الله نے دنیا کو ایک لحظہ میں کیوں پیدا نہ کیا ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
”خلق“ و ”امر“ سے کیا مراد ہے؟کیا جہاں چھ روز میں پیدا ہوا ہے؟

یہاں پر ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے ، وہ یہ کہ خداوندکریم اپنی انتہا قدرت کی وجہ سے سارے آسمانوں اور زمینوں کو ایک لحظہ میں پیدا کرسکتا تھا، اس کی کیا وجہ ہے کہ اس نے اس جہان کو ایک طولانی مدت میں پیدا کیا ؟
اس سوال کا جواب صرف ایک نکتہ کے سمجھنے سے مل جاتا ہے اور وہ یہ کہ خلقت جہاں اگر ایک لحظہ میں ہوجاتی تو پروردگار کی عظمت، قدرت اور علم کی کمتر حکایت کرتی لیکن اگر یہ خلقت مختلف مرحلوں میں، مختلف شکلوں میں جچے تُلے حساب شدہ پروگرام کے ماتحت عمل میں آئی ہے تواس طرح پر خالقِ اکبر کے وجود کی واضح تر دلیل بنتی ہے، مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ اگر انسان کا نطفہ ایک سیکنڈ میں ایک مکمل بچہ بن جاتا، تووہ اس قدر اس کی خلقت کی عظمت کا مظہر نہ بنتا لیکن جس وقت اس کی خلقت نومہینوں میں ہوئی ہر دن اس نے ایک ایک مرحلہ طے کیا اور ہر مہینہ ایک نئی شکل اختیار کی تو اس طرح ان مراحل کی تعداد کے مطابق پیدا کرنے والے کی عظمت وقدرت کی تازہ بہ تازہ نو بہ نو نشانیاں ملتی چلی گئیں ۔
اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ خداتعالےٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کرنے کے بعد ان کی رہبری اپنے دستِ قدرت میں سنبھالی، یعنی یہ کہ صرف سارے جہانوں کی خلقت اس نے کی بلکہ ان کا نظام اور ان کی رہبری بھی الله ہی کے ہاتھ میں (ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ) ۔
یہ فی الحقیقت ان لوگوں کا جواب ہے جو الله کو صرف خلقتِ کائنات کی علّت جانتے ہیں اوراس کی بقاء کی علّت نہیں جانتے ۔
عرش کیا ہے؟
لغت میں ”عرش“ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس میں چھت لگی ہوئی ہو اور بعض اوقات خود چھت کو بھی عرش کہتے ہیں: جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:
<اٴَوْ کَالَّذِی مَرَّ عَلیٰ قَرْیَةٍ وَھِیَ خَاوِیَةٌ عَلیٰ عُرُوشِھَا
یا اس شخص کی طرح جو ایک آبادی کے پاس سے گزرا جبکہ وہ آبادی برباد پڑی تھی اپنی چھتوں کے بل (بقرہ/۲۵۹)
کبھی یہ لفظ اونچے تخت پر بھی بولا جاتا ہے جس طرح ہم حضرت سلیمان(علیه السلام) کے قصّے میں پڑھتے ہیں:
<اٴَیُّکُمْ یَاٴْتِینِی بِعَرْشِھَا
تم میں سے کون اس (بلقیس) کا تخت یہاں لاسکتا ہے (نمل/۳۸)
نیز ان پاڑوں کو بھی ”عرش“ کہتے ہیں جو درختوں کی بیلوں کو اوپر چڑھانے کے لئے باندھی جاتی ہیں، قرآن کریم میں، ”عرش“ کا یہ استعمال بھی موجود ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
<وَھُوَ الَّذِی اٴَنْشَاٴَ جَنَّاتٍ مَعْرُوشَاتٍ وَغَیْرَ مَعْرُوشَاتٍ
وہ خدا وہ ہے جس نے پاڑوں پر چڑھنے والے اور نہ چڑھنے والے درختوں کے باغ پیدا کئے (انعام/۱۴۱)
لیکن جس وقت یہ لفظ خداوندکریم کی نسبت بولا جائے اور یہ کہا جائے کہ ”عرش خدا“ تو اس سے اس جہان ہستی کا سارا مجموعہ مراد ہے جو فی الحقیقت تختِ حکومت الٰہی ہے ۔
اگر یہ جملہ ”اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ“ بولا جائے تو یہ اس امر کے لئے کنایہ ہے کہ ”ایک حکمران اور زماندار اپنی سلطنت کے امور پر مسلط وغالب ہوگیا“ اس کے برعکس یہ جملہ ”ثل عرشہ“ (اس کا تخت برباد ہوگیا) اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی بادشاہ کی حکومت الٹ جائے، فارسی(۱) میں بھی یہ تعبیر کنائی بہت استعمال ہوتی ہے مثلاً ہم کہتے ہیں کہ فلاں ملک میں لوگوں نے بغاوت کردی اور انھوں نے وہاں کے حکمران کو تخت سے نیچے اتارلیا، حالانکہ ممکن ہے کہ وہاں کسی تخت کا سرے سے وجود نہ ہو، یا یہ محاورہ کہ کچھ لوگ فلاں شخص کی حمایت میں کھڑے ہوگئے اور انھوں نے اس کو تخت پر بٹھایا دیا، یہ سب محاورے قدرت وحکومت پانے یا اس کے جانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔
بنابریں زیرِ بحث آیت ”اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ“ کا جملہ اس بات کا کنایہ ہے کہ پروردگار عالم آسمانوں اور زمین کی خلقت کے بعد ان پر ہر حیثیت سے مسلط وغالب ہوا اور اس نے نظم ونسق اپنے دست قدرت میں سنبھالا ۔
یہیں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ: جن لوگوں نے مذکورہ بالا آیت کو ”تجسم خدا ‘ ‘ دلیل بنایا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس کنائی معنی کی طرف توجہ نہیں کی جو ہم نے یہاں پر بیان کئے ہیں ۔
”عرش“ کے ایک معنی اور بھی ہیں، یہ معنی اس جگہ لئے جاتے ہیں جہاں یہ لفظ ’کرسی“ کے مقابلے میں بولا جائے، اس طرح کے مواقع پر لفظ ”کرسی“ (جس کے معنی غالباً اس چھوٹے تخت کے ہیں جس کے چھوٹے پائے ہوتے ہیں) سے ممکن ہے ”مادی دنیا“ مراد ہو اور ”عرش“ سے مراد وہ جہان مراد ہو جو ”ماورائے مادّہ“ ہے جیسے عالمِ ارواح اور ملائکہ، جیسا کہ آیت ”وَسِعَ کُرْسِیَہُ السَّمَوٰاتِ وَالارضِ“ کی تفسیر میں سورہٴ بقرہ میں ہم تفصیل سے بیان کرآئے ہیں
اس کے بعد فرماتا ہے کہ (وہ خدا) وہ ہے جو رات کو مثل ایک پردہ اور پوشش کے دن کے اوپر ڈال دیتا ہے اور دن کی روشنی کو رات کی تاریک پردوں سے ڈھانپ دیتا ہے (یُغْشِی اللَّیْلَ النَّھَارَ) ۔
یہاں پر قابلِ توجہ یہ بات ہے کہ تعبیر مذکورہ بالا صرف رات کے لئے استعمال ہوتی ہے، یہ نہیں فرمایا کہ ”دن کے ذریعے رات کو ڈھانپ لیتا ہے“ کیونکہ پوشش صرف تاریکی کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے نہ کہ روشنی کے ساتھ۔
اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے : ”رات تیزی کے ساتھ دن کے پیچھے پیچھے رواں دواں ہے جیسے ایک قرضخواہ اپنے قرضدار کے پیچھے بھاگتا ہے

 (یَطْلُبُہُ حَثِیثًا) ۔
کرہٴ زمین میں دن اور رات کی جو کیفیت ہے یہ تعبیر اس کے عین مناسب ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص کرہٴ زمین سے باہر جاکر یہ دیکھے کہ کس طرح زمین اپنے محور پر تیزی سے محوِ گردش ہے (تقریباً ۳۰ کلومیٹر فی کی رفتار سے) اور آفتاب کی جہت اور آفتاب کی جہت مخالف میں ایک مخروطی الشکل سایہ ایک پُر اسرار دیوپیکر ہیولے کی طرح روشنی کے پیچھے پیچھے گھوم رہا ہے تو اسے (یَطْلُبُہُ حَثِیثًا) کی تعبیر کا صحیح لطف حال ہوگا اور یہ سمجھ میں آئے گا کہ دن کے متعلق یہ نہ کہا کیونکہ سورج کا نور تو نصف کرہٴ زمین پر پھیلا ہوا ہے اور اس کی کوئی شکل نہیں بنتی ۔
اس کے بعد مزید فرماتا ہے: وہ ہے جس نے سورج، چاند اور ستاروں کو پیدا کیا، اس حال میں کہ سب اس کے فرمانبردار ہیں (وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِاٴَمْرِہِ) ۔
(شمس وقمر اور ستاروں کی تسخیر کے بارے میں متعلق آیات کے ذیل میں انشاء ہم آئندہ گفتگو کریں گے)
جہانِ ہستی اور نظامِ شب روز کی پیدائش اور چاند، سورج اور ستاروں کی خلقت کے ذکر کے بعد مزید تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے: آگاہ ہوجاؤ کہ پیدا کرنا اور جہانِ ہستی کا انتظام کرنا صرف اس کے ہاتھ میں ہے (اٴَلَالَہُ الْخَلْقُ وَالْاٴَمْرُ) ۔

 


۱۔اردومیں بھی اس طرح کے جملے استعمال ہوتے ہیں (مترجم)
”خلق“ و ”امر“ سے کیا مراد ہے؟کیا جہاں چھ روز میں پیدا ہوا ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma