مشرکوں کے خرافاتی احکام کی نفی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
بعض حرام جانوروں کا ذکر

یہ آیت جیسا کہ پہلے بھی اشارتاً ذکر ہوا زراعت اور چوپایوں کے بارے میں ہے، مشرکوں کے خرافاتی احکام کی نفی کے لئے ہے، اس سے قبل کی آیت میں طرح طرح کے زراعت اور خداداد آدمیوں کی بابت گفتگو کی گئی تھی اور اب اس آیت میں حلال گوشت حیوانات اور ان کی خدمات کا تذکرہ ہے۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: الله وہ ہستی ہے جس نے چوپایوں میں سے تمھارے لئے بڑے حیوانات اور بوجھ اٹھانے والے اور چھوٹے حیوانات پیدا کئے

(وَمِنَ الْاٴَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا)۔(۱)
جیسا کہ علماء لغت نے کہا ہے: ”حمولہ“ جمع کے لئے ہے، اس کا لفظ مفرد اس کی جنس سے نہیں ہے، یہ لفظ بوجھ اٹھانے والے بڑے حیوانات جیسے اُونٹ، گھوڑا وغیرہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
”فرش“ کے وہی معنی ہیں جو معروف ومشہور ہیں لیکن اس مقام پر بھیڑ اور اسی طرح چھوٹے جانوروں سے اس کے تفسیر کی گئی ہے اور بظاہر اس میں نکتہ یہ ہے کہ اس طرح کے جانور زمین سے زیادہ نزدیک ہیں اور بڑے جانوروں کے مقابلے میں فرش کی طرح معلوم ہوتے ، کسی جنگل میں بھیڑیں چر رہی ہوں اگر ہم دُور سے دیکھیں تو بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے زمین پر فرش بچھا ہوا ہو، جبکہ اونٹوں کا گلہ دپور سے کبھی ایسا معلوم نہیں ہوتا۔
”حمولہ“ کے مقابلہ میں ”فرش“ کا ذکر کرنا اس مطلب کا موٴید ہے۔
نیز ایک اور احتمال بعض مفسرین نے یہ دیا ہے کہ اس کلمہ (فرش) سے مراد بچھانے کی ایس چیزیں ہیں جو جانوروں کی اُون وغیرہ سے بنائی جاتی ہیں، یعنی بہت سے حیوانات سے بار برداری کا بھی کام لیا جاتا ہے اور ان کے بالوں سے فرشی چیزیں بھی تیار کی جاتی ہیں لیکن پہلا احتمال آیت کے معنی سے زیادہ نزدیک ہے۔
بعد ازاں یہ نتیجہ نکالا گیا ہے۔ اب جبکہ یہ سب چیزیں خدا کی مخلوق ہیں اور ان کا حکم اسی کے قبضہٴ قدرت میں ہے تو وہ تم کو یہ فرمان دیتا ہے کہ جو روزی اس نے تم کو دی ہے اس میں سے کھاؤ (کُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمْ اللهُ )۔
وہ یہ نہیں فرماتا کہ ان حیوانات ہی میں سے کھاؤ، بلکہ فرماتا ہے کہ اس نے جو کچھ تمھیں دیا ہے اس میں سے کھاؤ، یہ فرمانا اس وجہ سے ہے کہ حلال گوشت صرف چوپایوں ہی میں منحصر نہیں ہے بلہ دوسرے حیوانات بھی حلال گوشت ہیں جن آیہٴ مذکورہ بالا میں ذکر کیا گیا ہے۔
اس امر کی تاکید کے لئے اور مشرکوں کے خرافاتی احکام کی ردّ کے لئے ارشاد ہوتا ہے: شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو کیونکہ وہ تمھارا دشمن ہے (ایسا دشمن جس نے آدمی کی خلقت اوّل ہی کے وقت سے اعلان جنگ کردیا ہے (وَلَاتَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ)۔
یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اس طرح کے بلا دلیل احکام ورسوم جو صرف خام خیالی، ہوا ہوس اور جہل ونادانی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں، ان کی حیثیت شیطانی وسوسوں کے سوا کچھ نہیں ہے جو تم کو قدم بقدم حق سے دپور کرکے گمراہی کے راستے میں سرگرداں کرتے ہیں۔
سورہٴ بقرہ کی آیت نمبر ۱۶۸ میں بھی اس امر کی ایک دلچسپ توضیح کی گئی ہے۔
اس کے بعد کی آیت میں توضیح کے طور پر بعض حلال گوشت حیوانات اور بعض وہ حیوانات کہ جو باربردار بھی ہیں اور انسان کے لئے غذا کے طور پر بھی قابل استفادہ ہیں کی شرح کرتے ہوئے فرماتا ہے: خداوندکریم نے چوپایوں کے آٹھ جوڑے تمھارے لئے پیدا کئے، بھیڑ اور مینڈھے کا جوڑا (نر اور مادہ) اور بکری کا ایک جوڑا (نر اور مادہ) (ثَمَانِیَةَ اٴَزْوَاجٍ(2) مِنَ الضَّاٴْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ)۔
ان چار جوڑوں کے تذکرے کے بعد بلا فاصلہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ  وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ ان (کافروں ) سے صاف صاف پوچھو کہ: آیا خدا نے ان کے نروں کو حراک کیا ہے یا ماداؤں کو (قُلْ اٴَالذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ اٴَمْ الْاٴُنْثَیَیْنِ)۔
یا وہ حیواں جو بھیڑوں یا بکریوں کے پیٹ میں ہیں (اٴَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْہِ اٴَرْحَامُ الْاٴُنثَیَیْنِ)۔
اس کے بعد مزید فرماتا ہے: اگر تم سچ کہتے ہو اور ان حیوانات کی تحریم پر از روئے علم ودانش کوئی دلیل رکھتے ہو تو مجھے بتلادو (نَبِّئُونِی بِعِلْمٍ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ)۔
اس کے بعد کی آیت میں ایک اور جوڑے کا ذکر فرماتا ہے: اُونٹ کا جوڑا (نر اور مادہ) اور گائے کا بھی جوڑا (نر اور مادہ) ہم نے پیدا کئے ہیں، بتاؤ اس میں سے کسے حرام قرار دیا ہے، نروں کو یا ماداؤں کو، یا ان حیوانوں کو جو اونٹوں اور گایوں کے شکم میں ہے ہیں؟ (وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ قُلْ اٴَالذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ اٴَمْ الْاٴُنثَیَیْنِ اٴَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْہِ اٴَرْحَامُ الْاٴُنثَیَیْنِ)۔
چونکہ ان حیوانات کے حلال یا حرام ہونے کا حکم صرف اس خدا کے ہاتھ میں ہے جو ان کا اور انسانوں کا بلکہ تمام نظام ہستی کا پیدا کرنے والا ہے لہٰذا جو شخص بھی ان کے حلال یا حرام ہونے کا دعویٰ کرے تو یہ عقلی گواہی کے ذریعے ہو یا شخصاً اس پر وحی نازل ہوئی ہو یا جس وقت یہ فرمان پیغمبرِ اکرم صلی الله علیہ وآلہ  وسلم نے دیا اس وقت وہ آنحضرت کے پاس موجود ہو۔
اس سے قبل کی آیت میں اس بات کی تصریح کی گئی تھی کہ مشرکین کے پاتس ان حیوانات کے حرام ہونے کی کوئی علمی یا عقلی دلیل نہیں ہے اور چونکہ وہ دعوائے نبوّت ووحی بھی نہیں کرتے تھے بنابریں صرف یہ احتمال باقی رہ جاتا ہے کہ جب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمان دیا تھا اس وقت حاضر وگواہ ہوں اس لئے ارشاد ہوتا ہے: آیا جب الله نے اس بات کا حکم دیا تھا اس وقت کے تم گواہ ہو (اٴَمْ کُنتُمْ شُھَدَاءَ إِذْ وَصَّاکُمْ اللهُ بِھٰذَا)۔
چونکہ اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے اس لئے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے پاس سوائے تہمت اور افتراء کے کوئی سرمایہ نہ تھا۔
اس لئے آیت کے آخر اضافہ فرماتا ہے: اس شخص سے بڑھ کر کون ستمگار ہے جو خدا کی طرف سے جھوٹی بات کی نسبت دے تاکہ لوگوں کو از روئے جہل گمراہ کرے اور یہ بات مسلم ہے کہ خدا ستمگاروں کو ہدایت نہیں کرے گا (فَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَریٰ عَلَی اللهِ کَذِبًا لِیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍ إِنَّ اللهَ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ)۔(3)
مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ الله پر جھوت باندھنا بزرگ ترین ظلموں میں سے ایک ہے، مقام مقدس الٰہی پر ظلم ، بندگان خدا پر ظلم، اپنی ذات پر ظلم، جیسا کہ ہم نے سابقاً بیان کیا کہ ”ظالم ترین“ کا جملہ اس کے اسباب ومقدمات کو خود انسان اختیار کرتا ہے، جس وقت کوئی ظلم کرنا شروع کرتا ہے، خدا اس سے اپنی حمایت وہدایت روک دیتا ہے، نتیجہ میں وہ غلط راستہ پر بھٹکتا رہتا ہے۔

 

۱۴۵قُلْ لَااٴَجِدُ فِی مَا اٴُوحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلیٰ طَاعِمٍ یَطْعَمُہُ إِلاَّ اٴَنْ یَکُونَ مَیْتَةً إِلاَّ اٴَنْ یَکُونَ مَیْتَةً اٴَوْ دَمًا مَسْفُوحًا اٴَوْ لَحْمَ خِنزِیرٍ فَإِنَّہُ رِجْسٌ اٴَوْ فِسْقًا اٴُھِلَّ لِغَیْرِ اللهِ بِہِ فَمَنْ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَاعَادٍ فَإِنَّ رَبَّکَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ۔
ترجمہ
۱۴۵۔ کہیے: مجھ پر وحی آئی ہے اس میں کسی غذا کھانے والے لئے کوئی حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ چیز مُردار ہو یا خون ہو جو (حیوان یا انسان کے بدن سے) باہر نکلے، یا سُور کا گوشت ہو کہ یہ سب چیزیں گندی ہیں، یا وہ حیوان جن پر بطور گناہ سرجُدا کرتے وقت غیر خدا (بتوں) کا نام لیا گیا ہو، لیکن وہ لوگ جن کا مقصود ولذّت نہ ہو اور نہ وہ حد سے تجاوز چاہتے ہوں مجبور ہوکر کچھ کھالیں تو (اُن پر کوئی گناہ نہیں ہے) تیرا پروردگار بخشنے والا اور مہربان ہے۔
تفسیر


۱۔ اس آیت کے شروع میں ’‘واوٴ“ عطف کے لئے ہے اس کے بعدکا لفظ ”جنات“ گذشتہ آیت میں جس کا ذکر ہے پر عطف کیا گیا ہے۔
2۔ ”ازواج“ زوج کی جمع ہے اور لغت میں جوڑے کے معنی میں ہے لیکن یہ توجہ رکھنا چاہیے کہ یہ کبھی وہ حیوانوں کے مجموعے نر اور مادہ کے لئے بولا جاتا ہے اور کبھی دو زوجوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے (زوج کا لفظ حیوانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: <فِیھِمَا مِن کُلِّ فَاکِھَةٍ زَوجَان(سورہٴ رحمٰن، مترجم) لہٰذا ان کے مجموعے کو زوجین کہتے ہیں، لہٰذا یہ کہ آیہٴ مذکورہ بالا میں آٹھ جوڑوں کی طرف اشارہ ہوا ہے ان سے چار قسم کے نر حیوان اور چار قسم کے مادہ حیوان مراد ہیں، اس آیت میں یہ احتمال بھی بیان کیا گیا ہے کہ شاید اس سے مراد گھریلو اور وحشی حیوانوں کے جوڑے ہوں، یعنی نر اور مادہ گھریلو بھیڑیں اور جنگلی بھیڑیں اسی طرح سے باقی کے بارے میں قیاس کرنا چاہیے۔
3۔ بغیر علم، یا اصطلاحاً یوں کہا جائے کہ ”جارو مجرور“ کس چیز سے متعلق ہے؟ اس بارے میں متعدد احتمال پیش کئے گئے ہیں لیکن یہ بعید نہیں کہ یہ ”لیضل“ سے متعلق ہو، یعنی وہ لوگ اپنی نادانی اور جہل کی وجہ سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کئے ہوئے تھے۔

 

بعض حرام جانوروں کا ذکر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma