سود خوری کی حرمت کے چند مراحل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
سعادت کی راہ میں ایک دوسرے پر سبقت قرآنی آیات کا ایک دوسرے سے ربط

ہم جانتے ہیں کہ قرآن کا یہ طریقہ ہے کہ وہ معاشرے کی ایسی برائیاں جن کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں ان کی بیخ کنی کرنے کے لئے آہستہ آہستہ زمین ہموار کرتا ہے اور لوگوں کو تدریجاً ان کے مفاسد سے آگاہ کرتا ہے اور جب قرآنی احکام قبول کرنے کے لئے آمادگی حاصل ہو جائے قانون تصریحی شکل میں بیان کر دیتا ہے (خصوصاً ایسے مواقع پر جہاں گناہ سے آلودگی کا امکان بہت زیادہ ہو)۔
یہ بھی واضح ہے کہ دنیائے عرب ززمان جاہلیت میں سود خوری میں شدت سے ملوث تھی ، خصوصاً مکہ کا گرد و نواح سود خوروں کا مرکز تھا اور ان کی بہت سی قبیح اجتماعی برائیوں کا سبب یہی برا کاروبار تھا ۔ بنا بر ایں قرآن مجید نے سود خوری ختم کرنے کے لئے حرمت کا حکم چار مراحل میں بیان کیا ہے :
(۱) پہلے پہل سود کے بارے میں سورہٴ روم آیت ۳۹ میں ایک اخلاقی نصیحت پر زور دیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد خدا وندی ہے :
”وَ ما آتَیْتُمْ مِنْ رِباً لِیَرْبُوَا فی اٴَمْوالِ النَّاسِ فَلا یَرْبُوا عِنْدَ اللَّہِ وَ ما آتَیْتُمْ مِنْ زَکاةٍ تُریدُونَ وَجْہَ اللَّہِ فَاٴُولئِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُونَ “
یعنی صرف کوتاہ نظر افراد کی نگاہ میں سود کھانے والوں کی ثروت میں سود لینے سے زیادتی ہوتی ہے لیکن خدا کے ہاں اس میں کوئی زیادتی نہیں ہوتی بلکہ زکوٰة اور راہ خدا میں خرچ کرنا دولت وثروت کی زیادتی کا باعث ہے ۔
(۲) سورہٴ نساء آیہٴ ۱۶۱ میں یہودیوں کی غلط رسوم وعادات پر تنقید کرتے ہوئے ان کی سود خوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :
”و اخذھم الربٰوا و قد نھوا عنہ “
ان کی بری عادت یہ تھی کہ وہ سود کھاتے تھے حلانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا ۔
(۳) زیر بحث آیت میں جیسا کہ اس کی تفسیر کے ذیل میں بتایا جائے گا ، سود کی حرمت کا صریح حکم ذکر ہوا ہے لیکن سود کی صرف ایک قسم کی طرف جو بہت بری قسم ہے ۔ اشارہ ہوا ہے ۔
(۴) آخر میں سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۷۵ سے لے کر ۲۷۹ تک ہر قسم کی سود خوری کی شدت سے ممانعت کا اعلان کیا گیا ہے اور اسے خدا سے جنگ کرنے کے متراف قرار دیا گیا ہے ۔
” یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَاٴْکُلُوا الرِّبَوا اٴَضْعافاً مُضاعَفَةً“
اس آیت میں سود کی قبیح ترین قسم کی حرمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور ” اٴَضْعافاً مُضاعَفَةً “ ( چند در چند ) کی تعبیر موجود ہے ۔ ربائے فاحش سے مرادیہ ہے اصل سرمایہ ہی اضافی سود کے ساتھ ساےھ بڑھتا رہے ۔ یعنی سود پہلے مرحلے میں اصل سرمایہ میں جمع ہو جائے اور آئندہ اصل سرمایہ میں سود جمع ہونے پر جو سرمایہ بنا ہے اس پر سود لگے اور اسی ترتیب سے ہرمرتبہ کا سود اضافی سرمایہ بن کر گزشتہ سرمایہ میں جمع ہوتا جائے اور سرمایہ کی نئی رقم تشکیل دیتا جائے ۔ اس طرح قلیل مدت میں ایک دوسرے پر سود کی زیادتی کی وجہ سے مقروض کے قرضہ کا مجموعہ اصل قرضہ سے کئی گنا زیادہ ہو جائے اور اس کی زندگی مکمل طور پر دیوالیہ ہو جائے ۔ جیسا کہ روایات و تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ معمول تھا کہ اگر مقروض قرض کی مدت ختم ہونے پر قرض نہیں ادا کر سکتا تھا تو قرض خواہ سے تقاضا کرتا کہ وہ سود اورا صل قرض کا مجموعہ نئے سرمائے کی شکل میں اسے بطور قرض دیدے اور اس کا سود لے ۔ ہمارے دور میں بھی اس قسم کی ظالمانہ سود خوری کچرت سے رائج ہے ۔
”ً وَ اتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ “۔
آیت کے آخر میں ارشاد ربالعزت ہوتا ہے : اگر فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہتے ہو تو تقویٰ اپناوٴ اور اس گناہ سے بچو۔
” وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتی اٴُعِدَّتْ لِلْکافِرینَ “۔
یہ آیت ازسرنو تقویٰ کی تاکید کرتی ہے اور اس آگ سے جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ڈراتی ہے ۔لفط ”کافرین“ کے ساتھ تعبیر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصولی طور پر سود خوری ایمان کے ساتھ سازگار نہیں ہے اور سود خوروں کے لئے بھی اس آگ کا ایک حصہ ہے جو کفار کی منتظر ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کی آگ بنیادی طور پر کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ باقی رہے گناہگار اور معصیت کا تو ان کے لئے اس اتنا ہی حصہ ہے جتنا وہ کفار سے شباہت اور ہم آہنگی رکھتے ہیں ۔
” وَ اٴَطیعُوا اللَّہَ وَ الرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ “۔
گذشتہ آیت کی دھمکی اس تشویق اور ترغیب کے ساتھ تکمیل پاتی ہے جو اس آیت میں مطیع اور فرما نبرداروں کے لئے ہے کہ خدا اور رسول کی اطاعت کرو اور سود خوری چھوڑ دو تا کہ تم پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہو۔

 ۱۳۳۔ وَ سارِعُوا إِلی مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُہَا السَّماواتُ وَ الْاٴَرْضُ اٴُعِدَّتْ لِلْمُتَّقینَ ۔
۱۳۴۔ الَّذینَ یُنْفِقُونَ فِی السَّرَّاء ِ وَ الضَّرَّاء ِ وَ الْکاظِمینَ الْغَیْظَ وَ الْعافینَ عَنِ النَّاسِ وَ اللَّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنینَ
۱۳۵۔ وَ الَّذینَ إِذا فَعَلُوا فاحِشَةً اٴَوْ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللَّہَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِہِمْ وَ مَنْ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللَّہُ وَ لَمْ یُصِرُّوا عَلی ما فَعَلُوا وَ ہُمْ یَعْلَمُون۔
۱۳۶۔اٴُولئِکَ جَزاؤُہُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّہِمْ وَ جَنَّاتٌ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہارُ خالِدینَ فیہا وَ نِعْمَ اٴَجْرُ الْعامِلینَ ۔
ترجمہ
۱۳۳ ۔ ایک دوسر پر سبقت حاصل کرو اپنے پروردگار کی مغفرت اور جنت کے لئے جس کی وسعت تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔
۱۳۴۔ وہی لوگ جو تنگی اور کشادگی میں خرچ کرتے ہیں اور اپنا غصہ پی جاتے ہیں اور لوگوں کی خطاوٴں سے در گذر کرتے ہیں اور خدا نیکو کا ر لوگوں کو دوست رکھتا ہے ۔
۱۳۵۔ اور وہ لوگ کہ جب وہ کسی عمل بد کا ارتکاب کریں یا اپنے اوپر ظلم کریں تو خدا کو یاد کرتے ہیں اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں اور خدا کے سوا گناہوں کو بخشنے والا کون ہے اور وہ گناہ پر اصرار نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں ۔
۱۳۶ ۔ ان کی جزا ء پروردگار کی بخشش اور وہ باغات بہشت ہیں ج کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ وہ ہمیشہ کے لئے ان میں رہیں گے اور یہ عمل کرنے والوں کے لئے کتنا اچھا معاوضہ ہے ۔
تفسیر

سعادت کی راہ میں ایک دوسرے پر سبقت قرآنی آیات کا ایک دوسرے سے ربط
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma