فتنہ و فساد کا مقابلہ کرنے اور دعوت حق کی یاد دہانی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
اہل کتاب کو کوئی قابل اعتنا ضرر نہیں پہنچا سکیں گے نورانی اور تاریک چہرے

کُنْتُمْ خَیْرَ اٴُمَّةٍ اٴُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ
اس آیت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکراور خدا پر ایمان رکھنے کی دعوت کا اعادہ کیا گیا ہے اور جیسا کہ آیت ۱۰۴ کے ذیل میں کہا گیا ہے یہ آیت بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو ایک اجتماعی فریضہ کے طور پر بیان کرتی ہے ۔ جبکہ گذشتہ آیت اس کے ایک خاص مرحلہ کو بیان کیا تھا جو خصو صی اور واجب کفائی ہے اور اس کی تفصیل و تشریح بیان کی جاچکی ہے۔
توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کو بہترین امت کہا گیا ہے جسے معاشرہ کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس کی دلیل یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے ہیں اور خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔اس سے پتا چلتا ہے کہ انسانی معاشرے کی اصلاح ایمان ، دعوت حق اور فتنہ و فساد کا مقابلہ کئے بغیر ممکن نہیں ۔
ضمنی طور پر اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ”کنتم “(تم تھے)فعل ماضی کا سیغہ استعمال کیا گیا ہے یعنی تن گذشتہ زمانہ میں بہترین امت تھے اس لفظ کے بارے میں اگر چہ مفسرین نے بہت سے احتمالات ذکر کئے ہیں ،لیکن اکثریت کا نظریہ یہ ہے کہ فعل ماضی کی تعبیر تاکید کے لئے ہے اور قرآن مجید میں اس قسم کی تعبیرات کثرت سے موجود ہےں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس مقام پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو ایمان خدا پر مقدم کیا گیا ہے جس نے ان دو عظیم خدائی فرائض کی اہمیت و عظمت مترشح ہوتی ہے ۔ علاوہ از این ان دو فرائض کی انجام دہی دائرہٴ ایمان پھیلانے اور تمام انفرادی واجتماعی قوانین کے اجراء کی ضامن ہے اور عملی طور پر اجراء قانون کا ضامن خود قانون پر مقدم ہوتا ہے ۔ تمام باتوں کو چھوڑ کر اگر ان دو فرائض کو انجام نہ دیا جائے تو دلوں میں ایمان کی جڑیں بھی کمزور ہوجاتی ہیں اور اس کے ستوں بھی گر جاتے ہیں ۔ اسی سبب سے انہیں ایمان پر مقدم رکھا گیا ہے ۔
اس بیان سے اس بات کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے کہ مسلمان اس وقت تک ایک ممتاز امت شمار ہوتے رہیں گے جب تک نیکی کی دعوت دینے اور فتنہ و فساد کا مقابلہ کرنے کو فراموش نہیں کریں گے اور جب انہوں نے اس سے صرف ِ نظر کر لیا نہ یہ بہترین امت رہیں گے اور نہ انسانی معاشرے کے لئے فائدہ مند ۔
اس بات کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہئے کہ اس آیت میں تمام مسلمانوں سے خطاب کیا جا رہا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہی انداز و روش ہے ۔کچھ لوگوں نے اس سے مہاجرین یا سابق مسلمان مراد لئے ہیں لیکن اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ۔
وَ لَوْ آمَنَ اٴَہْلُ الْکِتابِ لَکانَ خَیْراً لَہُمْ مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَ اٴَکْثَرُہُمُ الْفاسِقُونَ
بعد ازاں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ مذہب جو اس طرح روشن ہے اور وہ قوانین جو اس قدر با عظمت ہیں ان کے فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔بنا بر این اگر اہل کتاب (یہودی ونصاری) ان باتوں پر ایمان لے آئیں تو ان کا اپنا ہی فائدہ ہے ،لیکن بہت افسوس کا مقام ہے کہ ان کی اقلیت نے جاہلانہ تعصّب پر ٹھوکر مار کر کھلے دل سے اسلام قبول کی ہے جبکہ ان کی اکثریت فرمان خدا وندی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ یہاں تک کہ انہوں نے پیغمبر اکرم کے متعلق اپنی کتب میں موجود بشارتوں کی بھی پرواہ نہیں کی اور وہ اپنے کفر و تعصب پر اس طرح ڈٹے رہے ۔

 


۱۱۱۔ لَنْ یَضُرُّوکُمْ إِلاَّ اٴَذیً وَ إِنْ یُقاتِلُوکُمْ یُوَلُّوکُمُ الْاٴَدْبارَ ثُمَّ لا یُنْصَرُونَ
۱۱۲۔ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّةُ اٴَیْنَ ما ثُقِفُوا إِلاَّ بِحَبْلٍ مِنَ اللَّہِ وَ حَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَ باؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّہِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الْمَسْکَنَةُ ذلِکَ بِاٴَنَّہُمْ کانُوا یَکْفُرُونَ بِآیاتِ اللَّہِ وَ یَقْتُلُونَ الْاٴَنْبِیاء َ بِغَیْرِ حَقٍّ ذلِکَ بِما عَصَوْا وَ کانُوا یَعْتَدُونَ
ترجمہ
۱۱۱۔اور وہ (اہل کتاب خصوصاً یہودی ) تمہیں ہر گز نقصان نہیں پہنچا سکتے سوائے تھوڑی سی آزارو اذیت کے اور اگروہ تم سے جنگ کریں تو تمہیں پیٹھ دکھا کر (بھاگ)جائیں گے ۔ اس کے بعد کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں آئے گا ۔
۱۱۲۔ وہ جہاں کہیں ہوں گے ان پر زلت و رسوائی کی مہر لگی ہوئی ہے مگر یہ کہ وہ خدا سے رابطہ قائم کریں (اور اپنی ناپسندیدہ روش پر تجدید نظر کریں )یالوگوں سے وابستگی کے ذریعہ (ادھر ادھر سے مدد حاصل کرلیں ۔
اور وہ خدا کے غضب میں گھرے ہوئے ہیں اور بیچارگی کی مہر ان پر ثبت ہو چکی ہے۔کیونکہ وہ آیات خدا وندی کا انکار کرتے تھے اور خدا کے پیغمبروں کو نا حق قتل کرتے تھے ۔یہ سب کچھ ان کے گناہوں کی وجہ سے ہے اور وہ (دوسروں کے حقوق پر) تجاوز کرتے ہیں ۔

شان نزول

جب بعض سرداران یہود مثلاً عبداللہ بن سلام اپنے رفقاء کے ہمراہ دین اسلام میں داخل ہو گئے تو یہودیوں کے بعض سرداران کے پاس آئے اور انہیں سرزنش و ملامت کی یہاں تک کہ انہیں دھمکی دی اور کہا کہ تم اپنے آباوٴ اجداد کا دین چھوڑ کی اسلام کیون لے آئے ہو ۔
ا س پر مندرجہ ذیل آیات انہیں اور باقی مسلمانوں کو مژدہ سنانے کے لئے نازل ہوئیں۔

 

اہل کتاب کو کوئی قابل اعتنا ضرر نہیں پہنچا سکیں گے نورانی اور تاریک چہرے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma