زمانہ جاہلیت کے عربوں کی فضول احکام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 05
بت پرستوں کے بیہودہ احکام

گذشتہ چند آیات میں زمانہ جاہلیت کے عربوں کی فضول احکام اور قبیح اور شرمناک رسموں سے متعلق گفتگو تھی منجملہ ان کے اپنی اولاد کو بتوں کی قربانی کے طور پر قتل کرنا ، اپنے قبیلہ اور خاندان کی حیثیت و عزت کو محفوظ رکھنے کے نام پر اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا اور اسی طرح کچھ حلال نعمتوں کے حرام کرلینا تھا، اس آیت میں بڑی سختی کے ساتھ ان تمام اعمال وہ احکام کو جرم قرار دیتے ہوئے سات مختلف تعبیروں کے ساتھ جو مختصر جملوں میں ہے لیکن وہ بہت ہی رسا اور جاذب توجہ ہے ، ان کی وضع وکیفیت کو واضح وروشن کیا گیا ۔
پہلے فرمایا گیا ہے: وہ لوگ کہ جنھوں نے اپنی اولاد کو حماقت ، بیوقوفی اور جہالت کی بنا پر قتل کیا ہے ، انھوں نے نقصان اور خسارہ اٹھایا ہے وہ انسانی اور اخلاقی نظر سے بھی اور احساس کی نظر سے بھی اور اجتماعی ومعاشرتی لحاظ سے بھی خسارہ اور نقصان میں گرفتار ہوئے ہیں اور سب سے زیادہ اور سب سے بڑھ کر انھوں نے دوسرے جہان میں روحانی نقصان اٹھایا ہے( قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ قَتَلُوا اٴَوْلاَدَہُمْ سَفَہًا بِغَیْرِ عِلْمٍ )۔
اس جملے میں ان کا یہ عمل اولا ایک قسم کا خسارہ اور نقصان اور اس کے بعد حماقت کم عقلی اور بعد میں جاہلانہ کام کے طور پر متعارف ہوا ہے ان تینوں تعبیرات میں سے ہر ایک تنہا ان کے عمل کی برائی کے تعارف کے لئے کافی ہے ، کونسی عقل اجازت دیتی ہے کہ انسان اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے قتل کردے اور کیا یہ حماقت اور بے وقوفی کی انتہا نہیں ہے کہ وہ اپنے اس عمل پر شرم نہ کریں بلکہ اس پر ایک قسم کا فخر کرے اور اسے عبادت شمار کرے، کونسا علم ودانش اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ انسان ایسا عمل ایک سنت کے طور پر یا اپنے معاشرے میں ایک قانون کے طور پر قبول کرے۔
یہ وہ مقام ہے کہ جہاں ابن عباس کی گفتگو یاد آرہی ہے کہ جو کہا کرتے تھے :
جو شخص زمانہ جاہلیت کی قوموں کی پسماندگی کی میزان کو جاننا چاہے تو وہ سورہٴ انعام کی آیات (یعنی زیر بحث آیات ) کو پڑھے۔
اس کے بعد قرآن کہتا ہے: انھوں نے اس چیز جو خدا نے انھیں روزی کے طور پر دی ہوئی تھی اور ان کے لئے اسے مباح وحلال قرار دیا تھا اپنے اوپر حرام قرار دے لیااور خدا پر انھوں نے یہ افتراء باندھا کہ خدا نے انھیں حرام کیا ہے (وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَہُمْ اللهُ افْتِرَاءً عَلَی اللهِ)۔
اس جملہ میں دو اور تعبیروں کے ذریعے ان کے اعمال کو جرم قرار دیا گیا ہے کیون اول تو انھوں نے اس نعمت کو جو خدا نے انھیں بطور روزی دے رکھے تھی یہاں تک کہ وہ ان کی حیات کی بقا اور زندگی کے برقرار رہنے کے لئے بھی ضروری تھی، اسے اپنے اوپر حرام کرلیا اور خدا کے قانون کو پاؤں تلے روند ڈالا اور دوسرے خدا پر افتراء باندھا کہ اس نے یہ حکم دیا ہے، حالانکہ ہرگز ہرگز ایسا نہیں تھا آیت کے آخر میں دو اور تعبیرات کے ذریعے انھیں مجرم قرار دیا گیا ہے پہلے کہا گیا ہے :وہ یقینا گمراہ ہوگئے( قَدْ ضَلُّوا)۔
اس کے بعد مزید کہا گیا ہے:وہ کبھی بھی راہ ہدایت پر نہیں تھے( وَمَا کَانُوا مُہْتَدِین)۔

بت پرستوں کے بیہودہ احکام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma