اہل کتاب کے اس گروہ کے نیک اعمال کی بہترین جزا ہوگی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
وہ لوگ جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے یہودیوں کی عبر ت ناک داستان

”لَیْسُوا سَواء ً مِنْ اٴَھْلِ الْکِتابِ اٴُمَّةٌ قائِمَةٌ یَتْلُونَ آیاتِ اللَّہِ آناء َ اللَّیْلِ “#۱
گذشتہ آیت میں یہودیوں کے برے افراد کی شدید مذمت کے بعد قرآن کریم اس آیت میں عدالت کے پیش نظر اور ان کے اچھے افراد کے حقوق کے احترام کی وجہ سے اور یہ حقیقت بتانے کے لئے ،کہ ان سب کو ایک نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا ، کہا کہ اہل کتاب تمام کے تما م ایک جیسے نہیں بلکہ تباہ کار افراد کے مقابلے میں ایسے نیک طینت افراد بھی موجود ہیں جو خدا کی اطاعت اور ایمان پر ثابت قدم ہیں وہ ہمیشہ نیم شب کو آیات خدا کی تلاوت کرتے رہتے ہیں اور عظمت پروردگار کے سامنے سر بسجود ہو جاتے ہیں اور خدا و روز جزاء پر ایمان رکھتے ہیں، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کافریضہ ادا کرتے ہیں اور نیک کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہیں ۔ مختصراً یہ کہ وہ صالح اور با ایمان افراد ہیں ۔
اسی طرح بجائے اس کے کہ خدا یہودی نسل کی کلی طور پر مذمت کرے اور ان کی مخالفت کرے یا ان کے خون کو برا کہے ، صرف ان کے برے اعمال کی نشاندہی کرتا ہے اور ان افراد کی تعظیم و تکریم کرتا ہے اور اچھائی سے یاد کرتا ہے جنہوں نے فاس اکثر یت سے جدا ہو کر حق و ایمان کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے اور یہی ناسلا م کی روش ہے کہ کبھی رنگ یا نسل و قبیلہ کو مد نظر نہیں رکھتا بلکہ وہ صرف لوگوں کے عقائد اور ان کے اعمال کو نظر میں رکھتا ہے ۔
ضمناً چند ایک روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آیات صرف عبداللہ بن سلام اور اس کے ساتھیوں کے لئے منحصر نہیں بلکہ ان کے علاوہ نجران کے چالیس عیسائی ، حبشہ کے بائیس افراد اور آٹھ رومی بھی اس آیت کے مصداق ہیں اور اہل کتاب کی وسیع تعبیر اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
”وما یفعلوا من خیر فلن یکفروہ “
یہ آیت در اصل پہلی آیات کی تکمیل کرتی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے اس گروہ کے نیک اعمال کی بہترین جزا ہوگی یعنی گذشتہ عمر میں اگر چہ غلطیوں کے مرتکب رہے ہوں ، جب انہوں نے اپنی روش بدلی اور پرہیزگاروں کی صف میں شامل ہو گئے تو یہ اپنے نیک اعمال کا ثمرہ دیکھ لیں گے اور خدا کی طرف سے ہر گز ناقدری نہیں پائیں گے۔
” واللہ علیم بالمتقین“
با وجود یہ کہ خدا تمام چیزوں کو جاننے والا ہے ، اس جملہ میں خصوصیت سے کہتاہے کہ خدا وند عالم پرہیز گاروں سے آگاہ ہے اور یا یہ تعبیر پرہیزگار لوگوں کی اقلیت غمازی کرتی ہے ۔ خصوصاً پیغمبر کے زمانے کے یہودیوں میں سے تو یہ راستہ اختیار کرنے والے بہت ہی اقلیت میں تھے اور یہ فطری بات ہے کہ اس قسم کے کم تعداد افراد نظر میں نہیں رہتے لیکن پروردگار عالم کے وسیع علم کی تیز نگاہ سے یہ لوگ ہرگز مخفی نہیں رہیں گے اور خدا ان سے آگاہ ہے۔ ان کے نیک اعمال کم ہو ں یا زیادہ ہرگز رائیگاں نہیں ہوں گے۔

 

۱۱۶ ۔إِنَّ الَّذینَ کَفَرُوا لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اٴَمْوالُہُمْ وَ لا اٴَوْلادُہُمْ مِنَ اللَّہِ شَیْئاً وَ اٴُولئِکَ اٴَصْحابُ النَّارِ ہُمْ فیہا خالِدُونَ
۱۱۷ ۔مَثَلُ ما یُنْفِقُونَ فی ہذِہِ الْحَیاةِ الدُّنْیا کَمَثَلِ ریحٍ فیہا صِرٌّ اٴَصابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَہُمْ فَاٴَہْلَکَتْہُ وَ ما ظَلَمَہُمُ اللَّہُ وَ لکِنْ اٴَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ
ترجمہ
۱۱۶۔ جن لوگوں نے کفر اختیار کیاوہ ہر گز اپنے اموال اور اولاد کے ذریعے اللہ کے عذاب و سزا سے نہیں بچ سکتے ۔وہ وہل جہنم ہیں اور ہمیشہ کے لئے اس میں رہیں گے ۔
۱۱۷۔ جو کچھ وہ اس دنیاوی زندگی میں خرچ کرتے ہیں وہ جلانے والی ( گرم ) ہوا کی مانند ہے جو اس قوم کی زراعت پر چل پڑے جس نے اپنے اوپر ظلم کیا (اور نا مناسب وقت پر زراعت کی )پس وہ اسے نیست و نابود کردے ، خدا نے ان پر ظلم نہیں کیا ، کہ انہیوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے ۔

 


#۱۔ آنا ء ، در اصل ” انا “ بر وزن ” وفا“ ) کی جمع ہے اور ”انا “ (بروزن ”فنا“ ) کا معنیٰ ہے اوقات۔
 
وہ لوگ جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے یہودیوں کی عبر ت ناک داستان
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma