ایک سوال اور اس کا جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
سورة نساءسب اہل کتاب ایک جیسے نہیں

ایک سوال اور اس کا جواب

کبھی کبھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں بہت سے جملے --لفظ ” لعل “ سے کیوں شروع ہوتے ہیں مثلا ً ” لعلکم تفلحون “ شاید تم کامیاب ہو جاوٴ ” لعلکم تتقون “ شاید تم پرہیز گار بن جاوٴ ۔ ” لعلکم ترحمون “ شاید رحمت خدا تمہارے شامل حال ہو ۔
جبکہ لعل تردید اور شک کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ خدا تعالی تو ہر چیز کو جانتاہے ۔ اس لئے اس کی ذات اقدس کے لئے مناسب نہیں ۔ یہ جملہ بعض دشمنان اسلام نے بھی دستاویز بنا رکھا ہے ۔ وہ اس کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ اسلام کسی سے قطعی اور یقینی نجات کا وعدہ نہیں کرتا ، اس کے وعدے میں شکو شبہ پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اس کے اکثر وعدے ” لعل “ سے شروع ہوتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ تعبیر قرآن مجید کی عظمت ، حقیقت بینی اور اظہار حق کی ایک واضح دلیل ہے کیونکہ قرآن یہ لفظ ایسی جگہ استعمال کرتا ہے جہاں نتیجہ حاصل کرنے کے لئے کچھ شرائط کی پانبدی ضروری ہو اور وہ لفظ ”لعل “ کے ذریعے ان شرطوں کی طرف اجمالی اشارہ کرتاہے مثلا آیات قرآن سننے کے وقت خاموش رہنا اور آیت کے مضمون کو کان لگا کر سننا انسان کے لئے رحمت خدا وندی کا مستحق ہونے کے لئے کافی نہیں بلکہ اس کے علاوہ آیتوں کا سمجھنا اور ان پر کابند ہونا لازمی ہے اسی لئے قرآن فرماتا ہے :
و ذا قریٴ القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا لعلکم ترحمون ۔ (اعراف: ۲۰۴)
جس قرآن پڑھا جا رہا ہو تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموشی اختیار کرو ، ہو سکتا ہے کہ خدا کی رحمت تمہارے شامل حال ہو جائے ۔
اگر قرآن یہ کہتا ہے کہ یقینا تم رحمت الہی کے مستحق ہو جاوٴ گے تو یہ حقیقت سے دور ہوتا ۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے تحریر کر چکے ہیں کہ اس امر کی کچھ اور بھی شرطیں ہیں ۔ لیکن جب وہ -- ” لعلکم “ فرماتا ہے تو باقی شرطوں کا حصہ محفوظ رہ جاتا ہے اس حقیقت کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے اعتراض کی گنجائش پیدا ہو گئی ۔ یہاں تک کہ بعض ہمارے علماء بھی اس بات کے معتقد ہو گئے کہ لفظ ” لعل “ ایسے موقعوں پر ” شاید “ کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ۔ حالانکہ یہ قرآن کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے جس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ ( غور کیجئے گا ) ۔
زیر بحث آیت میں بھی باوجود یہ کہ اسلام کے اعلیٰ ترین احکام میں سے چار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پھر بھی اس بنا پر کہ کہیں دوسرے اسلامی اصلاحی منصبوں سے غفلت نہ برتی جائے ، لفظ ” لعل “ استعمال کیا گیا ہے ۔
بہر حال اگر آج کے مسلمان مندرجہ بالا آیت کو ایک شعار اسلامی کے حوالے سے اپنی زندگی کے پروگراموں میں شامل کر لیں تو وہ سی مشکلیں دور ہو جائیں گی جن کا انہیں اس وقت سامنا ہے ۔ آج اسلام اور مسلمانوں پر جو حملے کئے جا رہے ہیں وہ سب ان چاروں یا ان میں سے بعض احکام سے غفلت برتنے یا انہیں بھلا دینے کی وجہ سے ہیں اور یہ ایک انتہائی تکلیف دے صورت حال ہے ۔ اگر مسلمانوںمیں استقامت و استقلال کی روح زندہ و بیدار ہو جائے ، تو وہ دشمنوں کے مقابلے میں بڑھ چڑھ کر کوشش کر سکیں گے ۔
حکم خدا وندی کے مطابق مرابطہ یعنی جغرافیائی ، ثقافتی اور اعتقادی سرحدوں کی بھر پور حفاظت کریں ۔ ہر وقت دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیا رہیں اور ان سب باتوں کے علاوہ انفرادی و اجتماعی طور پر تقویٰ و پرہیز گاری کے ذریعے گناہ و فساد کو اپنے معاشرے سے ختم کر دیں تو یقینا ان کی کامیابی کی ضمانت دی جا سکتی ہے ۔

اے خدائے بزرگ و برتر ہم سب کو یہ توفیق عطا فرما کہ ہم تیری آسمانی کتاب کے ان حیات بخش احکام کو اپنی چند روزہ زندگی میں اپنا لیں اور اپنی غیر محدود رحمت اور الطاف بے پایاں کو ہمارے شامل حال فرما ۔ آمین ۔


۱ ۔ احتجاج طبرسی جلد اول ۔
سورة نساءسب اہل کتاب ایک جیسے نہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma