چند قابل توجہ امور

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
تین اہم امتیازنعمت ہے صالح اولاد اور آبرومند اور لائق نسل

۱۔ فرزندانِ پیغمبر۔ اُوپر والی آیات میں حضرت عیسیٰ - کو فرزندان ابراہیم - (اور ایک احتمال کی بناپر فرزندان نوح) میں سے شمار کیا گیا ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ جناب صرف ماں کی طرف سے ابراہیم - کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔
یہ بات اس امر کی دلیل سے پوتے اور نواسے دونوں ہی انسان کی ذریت اور فرزند شمار ہوتے ہیں۔
اسی سبب سے آئمہ اہلِ بیت- کو جو سب کے سب بیٹی کی طرف سے پیغمبر اکرم تک پہنچتے ہیں ”ابناء رسول اللّٰہ“ (فرزندان رسول -) کہا جاتا ہے۔
اگر چہ زمانہ جاہلیت میں جب کہ عورت کی کوئی اہمیت نہیں تھی نسب کو صرف باپ کی طرف سے سمجھتے تھے لیکن اسلام نے اس جاہلانہ فکر پر قلم بطلان پھِیر دیا، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لکھنے والوں میں سے بعض قلم نگار جوائمہ اہل بیت- کے ساتھ صحیح لگاؤ نہیں رکھتے یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ اس امر کا انکار کریں اور ابن رسول الله کہنے سے اجتناب کریں اور سننِ جاہلیت کو زندہ کریں۔
اتفاق سے یہ موضوع خود ائمہ-کے مانہ میں پیدا ہوچکا تھا اور انھوں نے اسی آیت کے ساتھ کہ جو ایک دندان شکن دلیل ہے، انھیں جواب دیا۔
منجملہ اُن کے کتابِ کافی اور تفسیر عیّاشی میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے، آپ- نے فرمایا:
خداوندعالم نے قرآن میں حضرت عیسی- کا نسب جو کہ ماں کی طرف سے حضرت ابراہیم- تک پہنچتے تھے ذریّت (اولاد کی اولاد) کے عنوان سے بیان کیا ہے۔
پھر آپ- نے آیہ(وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ) کو آخر تک اور بعد کی آیت کو لفظ عیسی- تک تلاوت فرمایا۔
تفسیر عیّاشی میں بھی ابوالاسود سے مروی ہے وہ کہتا ہے:
ایک دن حجاج نے کسی کو یحییٰ بن معمر کے پاس بھیجا جو خاندان رسالت سے محبت رکھتا تھا (اور اُس سے پوچھا) کہ میں نے سنا ہے کہ تو حسن- وحسین- کو فرزندان رسول سمجھتا ہے اور اس سلسلے میں آیات قرآن سے استدلال کرتا ہے، حالانکہ میں نے قرآن کو اوّل سے آخر تک پڑھا ہے مجھے تو کوئی ایسی آیت نہیںملی، یحییٰ بن معمر نے اس کے جواب میں کہا کہ کیا تونے سورہٴ انعام کی وہ آیت پڑھی ہے کہ جو یہ کہتی ہے کہ (وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ----وَیَحْییٰ وَعِیسیٰ ) اس نے کہا کہ ہاں میں نے پڑھی ہے تو اس نے کہا کہ کیا ان آیات میں حضرت عیسی- کو ذریت ابراہیم- میں شمار نہیں کیا گیا ہے حالانکہ وہ باپ کی طرف سے اُن تک نہیں پہنچتے تھے۔
”عیون الاخبار“ میں ایک طویل حدیث ہے جس میں امام موسی- بن جعفر- کی ہارون الرشید اور موسیٰ بن مہدی سے گفتگو منقول ہے جس میں ہے:
اُس (ہارون) نے امام کاظم علیہ السلام سے کہا کہ تم لوگ کس طرح کہتے ہو کہ ہم ذریت پیغمبر ہیں حالانکہ پیغمبر کا کوئی بیٹا تو نہیں تھا اور نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے اور تم اُن کی بیٹی کی اولاد ہو، امام علیہ السلام نے جواب میں اس سے فرمایا کہ اس سوال کو رہنے دے لیکن ہارون نے اصرار کیا اور کہا کہ میں کسی طرح بھی اس سوال سے صرفِ نظر نہیں کروں گا کیونکہ تم لوگ عقیدہ رکھتے ہوکہ سب کچھ قرآن مجید میں موجود ہے لہٰذا اس بارے میں قرآن کی کوئی آیت دکھائیے، امام علیہ السلام نے فرمایا:
”اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم، بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم <وَمِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاٴَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَہَارُونَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ،وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی-
اس کے بعد آپ- نے سوال کیا: اے ہارون!عیسی- کا باپ کون تھا؟ اُس نے کہا: عیسی- کا تو کوئی باپ نہیں تھا۔ فرمایا: تو اس بناپر اگر وہ انبیاء کی ذریت سے ملحق ہیں تو مریم کی طرف سے ہیں، ہم بھی رسولِ خدا کی ذریت میں اپنی ماں فاطمہ- کے ذریعہ سے ملحق ہیں(1)
یہ بات خاص طور پر توجہ ہے کہ بعض متعصب سنّی مفسّرین نے بھی یہ موضوع اپنی تفسیر میں اسی آیت کے ذیل میں نقل کیا ہے۔ ان میں سے ایک فخر الدین رازی ہیں جنھوں نے اپنی تفسیر کبیر میں لکھا ہے:
”یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن- وحسین- ذریت پیغمبر ہیں کیونکہ خدا ہے عیسی- کو ذریت ابراہیم- میں شمار کیا ہے حالانکہ وہ صرف ماں کی طرف سے ان (حضرت ابراہیم-) سے تعلق رکھتے ہیں(2)
تفسیر ”المنار“ کا موٴلف بھی جو بعض مخصوص مذہبی مباحث میں فخر رازی سے کم متعصب نہیں ہے، فخر رازی کی اس گفتگو کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:
”اس باب میں ایک حدیث حضرت ابوبکر سے بھی صحیح بخاری میں پیغمبر سے نقل ہوئی ہے کہ آپ نے امام حسن- کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
”اِنَّ ابْنِی ہٰذا سیّد“
”میرا یہ بیٹا سید وسردار ہے“
یعنی آپ نے ”میرا بیٹا“ کے لفظ کا امام پر اطلاق فرمایا حالانکہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک لفظ ابن (بیٹا) کا بیٹی کی اولاد پر اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ اسی بناپر لوگ اولاد فاطمہ- کو اولاد رسول اور عترت واہل بیت- رسول جانتے تھے۔
بہر حال اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اولاد کی اولاد بیٹی کی ہو یا بیٹے کی انسان کی اولاد شمار ہوتی ہے اور اس سلسلے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور نہ ہی یہ تفریق ہمارے پیغمبر کے خصوصیات میں سے ہے اور اس مسئلہ کا مخالفت کا سرچشمہ سوائے تعصب یا زمانہ جاہلیت کے افکار کے اور کچھ نہیں ہے۔ اسی لئے تمام احکام اسلام میں ازدواج، ارث وغیرہ کے قبیل سے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس میں صرف ایک استثناء ہے اور وہ مسئلہ خمس ہے، جو سیادت کے ساتھ مخصوص ہے اور ایک خاص جہت سے جو فقہ کی کتابِ خمس میں بیان ہوئی ہے اس موضوع کا استثناء ہوا ہے۔
۲۔ ان پیغمبروں کے نام تین حصوں میں کیوں بیان ہوئے؟ بعض مفسّرین نے یہ احتمال بیان کیا ہے کہ پہلا گروہ یعنی داؤد-، سلیمان-، ایوب- موسی- اور ہارون، یہ چھ افراد ان پیغمبروں میں سے تھے جو مقام نبوت ورسالت کے علاوہ حکومت وسلطنت بھی رکھتے تھے، او رشاید جملہ ”وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ“ جو ان کے ناموں کے ذکر کے بعد آیا ہے ان فراواں نیکیوں کی وجہ سے تھا جو انھوں نے اپنی اپنی حکومت کے زمانہ میں لوگوں پر کی تھیں۔
لیکن دوسرا گروہ یعنی زکری-، یحیی-، حیسی- اور الیاس- اپن انبیاء میں سے ہیں کہ جو مقام نبوت ورسالت کے علاوہ زہد وتقویٰ میں اعلیٰ نمونہ تھے ”کُلٌّ مِنَ الصَّالِحِیْن“ کا جملہ اُن کے اسمائے گرامی کے بعد ہوسکتا ہے کہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہو۔
اور تیسرا گروہ (کے انبیاء) یعنی اسماعیل-، الیسع-، یونس- او لوط- یہ امتیاز رکھتے تھے کہ انھوں نے بڑی بڑی ہجرتیں کیں اور دین خدا کو محکم کرنے لیے ہجرت کے پروگرام کو عملی شکل دی اور جملہٴ ”کلا فضلنا علی العالمین“ کا ذکر بھی (اس قول کی بناپر کہ اس میں جملہ میں انہی چار افراد کی طرف اشارہ ہے نہ کہ ان تمام پیغمبروں کی طرف کہ جن کا ذکر ان تین آیات میں آیا ہے) ہوسکتا ہے کہ اُن کے مختلف قوموں اور دنیا جہاں کے لوگوں کے درمیان سیر کی طرف اشارہ ہو۔
۳۔ انسان کی شخصیت کے تعارف میں صالح اور نیک اولاد کی اہمیت: ایک دو سرا موضوع جو زیر بحث آیات سے معلوم ہوتا ہے یہی مسئلہ ہے کیونکہ خدا شجاع وبت شکن ابراہیم- کے مقامِ والا کے تعارف کے لیے عالم انسانیت کی عظیم شخصیتوں کا جو آپ کی اولاد میں سے مختلف زمانوں میں عالم وجود میں آئی تھیں شرح وبسط اور تفصیل کے ساتھ ذکر کرتا ہے، اس طور پر کہ ان ۲۵انبیاء میں سے کہ جن کے نام سالم قرآن میں بیان ہوئے ہیں ان آیات میں ۱۶ نام ابراہیم- کے فرزندوں اور وابستگان کے ہیں اور ایک نام اُن کے اجداد میں سے آیا ہے اور یہ حقیقت میں عام مسلمانوں کے لیے ایک عظیم درس ہے تاکہ وہ یہ جان لیں کہ ان کی اولاد اور عزیزوں کی شخصیت ان کی شخصیت کا جزء شمار ہوتی ہے لہٰذا اُن سے مربوط تربیتی اور انسانی مسائل بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
۴۔ ایک اعتراض کا جواب: ممکن ہے کہ کچھ لوگ آخری آیت سے، جو یہ کہتی ہے کہ ہم نے ان کے بعض آباؤ اجداد اور اولاد اور بھائیوں کو برگزیدہ کیا اور انھیں راہ راست کی ہدایت کی، یہ سمجھا کریں کہ انبیاء کے آباؤ اجداد سب کے سب یا ایمان افراد نہیں تھے اور اُن میں غیر موحّد بھی ہیں، جیسا کہ بعض مفسّرین اہل سنّت نے اس آیت کے ذیل میں کہا ہے لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ”اجتبیناھم وہدیناھم“ سے مراد اس تعبیر کے قرینہ سے کہ جو اسی سلسلہ آیات میں موجود ہے، مقامِ نبوت ورسالت ہے، یہ مشکل حل ہوجاتی ہے یعنی آیت کا مفہوم اس طرح ہوگا کہ ہم نے اُن میں سے بعض کو مقامِ نبوت کے لیے برگزیدہ کیا۔ اور یہ باقی دوسروں کے موحّد وخدا پرست ہونے کی نفی نہیں ہے۔ اس سورہ کی آیت ۹۰ میں بھی (جو اس آیت سے چند آیات بعد کی آیت ہے) ہدایت کا اطلاق مقامِ نبوت پر ہوا ہے(3)
۸۸ ذٰلِکَ ہُدَی اللَّہِ یَہْدِی بِہِ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَلَوْ اٴَشْرَکُوا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ-
۸۹ اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ آتَیْنَاہُمْ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ فَإِنْ یَکْفُرْ بِہَا ہَؤُلاَءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِہَا قَوْمًا لَیْسُوا بِہَا بِکَافِرِینَ-
۹۰ اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ ہَدَی اللَّہُ فَبِہُدَاہُمْ اقْتَدِہِ قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا إِنْ ہُوَ إِلاَّ ذِکْرَی لِلْعَالَمِینَ-
ترجمہ
۸۸۔ یہ خدا کی ہدایت ہے کہ جو اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کی ہدایت کرتا ہے اور اگر وہ مشرک ہوجائیں تو انھوں نے جو کچھ عمل کیا تھا وہ سب کا سب (ضائع اور) نابود ہوجائے گا۔
۸۹۔ وہ ایسے لوگ ہیں جنھیں ہم نے کتاب اور حکم ونبوت عطا کی ہے اور اگر وہ اس کا انکار کریں اور کافر ہوجائیں تو (کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ) ہم نے ایسے لوگوں کو اس کا نگہبان بنایا ہے کہ جو اُس کا کفر وانکار کرنے والے نہیں ہیں۔
۹۰۔ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جنھیں خدا نے ہدایت کی ہے پس تم ان کی ہدایت کی اقتدا (وپیروی) کرو (اور) یہ کہو کہ میں اس (رسالت وتبلیغ) کے بدلے میں تم سے کوئی اجر اور بدلہ نہیں مانگتا یہ رسالت تو عالمین کے لیے ایک یاد دہانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
تفسیر


 
1۔ نور الثقلین، ج۱، ص۷۴۳-
2۔ تفسیر فخر رازی، ج۱۳، ص۶۶-
3۔ ترکیب کے لحاظ سے ”من آبائہم“ ، ”جارو ومجرور“ ہے کہ جس کا متعلق یا تو لفظ ”فضلنا“ ہے جو قبل کی آیت میں ذکر ہوا ہے، یا محذوف ہے اور بعد کا حصّہ اس محذوف پر دلالت کرتا ہے اور اصل می اس طرح تھا: ”اجتبیناہم من آبائہم“ ضمناً توجہ رکھنا چاہیے کہ اوپر والی آیت میں ”مِن“ تبعیضیہ ہے۔
تین اہم امتیازنعمت ہے صالح اولاد اور آبرومند اور لائق نسل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma