کیا میں غیر خدا کو منصف اور حکم کے طور پر قبول کرلوں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
اگر تم زمین میں رہنے والے اکثر لوگوں کی پیروی کرو گے شیطانی وسوسے

یہ آیت حقیقت میں گذشتہ آیات کا نتیجہ ہے اور یہ آیت کہتی ہے کہ ان واضح آیات کے باوجود جو توحید کے سلسلے میں گزرچکی ہے کیا کسی شخص کو منصف اور حکم کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے، کیا میں غیر خدا کو منصف اور حکم کے طور پر قبول کرلوں( اٴَفَغَیْرَ اللهِ اٴَبْتَغِی حَکَمًا)۔(۱)
جب کہ وہی ذات ہے کہ جس نے یہ عظیم آسمانی کتاب نازل کی ہے جس میں انسان کی تمام تربیتی ضروریات آچکی ہیں اور جس نے حق و باطل، نور وظلمت اور کفر وایمان کے درمیان فرق ظاہر کردیاہے ( وَہُوَ الَّذِی اٴَنزَلَ إِلَیْکُمْ الْکِتَابَ مُفَصَّلاً)۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے نہ صرف تم اور تمام مسلمان اس بات کو جانتے ہیں کہ یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے، بلکہ اہل کتاب(یہود ونصاری) جنھوں نے آسمانی کتاب کی نشانیان اپنی کتابوں میں دیکھی ہیں وہ بھی جانتے ہیں، کہ یہ تیرے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے

(وَالَّذِینَ آتَیْنَاہُمْ الْکِتَابَ یَعْلَمُونَ اٴَنَّہُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّکَ بِالْحَقِّ)اس بنا پر اس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ، اور اے پیغمبر تم ہرگز اس بارے میں تردد کرنے والوں میں سے نہ ہونا( فَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُمْتَرِینَ )۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو بھی اس بارے میں کوئی شک تھا کہ اس قسم کا خطاب آپ سے ہورہا ہے؟
اس سوال کا جواب وہی ہے جو ہم نے اس کے مشابہ اور اس سے ملتے جلتے مواقع پر دیا اور وہ یہ کہ اس میں درحقیقت مخاطب تو عام لوگ ہیں لیکن خدا وند تعالی تاکید اور تحکیم مطلب کے لئے اپنے پیغمبر مخاطب کرتا ہے تاکہ دوسرے لوگ اپنے بارے میں جان لیں۔
بعد والی آیت میں فرمایا گیا ہے:تیرے پروردگار کا کلام صدق، عدل کے ساتھ مکمل ہوگا اور کوئی بھی شخص اس بات پر قادر نہین ہے کہ اس کے کلمات کو دگر گوں کردے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے(وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلًا لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ)”کلمة“ لغت عرب گفتگو اور ہر قسم کے جملے کے معنی میں ہے یہاں تک کہ مفصل اور طولانی گفتگو بھی کہا جاتا ہے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ بعض اور وعدہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے مثلا:
”وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ الْحُسْنَی عَلیٰ بَنِی إِسْرَائِیلَ بِمَا صَبَرُوا“
”تیرے پروردگار کا وعدہ بنی اسرائیل کے بارے میں اس صبر استقامت کے مقابلے جو انھوں کیا انجام پاگیا“ (سورہٴ اعراف:۱۳۷)۔
یہ بھی اسی لحاظ سے ہے کیوںکہ انسان وعدہ کرتے وقت ایسا جملہ کہتا ہے جو وعدہ کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہوتا ہے۔
بعض اوقات ”کلمہ“ دین وآئین اور حکم ودستور کے معنی بھی آتا ہے اوروہ اسی اصل کی طرف لوٹتا ہے۔
اس بارے میں کہ زیر بحث آیت میں لفظ ”کلمہ“ سے مراد قرآن ہے یا خدا کا دین وآئین ہے یا کامیابی کے وہ وعدے جو پیغمبر سے کئے گئے تھے، یہ مختلف احتمالات ہیں کہ جن میں مختلف ہونے کے باوجود کوئی تضاد نہیں ہے،یہ بھی ممکن ہے کہ آیت میں تمام احتمالات کو مد نظر رکھا گیا ہو لیکن اس لحاظ سے کہ گذشتہ آیات میں گفتگو قرآن کے بارے میں بھی تھی لہٰذا یہ معنی زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔
حقیقت میں آیت یہ بیان کررہی ہے کہ کسی طرح سے بھی قرآن میں کوئی شک اور تردد کی گنجائش نہیں ہے، کیوں کہ یہ ہر لحاظ سے کامل اور بے عیب ہے، اس کی تواریخ اور اخبار سب کے سب صدق ہیں اور اس کے احکام و قوانین سب کے سب عدل ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ”کلمہ“ سے مراد وہی ”وعدہ“ ہو جو بعد والے جملہ میں یعنی ”لا مبدل لکَلِمَاتِہ“(کوئی شخص کلمات خدا میں تغیر اور تبدیل نہیں کرسکتا  کے جملہ میں آیا ہے کیوں کہ اس جملہ کی نظر ودوسری آیات قرآنی میں بھی نظر آتی ہے مثلا :
”وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ لَاٴَمْلَاٴَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اٴَجْمَعِینَ“(ہود ۱۱۹)۔
یا دوسری آیات میں ہم پڑھتے ہیں :<وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ إِنَّھُمْ لَھُمَ الْمَنصُورُونَ” پیغمبروں کے بارے میں ہمارا پہلے سے یہ وعدہ تھا کہ مظفر ومنصور تو وہی ہوں گے“ (سورہٴ صافات آیہ ۱۷۱و۱۷۲)۔
اس قسم کی آیت میں بعد کا جملہ اس وعدہ کی وضاحت ہے کہ جس کی طرف قبل کے جملہ میں لفظ ”کلمہ“ کے ذکر سے اشارہ ہوا ہے، اس بنا پر آیت کی تفسیر اس طرح ہوگی ، ہمارا وعدہ صدق وعدالت کے ساتھ انجام پذیر ہوا کہ کوئی شخص پروردگار کے احکام اور فرامین میں تبدیلی کی طاقت نہیں رکھتا۔
اور جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے یہ ہوسکتا ہے کہ یہ آیت ان تمام معانی کی طرف اشارہ کرتی ہو۔
اس بات لا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ آیت اگر قرآن کی طرف اشارہ کررہی ہو تو یہ بات اس امر سے کسی قسم کا اختلاف نہیں رکھتی کہ اس وقت تک سارا قرآن نازل نہیں ہوا تھا کیوں کہ آیات قرآن کے کامل ہونے سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ نازل ہوچکا تھا اس میں کوئی عیب اور نقص نہیں اور وہ ہر لحاظ سے کامل ہے۔
بعض مفسرین نے اس آیت سے قرآن میں تحریف کے بارے میں عدم امکان پر استدلال کیا ہے، کیوں کہ ”لا مبد ل لکلماتہ“ کا جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی شخص لفظ کے لحاظ سے، اخبار کے لحاظ سے اور احکام کے لحاظ سے قرآن میں تغیر وتبدل نہیں کرسکتا اور یہ آسمانی کتاب جسے آخر دنیا تک عالمین کا رہنما ہونا چاہئے خیانت کرنے والوں اور تحریف کرنے والوں کی دستبرد سے مصئون ومحفوظ رہے گی۔
 

۱۱۶ وَإِنْ تُطِعْ اٴَکْثَرَ مَنْ فِی الْاٴَرْضِ یُضِلُّوکَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ ہُمْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ ۔
۱۱۷ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اٴَعْلَمُ مَنْ یَضِلُّ عَنْ سَبِیلِہِ وَہُوَ اٴَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِینَ ۔
ترجمہ
۱۱۶۔اور اگر تم زمین پر رہنے والے لوگوں میں سے اکثر لوگوں کی اطاعت کرو گے تووہ تمھیں راہ خدا سے گمراہ کردیں گے، وہ تو صرف ظن اور گمان کی پیروی کرتے ہیں اور وہ اٹکل پچو لڑاتے رہتے ہیں۔
۱۱۷۔ تیرا پروردگار ان لوگوں سے بھی خوب اچھی طرح آگاہ ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہوگئے ہیں اور ان لوگوں سے بھی کہ جو ہدایت یافتہ ہیں۔

 


۱۔ ”حکم“ (بروزن قلم) کا معنی فیصلہ کرنے والا، قاضی اور حاکم ہے اور بعض نے اسے معنی کے لحاظ سے حاکم کے مساوی جانا ہے لیکن مفسرین کی ایک جماعت کہ جن میں ایک شیخ طوسی بھی ہیں، کتاب” تبیان “میں انھوں نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ ”حکم“ اس شخص کو کہا جاتا ہے کہ جو حق کے علاوہ فیصلہ نہ کرتا ہو لیکن دونوں کے لئے بولا جاتا ہے، بعض دوسرے کہ جن میں ”المنار“ کا مولف بھی ہے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ” حکم“ وہ شخص ہے جسے طرفین دعوی نے انتخاب کیا ہو، جب کہ حاکم ہر قسم کے فیصلہ کرنے والے کو کہا جاتا ہے ۔
 
اگر تم زمین میں رہنے والے اکثر لوگوں کی پیروی کرو گے شیطانی وسوسے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma