۱۹۔ صدقہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
استفتائات جدید 03
۲۰۔ صلہٴ رحم۱۸۔ سیاسی سوالات

سوال ۱۷۴۲۔ بہت سے بسیجی (رضاکارانہ فوج) برادارن نے خیریہ مقاصد کے تحت ایک خیریہ فاؤنڈیشن بنانے کا اقدام کیا ہے، لہٰذا مہربانی فرماکر ذیل میں دئے گئے سوالات کا جواب مرحمت فرمائیں:
الف) خیریہ کاموں میں صدقہ کی رقم کو خرچ کرنے پر حضور کی کیا نظر ہے؟
۱۔ خیریہ فاؤنڈیشن کی عمارت کے لئے صدقے کی رقم خرچ کرنا جبکہ یہ رقم خیریہ اسپتال کی عمارت ، دفتر کی عمارت، مالی امداد اور قرض الحسنہ کے لئے استعمال ہو اور اس کا منافعہ بھی امور خیریہ سے متعلق ہو۔
۲۔ ضروریات زندگی کے خریدنے کے لئے صدقہ کی رقم کا خرچ کرنا، جیسے خوراک وپوشاک اور دفتری سامان وغیرہ ۔
۳۔صدقہ کی رقم کو اس خیریہ فاؤنڈیشن کے تحت کفالت لوگوں کو قرض الحسنہ دینے کے لئے مخصوص کرنا ۔
۴۔ صدقہ کو خیریہ فاؤنڈیشن کے نفع کی غرض سے تعاونی امور میں خرچ کرنا ۔
۵۔ ایک معین اور مشخص مدت کے لئے صدقے کی رقم کو قرض الحسنہ کی پہلی ضرورت کے عنوان سے جمع کرنا کہ جو فاؤنڈیشن کے زیر نظر ادارہ ہو اور جو فائدہ اس سے حاصل ہو وہ خیریہ کاموں میں خرچ ہو۔
۶۔ سرمایہ گذاری میں صدقہ کو خرچ کرنا اور اس کے منافعہ کاخیریہ امور میں خرچ کرنا ۔
۷۔ صدقہ کی رقم کو ملازمین کی تنخواہ میں استعمال کرنا ۔
۸۔ فاؤنڈیشن کے تحت کفالت خاندانوں کے ثقافتی امور میں صدقہ کو خرچ کرنا ۔

جواب: صدقہ فقط مستحقین کو پہنچنا چاہیے؛ مگر یہ کہ دینے والے اس کو ہرکارخیر میں خرچ کرنے کی نیت سے دیں ۔

ب)صدقہ کو خرچ کرنے کے سلسلے میں جناب عالی کی کیا نظر ہے؟

جواب: صدقہ محتاجوں اور ضروتمندوں کا حق ہے ۔

ج) خیریہ فاؤنڈیشن میں استعمال سے زائد اور اضافی سامان کے بیچنے کے سلسلے میں اور اس سامان کے سلسلے میں جس لوگوں سے جمع کیا جاتا ہے لیکن اس کی وہاں پر ضرورت نہیںہوتی، کیا ہے؟

جواب: اس کو بیچ دینا چاہیے اور اُسی جگہ پر خرچ کرنا چاہیے کہ جہاں پر صدقہ دینے والوں کی نیت ہو۔

سوال ۱۷۴۳۔ جو صدقہ، صدقہ کے صندوق میں ڈالا جاتا ہے، کیا صندوق کے متولی کے لئے جائز ہے اس کے پیسوں کو بدل دے مثلاً سکوںکو نوٹوں میں تبدیل کردے؟

جواب: کوئی اشکال نہیں ہے ۔

سوال ۱۷۴۴۔ اگر ایک مالدار شخص اپنے تمام حقوق واجبہ جیسے خمس وزکات کو ادا کرتا ہو، لیکن معاشرے میں کچھ ایسے افراد کو دیکھے کہ جوفقر ونتگدستی کی وجہ سے بیماروں میں مبتلا ہیں، جیسے معدہ کے کام نہ کرنے نہ کرنے کی بیماری کہ جس کا نتیجہ آہتسہ آہستہ ان کی موت ہوتا ہے، یا ان کے علاوہ کچھ ایسے بیمار ہو جو علاج کا خرچ نہ ہونے کی وجہ سے موت سے قریب ہوں، کیا اس کا وظیفہ ہے کہ اپنے اموال کا کچھ حصّہ مذکورہ اشخاص کو عطا کردے؟

جواب: اگر کہیں پر مسلمان کی جان خطرے میں ہو تو حسب تمکن اس کی جان بچانا واجب کفائی ہے، لیکن اگر کوئی مسلمان ،رنج وزحمت اور سختی میں زندگی گذار رہا ہے نہ یہ کہ اس کی جان خطرے میں ہو تو ایسے افراد کی کمک کرنا مستحب موٴکد ہے ۔

سوال۱۷۴۵۔ دوسرے فرض کی بناپر پر اگر کچھ افراد ثروت مند ہوں اور نہایت رفاہ میں زندگی بسر کررہے ہوں اور ان کے لئے تمام مادی نعمتیں مہیا ہوں لیکن دوسرے اشخاص کی زندگی انتہائی درجہ کے عسر وحرج مشقت اور تنگی میں گذر رہی ہو اور کم سے کم آسائش جیسے گھر اورروزانہ کے خرچ وغیرہ سے بھی محروم ہوں، اگرچہ ان کایہ عسر وحرج اور تنگدستی موت کا سبب بھی نہ ہو، کیا مالدار شخص اس بنیاد پر کہ اس نے اپنے تمام واجب حقوق شرعیہ کوادا کردیا ہے، مستمندوں اور تنگدستوں کی مدد سے دریغ کرے؟ کیا اس جیسے مواردمیںمالداروں کے کاندھوں پر کوئی خاص تکلیف ہے؟

جواب: ایسے موارد میں اسلامی حکومت، اجتماعی نظم کو برقرار کرنے کے لئے اپنے اختیارات سے فائدہ اٹھاسکتی ہے؛ جیسے ان کے اوپر انکم ٹیکس یا اس کے مشابہ دوسرے ٹیکس لاگو کردے ۔

سوال ۱۷۴۶۔ گذشتہ سوال میں اگر اشخاص عسر وحرج وتنگدستی میں زندگی گذار رہے ہوں اور ان کے سلسلے تفصیلی اور جزئی معلومات تو حاصل نہ ہوں لیکن بطور کلی اور اجمالاً ان کے حالات سے واقفیت ہو، کیا اس سلسلے میںتحقیق کرنا ضروری ہے؟

جواب: اگر بطور شبہہٴ محصورہ ہو تو تحقیق ضروری ہے، لیکن اگر بطور شبہہٴ غیر محصورہ ہو تو تحقیق ضروری نہیں ہے ۔

سوال ۱۷۴۷۔ بہت سے کہتے ہیں: ”ان جیسے موارد میں حکم مولوی (نہ حکم ارشادی) کا مشخص کرنے والا ولی فقیہ زمان ہوگا“ اب اگر کسی ملک میں چاہے وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی مذکورہ صورت میں مسلمانوں کا کوئی دینی رہبر نہ ہو تو اس صورت میں مسلمانوں کا کیا وظیفہ ہے؟

جواب: اس صورت میں مسلمین جامع الشرائط مجتہدین اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو مسائل شرع اور مسائل زمان ومکان سے آگاہ عدول مومنین کی طرف رجوع کیا جائے گا ۔

۲۰۔ صلہٴ رحم۱۸۔ سیاسی سوالات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma