پرہیزگاروں کی نشانیاں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
گذشتہ لوگوں کی تاریخ کا مطالعہجنت اور دوزخ کہاں ہیں

”الَّذینَ یُنْفِقُونَ فِی السَّرَّاء ِ وَ الضَّرَّاء ِ ۔۔۔۔۔۔“
گذشتہ آیت میں پرہیزگاروں کو دائمی جنت کی نوید سنائی گئی تھی ، اس لئے اس آیت میں ان کا تعارف کرایا جا رہا ہے اور ان کی پانچ اعلیٰ امتیازی خصوصیات بیان کی گئیں ہیں:
۱۔ وہ ہر حالت میں خرچ کرتے ہیں چاہے وہ آرام و فراخ د ستی میں ہوں یا پریشانی اور محرومیت میں مبتلا ہوں ۔ وہ اس عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ دوسرون کی مدد کرنے اور نیکی کا جذبہ ان کی روح کی گہرائیوں میں اترا ہوا ہے ۔ اسی بناء پر وہ ہر حالت میں اس کے لئے عملی طور پر تیار ہوتے ہیں کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ آسودگی کی حالت میں خرچ کرنا سخاوت جیسی بلند صفت کی نشاندہی نہیں کرتا البتہ وہ لوگ جو ہر حالت میں ضرورت مندوں کونوازتے ہیں ، وہ اس کا بین ثبوت مہیا کرتے ہیں کہ ان میں یہ صفت راسخ ہے ۔ ہاں ! اس مقام پر ذہنوں میں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ تنگدستی کی حالت میں انسان کیونکر خرچ کر سکتا ہے ؟ لیکن اس سوال کو جواب واضح ہے کہ تنگدست افراد بھی اپنی قدرت کے مطابق دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں ۔ثانیاً یہ کہ خرچ و انفاق صرف مال و ثروت میں منحصر نہیں ہیں بلکہ خدا کے ہر عطیہ سے اس کا تعلق ہے ۔ چاہے مال و ثروت ہو ، نعمت علم و دانش ہو یا دیگر نعمات الٰہی ۔ اس عمل سے خداچاہتا ہے کہ صاحبان دولت کے علاوہ قربانی و فداکاری کی روح غریبوں کے دلوں میں بھی پروان چڑھ جائے تا کہ وہ بسیار اخلاقی برائیوں سے دور ہوں جو بہت زیادہ ہیں اور جن تمام کا سر چشمہ بخل ہے ۔ اس مقام پر ان لوگوں کا جواب موجود ہے جو راہ خدا میں قلیل امداد کو کم سمجھتے ہیں ۔ ان کے اس خیال کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر ایک امداد پر علیحدہعلیحدہ نظر رکھتے ہیں ورنہ یہی تھوڑی تھوڑی امداد یں اگر جمع کی جائیں مثال کے طور پر ایک ملک کے تمام رہنے والے امیر و غریب تھوڑے تھوڑے پیسے بندگان خدا کے لئے جمع کریں تو وہ بڑے سے بڑا کام انجام دے سکتے ہیں ۔ علاوہ از ایں انفاق کا اخلاقی اور روحانی اثر زیادہ خرچ کرنے سے نہیں ہے بلکہ اس کے تمام اثرات انفاق ترنے والے کی نیت پر مرتب ہوتے ہیں۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہاں پرہیزگاروں کی پہلی عمدہ صفت انفاق (راہ خدا میں خرچ کرنا )ذکر ہوئی ہے کیونکہ یہ وآیات سود خوروں اور سامراجیوں کے مد مقابل صفات کو بیان کر رہی ہےں کہ جن کا ذکر گذشتہ آیات میں ہو چکا ہے ۔ علاوہ ازایںخوشی اور تنگدستی کی حالت میں مال و دولت کی قربانی تقویٰ کی واضح ترین علامت ہے ۔
۲۔ والکاظمین الغیظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں۔
”کظم “کے لگعی معنیٰ پانیبھری مشک کے دھانے کو بابدھنے کے ہیں اور منایہ کے طور پر ان لوگوں کی صفت بیان کی جاتی ہے کہ جو آتش غیظ و غضب سے بھرے ہوئے ہوں لیکن اسے استعمال نہ کریں ۔ لفظ غیظ کا معنی شدت غضب ہے جو ایک روحانی ہیجان ہے جو طبیعت کے خلاف چیزوں کو دیکھ کر انسان پر طاری ہو جاتا ہے اور انسان کو آپے سے باہر کر دیتا ہے غصہ کی حالت خطرناک ترین حالت ہوتی ہے اور اگر اسے روکا نہ جائے تو ایک دیوانگی کا عالم ہوتا ہے اور اعصابی نظام کنٹرول سے باہر ہوجاتا ہے ۔ جس سے معاشرہ میں بہت سے جرائم نمودار ہوتے ہیں ۔اس لئے درج بالا آیت میں پرہیزگاروں کی دوسری صفت غصہ کو پی جانا اطاہر کی گئی ہے ۔ حضرت وسول خدا فرماتے ہیں :
” من کظم غیظاً و ھو قادر علی انفاذہ ملاہ اللہ امنا و ایماناً “
جو شخص اپنے غصہ کو پی جائے جبکہ اسے استعمال کرنے پر قادر ہو تو خدا اس کے دل کو امن و ایمان کی روشنی سے منور کرتا ہے ۔
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ غصہ پی جانا انسان کی معنوی اور روحانی ترقی اور ایمان کی پختگی کے لئے بہت موٴثر ہے ۔
۳۔ والعافین عن الناس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں ۔
غصہ کو پی جانا ( اپنے مقام پر ) بڑی بڑی اچھی خوبی ہے لیکن یہ انسان کے دل کو بغض و کینہ سے پاک نہیں کرتا لہٰذا بغض و کینہ کی برائی ختم کرنے کے لئے ان دونوں ( غصہ کو پی جانا اور در گذر کرنا ) کو کیجا کر دیا گیا ہے ۔ البتہ ایسے افراد سے در گذر کرنا مراد ہے کہ جو اس کے اہل ہوں ۔
۴۔ واللہ یحب المحسنین۔۔۔۔۔
اور وہ نیکی کرنے والے ( لوگ ہونے کی وجہ سے ) اللہ کو محبوب ہیں ۔
اس حصہ میں عفو و بخشش بلند تر مرحلہ کی طرف اشارہ کی گیا ہے اور زنجیر کی کڑیوں کی طرح ترقی وا تکامل کے مراتب کی تصویر کشی کی گئی ہے اور وہ اس طرح کہ انسان نہ صرف اپنا غصہ پی جائے اور عفو وبخشش سے کینہ کے داغ دل سے دھو ڈالے بلکہ برائی کے مقابلہ میں احسان اور نیکی کرکے (جہاں مناسب ہو ) مد مقابل کے دل سے بھی دشمنی کی بیخ کنی کر دے اور اس کے دل میں نرمی پیدا کر دے تاکہ تا کہ پھر کبھی اس قسم کا حادثہ سر نہ اٹھائے ۔
خلاصہ یہ کہ پہلے غصے کے مقابلہ میں اپنے اوپر قابو پانے کا حکم ہے اس کے بعد اپنے دل کو پاک و صاف کرنے کا فرمان ہے اور آخر میں مد مقابل کے دل کو پاک کرنے کا ارشاد ہے ۔
مندرجہ بالا آیات کے ذیل میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے جو شیعہ اور سنی کتب میں موجود ہے وہ یہ کہ ایک دفعہ حضرت امام علی بن حسین زین العابدین (ع) کی ایک کنیز نے فوراً کہا : خدا قرآن میں فرماتا ہے ۔
” وَ الْکاظِمینَ الْغَیْظَ “ امام نے فرمایا: میں نے اپنا غصہ پی لیا اور اس نے عرض کیا :” وَ الْعافینَ عَنِ النَّاسِ “ امام نے فرمایا : میں نے تجھے معاف کر دیا خدا تجھے معاف کرے ۔ اس نے پھر کہا: ”وَ اللَّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنینَ “ امام نے فرمایا : میں نے تجھے راہ خدا میں آزاد کر دیا ۔ یہ حدیث اس بات پر واضح شاہد ہے کہ مذکورہ تین مراحل میں سے ہر ایک دوسرے سے بلند تر ہے ۔
۵۔ وَ الَّذینَ إِذا فَعَلُوا فاحِشَةً ۔۔۔۔۔
وہ گناہوں پراصرار نہیں کرتے۔
”لفظ فاحشہ “ فحش یا فحشاء سے ہے جس کا معنی ہے ہر وہ عمل جو بہت ہی برا ہو اور یہ مفہوم عفت و پاک دامنی کے منافی اعمال میں منحصر نہیں ہے کیونکہ اصل میں یہ حد سے تجاوز کے معنیٰ میں ہے جس میں ہر طرح کا گناہ شامل ہے۔
درج بالا آیت میں پرہیزگاروں کی ایک اور صفت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ یہ لوگ گذشتہ مثبت صفات سے متصف ہونے کے علاوہ اگرکسی گناہ کے مرتکب ہو جائیں تو فوراً یاد خدا میں پڑجاتے ہیں اور توبہ کرکے پھر کبھی اس گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب تک یاد خدا میں مشغول ہے وہ گناہ کا مرتکب نہیںہوتا اور وہ گناہ کا اس وقت مرتکب ہو جاتا ہے جب کلی طور پر اس کا دل یاد خدا سے خالی ہو اوروہ محو غفلت ہو ۔ لیکن پرہیز گار افراد میں یہ غفلت زیادہ عرصہ نہیں رہتی بلکہ وہ بہت جلدی یاد خدا میں مصروف ہو جاتے ہیں اور گذشتہ کمی کی تلافی کر لیتے ہیں اور اس وقت وہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور صرف اسی سے گناہوں کی بخشش طلب کرنا چاہیے۔
” ومن یغفر الذنوب الا اللہ“
کون ہے خدا کے علاوہ جو گناہوں کو بخشتا ہے۔
اس بات کی طرف بھی توجہ رہے کہ آیت میں فاحشہ کے علاوہ اپنے اوپر ظلم کرنے کا بھی ذکر ہوا ہے ( او ظلموا انفسھم ) ممکن ہے ان دونوں میں فرق یہ ہو کہ فاحشہ گناہان کبیرہ اور ظلم سے گناہان صغیرہ مراد ہوں ۔ آیت کے آخری حصہ میں تاکیداً کہا گیا ہے ( ُ وَ لَمْ یُصِرُّوا عَلی ما فَعَلُوا وَ ہُمْ یَعْلَمُون۔) اور وہ علم و آگاہی کی صورت میں گناہ پر اصرار نہیں کرتے ۔ اس آیت کے ذیل میں حضرت امام محمد باقر (ع) سے منقول ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
”الاصرار ان یذنب الذنب فلا یستغفر اللہ ولا یحدث نفسہ بتوبةفذٰلک الاصرار “
گناہ پر اصرار کرنا یہ ہے کہ انسان گناہ کرے اور اس کے بعد استغفار نہ کرے اور توبہ کی فکر میں نہ رہے یہ ہے گناہ پر اصرار۔ 1#
کتاب انمالی صدوق میں امام جعفر صادق (ع) سے ایک پر مونی حدیث منقول ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ جب درج بالا آیت نازل ہوئی اور توبہ کرنے والوں کو خدا کی طرف سے بخشش کی خوش خبری دی گئی تو ابلیس بہت ہی پریشان ہو گیا اس نے بلند آواز سے اپنے تمام یار و انصار کو بلا کر ایک اجلاس منعقد کرنے کی دعوت دی ۔ انہوں نے اس دعوت کی وجہ پوچھی تو اس نے اس آیت کے نزول کی بناء پر اظہار پریشانی کیا تو اس کے ایک ہمنوا نے کہا کہ میں انسانوں کو اس گناہ کی دعوت دے دے کر اس آیت کو بے اثر کر دوں گا ۔
ابلیس نے اس کی تجویز کو قبول نہ کیا ایک دوسرے نے اس قسم کی پیشکش کی کہ وہ بھی منظور نہ ہوئی کہ اس کے دوران ایک کہنہ مشق شیطان کہ جس کا نام وسواس خناس تھا ، کہنے لگا کہ میں اس مشکل کو حل کرتاہوں ۔ ابلیس نے پوچھا کیسے ؟ وہ کہنے لگا اولاد آدم کو وعدوں اور امیدوں کے ساتھ گناہ میں آلودہ کروں گا اور جب وہ گناہ کے مرتکب ہوجائیں گے تو ان کے دلوں سے یاد خدا کو دور کروں گا ۔ ابلیس نے کہا : یہی راستہ درست ہے اور یہ ذمہ داری رہتی دنای تک اس کے سپرد کردی ۔
واضح ہے کہ سہل انگاری اور شیطانی وسوسوں کا نتیجہ فراموش کاری ہے اور صرف وہ لوگ اس میں گرفتار ہوتے ہیں جو اس کے سامنے سر جھکا دیں اور اصطلاح کے مطابق وسواس خناس کے ساتھ قریبی تعلق استوار کر لیں ۔ لیکن بیدار مغز اور کامل ایمان کے حامل لوگ اس بات پر کڑی نظر رکھتے ہیں کہ جب کبھی ان سے کوئی گناہ سر زد ہو جائے تو اولین ہر موقع پر اس کے آثار کو توبہ و استغفار کے ذریعے دھو ڈالتے ہیں اور اپنے دل کے دریچے شیطان اور اس کے لشکر کے لئے بندکر دیتے ہیں اس طرح وہ ان میں داخل نہیں ہو پاتے ۔
”اٴُولئِکَ جَزاؤُہُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّہِمْ وَ جَنَّاتٌ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہارُ خالِدینَ فیہا “
اس آیت میں ان پرہیزگاروںکی جزا اور اجر بیان کیا گیا ہے ( کہ جن کی صفات گذشتہ آیت میں بیان ہو چکی ہیں )۔
وہ پروردگار کی بخشش اور بہشت بریں ہے ، جسکے درختوںکے نیچے نہریں جاری ہیں ّ اور ایک لحظہ کے لئے ان سے پانی منقطع نہیں ہوتا ) وہ جنت کہ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ در حقیقت اس مقام پر پہلے تو معنوی اور روحانی نعمات مغفرت ، قلب و روح کو پاکیزہ کرنے اور روحانی ترقی کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
اس کے بعد مادی نعمات کی طرف اشارہ کی گیا ہے اور آخر میں کہا گیا ہے کہ ”و نعم اجر العالمین “ یہ کیسی ہی اچھی جزا اور اجر ہے نیک عمل کرنے والوں کے لئے جو کہ مرد میدان ہیں نہ کہ سست و بیکار افراد جو ہمیشہ اپنے وعدوں اور ذمہ داریوں میںلا پرواہی برتتے ہیں۔

  ۱۳۷۔قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسیرُوا فِی الْاٴَرْضِ فَانْظُروا کَیْفَ کانَ عاقِبَةُ الْمُکَذِّبینَ۔
۱۳۸۔ ہذا بَیانٌ لِلنَّاسِ وَ ہُدیً وَ مَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقینَ ۔
ترجمہ
۱۳۷۔تم سے پہلے کچھ سنتیں موجود تھیں ( اور ہر قوم کی سر نوشت ان کے اعمال و صفات کے مطابق تھی اور تمہارا حال بھی انکا سا ہے) زمین میں چل پھر کر دیکھو ( کہ آیات خدا کی ) تکذیب کرنے والوں کا انجام کیاہوا ۔
۱۳۸۔ یہ بیان ہے لوگوں کے لئے اور پرہیز گاروں کے لئے ہدایت و نصیحت ہے ۔


1#۔ تفسیر عیاشی زیر نظر آیت کے ضمن میں۔
گذشتہ لوگوں کی تاریخ کا مطالعہجنت اور دوزخ کہاں ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma