تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
دو اہم نکات:”فحشآء“ سے کیا مراد ہے؟

چونکہ گزشتہ آیت میں لفظ ”فحشاء“(جس کے معنی ہر قسم کے بُرے کام کے ہیں) سے بحث کی گئی تھی اور یہ تاکید کی گئی تھی کہ خدا ہرگز بُرے کام کا حکم نہیں دیتا لہٰذا اب اس آیت میں ایک مختصر جملے کے ذریعے پروردگار عالم کے ان فرامینِ بنیادی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن کا تعلق عملی ذمہ داری سے ہے ۔ اس کے بعد اصول عقائد کی دو بنیادوں یعنی مبدا و معاد کو مختصراً بیان کیا گیا ہے ۔
ابتداء میں فرمایا گیا ہے: اے پیغمبر! ان سے کہہ دو کہ میرے پروردگار نے مجھے عدالت کا حکم دیا ہے ( قُلْ اٴَمَرَ رَبِّی بِالْقِسْطِ) ۔
ہم جانتے ہیں کہ عدالت کا ایک وسیع مفہوم ہے جس میں تمام اعمال نیک آجاتے ہیں ۔ کیونکہ عدالت کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ ہر چیز کو اس کے محل و مقام پر رکھا جائے اور وہ جس لئے ہے اسے وہاں استعمال کیا جائے اگر چہ لفظ ”عدالت“ اور لفظ ”قسط“ میں فرق ہے ۔ عدالت اسے کہتے ہیں کہ انسان ہر ایک کا حق ادا کر دے اس کے مدِّ مقابل دوسروں پر ظلم و ستم کرنا اور ان کے حقوق کا غضب کرنا ہے، لیکن ”قسط“ کے معنی یہ ہیں کہ کسی کا حق دوسرے کو نہ دے، یعنی تقسیم کرنے میں ایک دوسرے پر ترجیح نہ دے اور کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ برتے، اس کے مد مقابل یہ ہے کہ ایک کا حق دوسرے کو دے دے ۔
لیکن ان دونوں کلموں کا وسیع مفہوم،خصوصاً جبکہ یہ الگ الگ استعمال کیے جائیں ، تقریباً بالکل مساوی ہے جس کے معنی ہر چیز اور ہر کام میں اعتدلال برتنے اور ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنے کے ہیں ۔
اس کے بعد توحید پرستی اختیار کرنے اور ہر طرح کے شرک کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے: اپنے دل کو ہر عبادت میں اس کی طرف متوجہ رکھنا اور اس کی ذات پاک سے منہ موڑ کر اور کسی طرف نہ مڑنا (وَاٴَقِیمُوا وُجُوھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ) ۔
اسے پکارو، اور اپنے دین و آئین کو اس کے لئے خالص اور مخصوص کردو (وَادْعُوہُ مُخْلِصع ِینَ لَہُ الدِّینَ ) ۔
توحید کے ستون کو مستحکم کرنے کے بعد مسئلہ معاد و محشر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: جس طرح تمھیں آغاز میں پیدا کیا، اسی طرح دوبارہ بروز قیامت تم پلٹ کر آؤ گے (کَمَا بَدَاٴَکُمْ تَعُودُونَ) ۔

 

دو اہم نکات:”فحشآء“ سے کیا مراد ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma