حضرت ”شعیب(علیه السلام)“ کے منطقی اس

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
تفسیرمدین میں حضرت شعیب (علیه السلام) کی رسالت

اس آیت میں حضرت ”شعیب(علیه السلام)“ کے منطقی استدلال کے مقابے میں ان کی قوم کے رد عمل کو بیان کیا گیا ہے اور چونکہ ان کی قوم کے طاقتور اور متکبر افراد ظاہری حیثیت سے بہت بااثر تھے، اس بنا پر ان کا رد عمل بھی بہ نسبت دوسروں کے زیادہ شدید تھا، لہٰذا انھوں نے دنیا کے دوسرے زوردار متکبر افراد کی طرح اپنی قوت وجماعت کے بل بوتے پر حضرت شعیب (علیه السلام) اور ان کے پیرووٴں ڈرانا دھمکانا شروع کردیا جیسا کہ قرآن کہتاہے: ان (شعیب) کی قوم کے طاقتور اور مغرور افراد نے ان سے کہا کہ ہم قسم کھا کر یہ بات کہتے ہیں کہ ہم تم کو اور تمھارے ماننے والوں کو اپنی سوسائٹی سے باہر نکال دیں گے، الّا یہ کہ جتنا بھی جلد ممکن ہو ہمارے مذہب کی جانب پلٹ آؤ( قَالَ الْمَلَاٴُ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا مِنْ قَوْمِہِ لَنُخْرِجَنَّکَ یَاشُعَیْبُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَا اٴَوْ لَتَعُودُنَّ فِی مِلَّتِنَا) ۔
ممکن ہے اس آیت کے ظاہر سے کسی کو یہ توہم ہو کہ شاید حضرت شعیب (علیه السلام) بھی قبلا بت پرستوں کی صف میں شامل تھے، جب ہی تو کفار نے یہ کہا کہ ہمارے ملت کی طرف پلٹ آؤ، جب کہ ایسا نہیں ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ کیوں کہ حضرت شعیب (علیه السلام) دعوت وتبلیغ سے ان کی بت پرستی کے بارے میں خاموش تھے کیوں کہ ابھی ان کو تبلیغ کا حکم نہیں ملا تھا، اس سے وہ (کفار) یہ خیال کرتے تھے کہ حضرت شعیب (علیه السلام) بھی ان کی ملت پر ہیں حالانکہ پیغمبروں میں سے کوئی بھی بت پرست نہ تھا، حقیقت یہ ہے کہ ہر پیغمبر کی عقل اس کی پیغمبری سے قبل ہی اتنی کامل ہوتی ہے کہ وہ بت پرستی جیسے احمقانہ اعمال ناشائستہ کا مرتکب نہیں ہوتا، اس کے علاوہ یہ کہ کفار کا روئے سخن صرف حضرت شعیب (علیه السلام) ہی کی طر ف نہ تھا بلکہ یہ خطاب ان کے پیرووٴں کے لئے بھی تھا لہٰذا ہوسکتا ہے کہ یہ تعبیر ان ہی کے لحاظ سے ہو ۔
مخالفین کی تہدید یہی نہ تھی بلکہ انھوںنے اس کے علاوہ دوسری دھمکیاں بھی دی تھیں جو حضرت شعیب (علیه السلام) سے متعلق دیگر آیات میں مذکور ہیں اور ان سے متعلق جو بحث ہے وہ انشاء اللہ آگے آئے گی ۔
حضرت شعیب (علیه السلام) نے ان تمام باتوں اور تمام دھمکیوں کا جواب ایک بہت ہی مختصر ، سہل اور سادہ لیکن منطقی جملے سے دیا، انھوں نے کہا: کیا تم ہم کو اپنے مذہب کی طرف اس حال میں لوٹانا چاہتے ہو کہ ہم اس کی طرف مائل نہ بھی ہوں (قَالَ اٴَوَلَوْ کُنَّا کَارِھِینَ) ۔(۱)
در حقیقت حضرت شعیب (علیه السلام) یہ کہنا چاہتے تھے کہ آیا یہ مناسب ہے کہ تم اپنا عقیدہ زبردستی ہمارے اوپر ٹھونسو، اور وہ قانون جس کا بطلان ہم پر اچھی طرح واضح ہوچکا ہے اس کو طاقت کے زور سے ہم پر سوار کرو؟ پھر یہ کہ اگر ہم نے ایسا کیا بھی تو اس کا تم کو کیا فائدہ پہنچے گا ؟۔
اس کے بعد کی آیت میں حضرت شعیب (علیه السلام) اپنی بات کو اس طرح آگے بڑھاتے ہیں: اگر ہم دوبارہ آئین بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں بعد اس کے کہ اللہ نے ہم کو اس سے نجات دے دی ہے اور ہم اپنے کو دوبارہ اس تباہی کے گڑھے میں گرادیں، تو ہم نے گویا خدا افتراباندھا ہے ( قَدْ افْتَرَیْنَا عَلَی اللهِ کَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِی مِلَّتِکُمْ بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللهُ مِنْھَا) ۔
یہ جملہ دراصل اس جملہ کی توضیح ہے جو قبل کی آیت میں حضرت شعیب (علیه السلام) کی زبان سے جاری ہوا تھا اس کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے بت پرستی کے آئین کو جو چھوڑا ہے وہ ازروئے ہوا وہوس نہیں ہے اور نہ ہم نے اس معاملے میں کسی کی اندھی پیروی کی ہے بلکہ ہم نے اس عقیدہ کے بطلان کو دلائل سے سمجھا ہے اور توحید کے معاملے میں الٰہی فرمان کو جان ودل سے قبول کیا ہے، لہٰذا اگر اس حال میں ہم اس مسلک حق کو چھوڑ کر دوبارہ مشرک بن جائیں تو ایسا ہے کہ ہم نے دیدہ ودانستہ خدا پر بہتان باندھا ہے، اور یہ مسلم ہے کہ خدا ہم کو اس کی سزا دے گا ۔
اس کے بعد مزید فرماتے ہیں: یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم تمھارے آئین کی طرف پلٹ آئیں الّا یہ کہ خدا خود یہ چاہے ( وَمَا یَکُونُ لَنَا اٴَنْ نَعُودَ فِیھَا إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ رَبُّنَا)
حضرت شعیب (علیه السلام) کا مقصد درحقیقت یہ ہے کہ ہم ہر حال میں خدا کے فرمان کے تابع ہیں اور اس کے حکم سے ہم ذرہ برابر بھی مخالفت نہیں کرسکتے، اب ہمارا تمھاری طرف پلٹنا کسی حالت میں ممکن نہیں ہے الّا یہ کہ خدا ہم کو پلٹنے کا حکم دے (اور وہ ایسا حکم کبھی نہیں دے سکتا کیوں کہ) وہ ہر چیز سے آگاہ ہے اور اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے لہٰذا ہرگزیہ ممکن نہیں کہ وہ اس چیز سے پلٹ جائے جس کا وہ ہم کو سختی سے حکم دے چکا ہے، کیوں کہ حکم دے کر پشیمان وہ ہوتا ہے جس کا دائرہ معلومات محدود ہو اور وہ دھوکا کھا جائے لیکن وہ کہ جس کا علم لامحدود ہے، کبھی غلطی نہیں کرتا، وہ اپنے فیصلہ پر تجدید نظر بھی نہیں کرتا( وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا ) ۔
اس کے بعد ان لوگوں پر یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ ان کی دھمکیوں سے بالکل حراساں نہیں ہیں، بلکہ اپنے موٴقف پر مضبوطی سے قائم ہیں، حضرت شعیب (علیه السلام) نے کہا: ہمارا بھروسہ صرف خدا پر ہے (عَلَی اللهِ تَوَکَّلْنَا) ۔
آخرکار، اپنا حسن نیت ظاہر کرنے کے لئے اور اس لئے کہ ان کی حقیقت پسندی اور صلح جوئی کا رخ بھی اچھی طرح سے نمایا ہوجائے تاکہ دشمن ان کے خلاف یہ الزام نہ لگائے کہ وہ ہنگانہ پسند اور خواہ مخواہ انقلاب پر ور انسان ہیں ۔ انھوں نے کہا: اے پروردگارا! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان تو ہی حق کے ساتھ فیصلہ کر، اور ہماری مشکلات کو دور کراور دررحمت ہم پر کھول دے کہ تو بہترین کھولنے والا ہے ( رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاٴَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِینَ) ۔
ابن عباس سے منقول ہے وہ کہتے ہیں:
میں اس آیت میں” فتح“ کے معنی نہیں جانتا تھا، یہاں تک کہ میں نے ایک روز ایک عورت کو اپنے شوہر سے یہ کہتے سنا کہ وہ یہ کہہ رہی تھی ”افاتحک بالقاضی“ یعنی تجھ کو فیصلہ کرنے کے لئے قاضی کے پاس لے چلوں گی، اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ اس قسم کے مواقع پر ”فتح“ کے معنی فیصلہ اور حکومت کے ہیں (کیوں کہ قاضی طرفین کے سلسلے کی گرہ کو کھول دیتا ہے) ۔(2)

 

 

 

۹۰وَقَالَ الْمَلَاٴُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِہِ لَئِنْ اتَّبَعْتُمْ شُعَیْبًا إِنَّکُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ ۔
۹۱فَاٴَخَذَتْھُمْ الرَّجْفَةُ فَاٴَصْبَحُوا فِی دَارِھِمْ جَاثِمِینَ ۔
۹۲ الَّذِینَ کَذَّبُوا شُعَیْبًا کَاٴَنْ لَمْ یَغْنَوْا فِیھَا الَّذِینَ کَذَّبُوا شُعَیْبًا کَانُوا ھُمَ الْخَاسِرِینَ ۔
۹۳ فَتَوَلَّی عَنْھُمْ وَقَالَ یَاقَوْمِ لَقَدْ اٴَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَاتِ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَکُمْ فَکَیْفَ آسیٰ عَلیٰ قَوْمٍ کَافِرِینَ۔
ترجمہ
۹۰۔ان(شعیب (علیه السلام)) کی قوم کے اس گوہ نے کہا جو کافر ہوگئے تھے: اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو تم گھاٹے میں رہو گے ۔
۹۱۔ پس زلزلے نے ان کو آلیا اور انھوں نے اس حالت میں صبح کی کہ ان کے بے جان بدن ان کے گھروں میں پڑے ہوئے تھے ۔
۹۲۔ جن لوگوں نے شعیب کی تکذیب کی (اس طرح نابود ہوگئے کہ) گویا ہرگز ان (گھروں ) میں آباد نہ تھے جن لوگوں نے شعیب کی تکذیب کی وہی گھاٹے اٹھانے والے تھے ۔
۹۳۔ پس اس (شعیب (علیه السلام)) نے ان لوگوں سے رخ پھیر لیا اور کہا کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے رب کی رسالت پہنچادی تھی اور تم کو نصیحت (بھی) کی تھی، پس (اس حال میں) میں کافر قوم پر کیسے افسوس کروں!۔

 

 

 

 
۱۔ اس جملے میں درحقیقت ایک محذوف مقدر ہے کیوں کہ یہ جملہ اس طرح تھا:”اتریدوننا فی ملتکم ولو کنا کارھین“۔
2۔ تفسیر نہج الصادقین-
 
تفسیرمدین میں حضرت شعیب (علیه السلام) کی رسالت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma