توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ ان مامور کو حبل اللہ سے تعبیر کرنے سے ایک حقیقت کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ انسان عام حالات میں جب کہ کوئی مرّبی اور رہنما نہ ہو ، طبیعت کے درّے ، سر کش سر شت کی گہرائیوں اور جہل و نادانی کے تاریک کنویں میں پڑا رہتا ہے ۔ اس پستی سے نجات حاصل کرنے اور تاریک کنویں سے باہر نکلنے کے لئے ایک مضبوط رسّی کی ضرورت ہے جسے وہ پکڑ سکے اور اس سے باہر آسکے ۔
یہ مضبوط رسی وہ خدائی رابطہ ہے جو قرآن اس کے لانے والے اور ان کے حقیقی جانشینوں تک پہنچتا ہے اوریہ لوگوں کو مادیت کی پستی سے نکال کر معنویت اور راحانیت کے عروج تک پہنچا دیتا ہے ۔