شخصیت پرستی کی ممانعت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
گذشتہ زمانوں کے مجاہدینجنگ احد میں شکست کے اسباب کا مختصر جائزہ

شخصیت پرستی کی ممانعت

وَ ما مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اٴَ فَإِنْ ماتَ اٴَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلی اٴَعْقابِکُمْ :
جنگ احد کے واقعات سے استفادہ کرتے ہوئے یہ آیت مسلمانوں پر ایک اور حقیقت واضح کرتی ہے وہ یہ کہ اسلام شخصیت پرستی کا دین نہیں ہے اور فرض کر لیں کہ اگر پیغمبر اس میدان جنگ میں جام شہادت نوش فرماتے تب بھی مسلمانوں کا فرض تھا کہ وہ لڑائی کو جاری رکھتے کیونکہ پیغمبر کی ( طبعی ) وفات یا شہادت سے اسلام کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ یہ اب تک باقی رہنے والا دین حق ہے ۔
شخصیت پرستی ایک خطرناک مسئلہ ہے جو مقصد لڑائی کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ۔ کسی خاص شخص چاہے وہ پیغمبر خاتم ہی کیوں نہ ہوںسے بے مقصد کی وابستگی کا معنی یہ ہے کہ جب وہ شخص اس دنیا سے چلا جائے تو پیشرفت کی کوشش اوراس کی تلاش ختم ہو سکتی ہے اور یہ اجتماعی رشد و ترقی کے نا ہونے کی ایک واضح نشانی ہے ۔ شخصیت پرستی سے مقابلہ آپ کی حقانیت اور عظمت کی ایک اور نشانی ہے کیونکہ اگر آپ نے اپنی ذات کے لئے قیام کیا ہوتا تو آپ اس فکر کو لوگوں میں فروغ دیتے کہ تمام چیزیں ان کے وجود سے وابستہ ہیں اور اگر وہ درمیان سے چلے جائیں تو تمام چیزیں ختم ہو کر رہ جائیں گی ۔ لیکن آپ جیسے صحیح اور سچے رہبر کبھی اس قسم کے افکار لوگوں میں پنپنے نہیں دیتے بلکہ سختی کے ساتھ ان کی بیخ کنی کرتے ہیں اور انہیں اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ ہمارا مقصد ہماری ذات سے بلند ہے اور وہ ہمارے چلے جانے سے نابود نہیں ہوگا ۔ لہٰذا قرآن صراحت کے ساتھ اوپر کی آیت میں اعلان کرتا ہے کہ محمد صرف خدا کے بھیجے ہوئے (رسول ) ہیں ان سے پہلے بھی بھیجے ہوئے افراد تھے جو دنیا سے چل بسے کیا اگر وہ دنیا سے وفات پا جائیں یا قتل ہوں تو تم الٹے پاوٴں پھر جاوٴ گے اور بت پرستی کا راستہ اختیار کروگے ۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ آیت میں رجعت قہقہری ( پیچھے کی طرف پلٹنے ) کے لئے ” انْقَلَبْتُمْ عَلی اٴَعْقابِکُمْ“ کے الفاظ لائے گئے ہیں کیونکہ اعقاب جو کہ عقب (بر قزن خشن ) کی جمع ہے اس کا معنی ایڑی ہے اور یہ رجعت قہقہری کی واضح تصویر کشی ہے ۔
وَ مَنْ یَنْقَلِبْ عَلی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَضُرَّ اللَّہَ شَیْئاً
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ پیچھے کی طرف پھر جائیں اور کفر و بت پرستی کے دور کی طرف لوٹ جائیں وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہیں نہ کہ خدا کو ۔ کیونکہ اس عمل سے نہ صرف ان کی نیک بختی جاتی رہتی ہے بلکہ جو کچھ اب تک کما چکے ہیں وہ بھی تیزی کے ساتھاپنے ہاتھ سے دے بیٹھیں گے۔
وَ سَیَجْزِی اللَّہُ الشَّاکِرینَ
آیت کے آخر میں اس قلیل جماعت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو تمام مشکلات اور پیغمبر اکرم کی خبر شہادت عام ہونے کے باوجود جہاد سے دست بردار نہیں ہوئی۔ اس میں ان کی جد و جہد کو سراہا گیا اور ان کا تعارف شاکرین اور نعمات الہٰی سے بہرہ ور ہونے والے اشخاص سے کرایا گیا ہے اور ارشاد ہوتا ہے ؛خدا ان شکر گزاروں کو اچھی جزا دے گا ۔ اس آیت نے تمام مسلمانوں اور ہر زمانہ کے لوگوں کے لئے شخصیت پرستی کا مقابلہ کرنے کا ایک نصیحت آموز درس دیا ہے کہ با مقصد مسائل کبھی ایک یا کئی محدود اشخاص سے وابستہ نہیں ہوتے بلکہ وہ کئی ایک اصول اور ابدی پروگرام کے گرد گھومتے ہیں اور افراد کے بدلنے یا ان کے فوت ہو جانے سے انہیں معطل نہیں ہونا چاہیے ، چاہے وہ خدا کے عظیم پیغمبر ہی کیوں نہ ہوں اور اصولی طور پر ایک مذہب اور پروگرام کی بقا کا راز اسی میں مضمر ہے ۔ اس لئے کہ جو پرو گرام اور مشن کسی شخص واحد سے مربوط ہوتے ہیں وہ تا دیر نہیں رہتے بلکہ بہت جلد ختم ہو جاتے ہیں ۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اکثر اسلامی اداروں کے پروگرام ابھی تک اشخاص سے قائم ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے ۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ درج بالاآیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف اداروں کو داغ بیل اس طرح ڈالیں کہ وہ لائق و فائق افراد سے پوری طرح فائدہ اٹھائیں تا ہم وہ کسی شخص سے وابستہ نہ رہیں۔
وَ ما کانَ لِنَفْسٍ اٴَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّہِ کِتاباً مُؤَجَّلاً
جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ میدان احد میں پیغمبر کی شہادت کی بے بنیاد خبر بہت سے مسلمانوں کو وحشت و اضطراب میں ڈالا یہاںتک کہ وہ میدان چھوڑ گئے بلکہ بعض تو اسلام ہی سے ولیحدہ ہونا چاہتے تھے اس لئے از سر نو اس آیت میں اس گروہ کے لئے تنبیہ اور بیداری کے لئے ارشاد ہوا ہے کہ موت خدا کے ہاتھوں میں ہے اور اس کے ہاں ہر شخص کے لئے مقرر شدہ وقت ہے جس سے وہ بھاگ نہیں سکتا ۔ بنا بریں اگر پیغمبر اس میدان میں جام شہادت نوش فرما لیتے تو سوائے ایک سنت الٰہی انجام پانے کے اور کوئی بات نہیں تھی لیکن ان حالات میں مسلمانوں کو وحشت و اضطراب میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ لڑائی جاری نہ رکھیں اور دوسری طرف میدان جنگ سے فرار موت سے خلاصی نہیں دلا سکتا جیسا کہ میدان جنگ میں شریک ہونا بھی انسان کی موت کو پہلے نہیں لا سکتا ۔ اس لئے جان کی حفاظت کے لئے میدان جنگ سے فرار چہ معنی دارد ؟ اجل اور اس طرح اجل ”حتمی “ اور ”معلق “ کے درمیان فرق پر سورہٴ انعام میں ہم سیر حاصل تبصرہ کریں گے ۔
وَ مَنْ یُرِدْ ثَوابَ الدُّنْیا نُؤْتِہِ مِنْہا وَ مَنْ یُرِدْ ثَوابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِہِ مِنْہا
آیت کے آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ انسان کی کوشش کبھی ضایع نہیں ہوتی ۔ اگر کسی کا مقصد صرف مادی فوائد تک محدود ہو اور مقصد جنگ احد کے بعض سپاہیوں کی طرح صرف مال غنیمت جمع کر نا ہو تو بالآخر کچھ نہ کچھ اس سے بہرہ ور ہوگا لیکن اگر اس کا مقصد عظیم ہو اور حیات جاودانی اور انسانی فضائل کی راہ میں کوشش کی جائے تو پھر بھی اپنے مقصد تک پہنچ جائے گا ۔ بنا بر یں جب دنیا یا آخرت کا حصول دونوں ہی کوشش کے محتاج ہیں تو پھر انسان اپنے وجود کے سرمایہ کو بلند ترین اور پائیدار راستہ میں صرف نہ کرے ۔
اس کے بعد دوبارہ تاکیداً کہا گیا کہ ہم بہت جلد شکر گزاروں کو جزا دیں گے ( و سنجزی الشاکرین) قابل توجہ امر یہ ہے کہ گذشتہ آیت میں یہی جملہ فعل غائب کی شکل میں ذکر ہوا تھا اور یہاں فعل متکلم کی صورت میں ہے جس سے وعدہٴ خدا وندی کی انتہائی تاکید ہوتی ہے اور سادہ الفاظ میں خدا کہتا ہے کہ ان کی جزاکامیں ضامن ہوں ۔ تفسیر مجمع البیان میں امام باقر (ع)سے اس آیت کے ذیل میں منقول ہے :
حضرت علی (ع) کو احد کے دن اکسٹھ زخم لگے تھے اور پیغمبر نے ” ام عطیہ “ کو حکم دیا کہ وہ دونوں حضرت علی (ع) کے زخموں کا علاج کریں تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ وہ حالت پریشانی میں آنحضرت کی خدمت میں عرض کرنے لگیں کہ حضرت علی (ع) کے بدن کی کیفیت یہ ہے کہ ہم جب ایک زخم باندھتی ہیں تو دوسرا کھل جاتا ہے اور ان کے بدن کے زخم اس قدر زیادہ اور خطرناک ہیں کہ ہم ان کی زندگی کے بارے میں پریشان ہیں تو حضرت رسول خدا اور کچھ دیگر مسلمان حضرت علی (ع) کی عیادت کے لئے ان کے گھر آئے جبکہ ان کے بدن پر زخم ہی زخم تھے تو پیغمبر اکرم اپنے دست مبارک کو ان کے جسم سے مس کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو شخص راہ خدا میں اس حالت کو دیکھ لے اہ اپنی ذمہ داری کے آخری درجہ کو پہنچ چکا ہے اور جن جن زخموں پر آپ ہاتھ رکھتے تھے وہ فورا ً مل جاتے تھے تو اس وقت حضرت علی (ع) نے فرمایا کہ الحمد للہ کہ ان حالات میں میدان جنگ سے نہیں بھاگا اور دشمن کو پشت نہیں دکھائی ۔ خدا نے ان کی کوشش کی قدر دانی کی اور قرآن کی دو آیات میں آپ (ع) کی اور مجاہدین احد میں سے دیگر قابل تقلید افراد کی فدا کاریوں کی طرف اشارہ کیا ”و سنجزی اللہ الشاکرین“اور دوسرے مقام پر ارشاد ہوا( و سنجزی الشاکرینن)۔۔

۱۴۶۔وَ کَاٴَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثیرٌ فَما وَہَنُوا لِما اٴَصابَہُمْ فی سَبیلِ اللَّہِ وَ ما ضَعُفُوا وَ مَا اسْتَکانُوا وَ اللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرینَ ۔
۱۴۷۔وَ ما کانَ قَوْلَہُمْ إِلاَّ اٴَنْ قالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا وَ إِسْرافَنا فی اٴَمْرِنا وَ ثَبِّتْ اٴَقْدامَنا وَ انْصُرْنا عَلَی الْقَوْمِ الْکافِرینَ ۔
۱۴۸۔فَآتاہُمُ اللَّہُ ثَوابَ الدُّنْیا وَ حُسْنَ ثَوابِ الْآخِرَةِ وَ اللَّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنینَ ۔
ترجمہ
۱۴۶۔ اور کتنے پیغمبر تھے جن کی معیت میں بہت سے خدا والوں نے جنگ کی تو انہوں نے راہ خدا میں پہنچنے والی مصیبت کے مقابلہ میں سستی نہیں کی اور نہ وہ کمزور وناتواں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے سر جھکایا اور خدا صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔
۱۴۷۔ ان کی گفتگو صرف یہ تھی کہ پروردگار ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہمارے کاموں میں زیادتی سے صرف نظر فرما ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہمیں کفار پر کامیابی عطا کر۔
۱۴۸۔ لہٰذا خدا نے دنیا اور آخرت کا حسن ثواب انہیں دیا اور خدا نیک کار لوگوں کو پسند کرتا ہے ۔

 


۱ #۔ بعض تواریخ میں ہے کہ چند آدمیوں نے مل کر آنحضرت پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجہ میں آپ کو یہ زخم آئے ۔

 

گذشتہ زمانوں کے مجاہدینجنگ احد میں شکست کے اسباب کا مختصر جائزہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma