابتیں اور اسی قسم کی دوسری باتیں انھیں اجازت نہیں دیتی تھیں یا وہ اس بات کی جراٴت نہیں رکھتے تھے کہ باقاعدہ ایمان لے آئیں ۔
البتہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس قسم کا باطنی اعتقاد جب تک روح تسلیم کے ساتھ نہ ملا ہو کسی قسم کا اثر نہیں رکھتا اور انسان کو سچے مومنین کے زمرہ میں قرار نہیں دیتا ۔
بعد والی آیات میں، اس تسلی کی تکمیل کے لئے گذشتہ انبیاء کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:یہ امر صرف تیری ذات کے ساتھ ہی مختص نہیں ہے بلکہ تجھ سے پہلے جتنے رسول گذرے ہیں ان کی بھی اسی طرح سے تکذیب کی جاتی تھی( وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِکَ) ۔
لیکن ان انبیاء نے ان تکذیبوں اور تکلیفوں کے مقابلہ میں پامردی او استقامت دکھائی یہاںتک کہ ہماری مدد ونصرت ان کو پہنچی اور آخرکار وہ کامیاب ہوئے

 

( فَصَبَرُوا عَلَی مَا کُذِّبُوا وَاٴُوذُوا حَتَّی اٴَتَاھُمْ نَصْرُنَا ) ۔
اور یہ ایک سنت الٰہی ہے کہ جسے کوئی چیز دیگرگوں نہیں کرسکتی(وَلاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ ) ۔
اس بنا پر تم بھی ان تکذیبوں اور آزاروں اور سخت اور ہٹ دھرم ودشمنوں کے حملوں کے مقابلے میں صبر واستقامت سے کام لو اور یہ جان لو کہ اسی سنت کے مطابق خدا وند تعالیٰ کی امداد اور پروردگار عالم کے بے انتہا الطاف تمھیں حاصل ہوں گے اور آخر کار تم بھی ان سب پر کامیابی حاصل کروگے اور وہ خبریں جو گذشتہ پیغمبروں کے حالات کی تجھ تک پہنچی ہیں کہ انھوں نے مخالفتوں اور شدائد کے مقابلے میں کس طرح صبر وتحمل کیا اور کامیاب ہوئے، وہ تمھارے لئے ایک واضح وروشن گواہ ہیں(وَلَقَدْ جَائَکَ مِنْ نَبَإِ الْمُرْسَلِینَ ) ۔
در حقیت اوپر والی آیت ایک بنیادی کلیہ کی طرف اشارہ کررہی ہے اور وہ کلیہ یہ ہے کہ ہمیشہ معاشرے کے صالح رہنما جو پست افکار اور معاشرے میں پھیلی ہوئی غلط رسموں اور خرافات کے مقابلے میں اصلاحی پروگرام پیش کرنے اور صحیح راہ دکھانے کے لئے قیام کرتے ہیں، انھیں ایسے منافع خور اور دروغ گو لوگوں کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا کہ جن کے منافع اس جدید دین ومذہب کی ترقی سے خطرے میں پڑ جاتے تھے ۔
وہ اپنے برےامقاصد کی پیش رفت کے لئے کسی بھی بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور تمام حربے مثلا تکذیب کا حربہ، تہمت کا حربہ، محاصرہٴ اجتماعی کا حربہ،تکلیفیں اور دکھ پہنچانے کا حربہ، قتل کرنے اور لوٹ ار کرنے کا حربہ غرضیکہ وہ ہر وسیلے کو کام میں لاتے تھے لیکن حقیقت اپنی اس جزب وکشش اور گہرائی کے ذریعہ جو اس کے اندر ہوتی ہے ۔سنت الٰہی کے مطابق ۔ آخر کار اپنا کام کرے گی اور راستے کے یہ تمام کانٹے ایک ایک کر کے سب ختم ہوجائیں گے ، لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ اس کامیابی کی بنیادی شرط بردباری، مقاومت، پامردی اور استقامت ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ مدرجہ بالا آیت میں سنن کو ”کلمات اللّٰہ “ سے تعبیر کیا گیا ہے، کیوں کہ”کلم وکلام“ در اصل ایک ایسی تاثیر کے معنی میں ہے جو آنکھ یا کان سے محسوس ہوسکے ”کلم“ تاثیرات عینی کے معنی میں ہے اور ”کلام“ ان تاثیرا ت کو کہتے ہیں جو کانوں سے محسوس کئے جاتے ہیں، اس کے بعد اس میں وسعت پیدا ہوگئی اور اب ”الفاظ“ کے علاوہ معانی پر بھی ”کلمہ“ بولا جانے لگا ہے، یہاں تک کہ ”عقیدہ“، ”مکتب“ اور ”روش وسنت“ پر بھی بولا جاتا ہے ۔
۳۵ وَإِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ إِعْرَاضُھُمْ فَإِنْ اسْتَطَعْتَ اٴَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاٴَرْضِ اٴَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَاءِ فَتَاٴْتِیَھُمْ بِآیَةٍ وَلَوْ شَاءَ اللّٰہُ لَجَمَعَھُمْ عَلَی الْھُدَی فَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْجَاھِلِینَ۔
۳۶ إِنَّمَا یَسْتَجِیبُ الَّذِینَ یَسْمَعُونَ وَالْمَوْتَی یَبْعَثُھُمْ اللّٰہُ ثُمَّ إِلَیْہِ یُرْجَعُونَ۔
ترجمہ
۳۵۔ اور اگر تم پر ان کا اعراض(روگردانی) کرنا گراں ہے تو اگر تم سے ہوسکے تو نقب لگا لو یا آسمان میں سیڑھی لگا لو( اور زمین و آسمان کی گہرائیوں میں جستجو کرو) تاکہ کوئی آیت(یا دوسری کوئی اور نشانی ) ان کے لئے لا سکو( لیکن یہ جان لو کہ یہ ہٹ دھرم پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے)لیکن اگر خدا چاہے تو انھیں (جبرا) ہدایت پر جمع کرسکتا ہے( لیکن جبری ہدایت کا کیا فائدہ ہے) پس تم ہرگز جاہلوں میں سے نہ ہونا ۔
۳۶۔صرف وہ لوگ (تیری دعوت) قبول کرتے ہیں جو سننے والے کان رکھتے ہیں،لیکن مردے (اور وہ لوگ جو روح انسانی ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں ایمان نہیں لائیں گے اور ) خدا انھیں(قیامت کے دن) مبعوث کرے گا وہ اس کی طرف پلٹ جائیں گے ۔


 
۱۔ مندرجہ بالا روایات تفسیر المنار اور مجمع البیان سے اس آیت کے ذیل میں بیان کردہ تفسیر سے لی گئی ہیں-
زندہ نما مردےتجھ سے پہلے پیغمبروں کی بھی تکذیب کی گئی ہے مگر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma