چند قابل توجہ نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
حدیث منزلت کے اسنادچند اہم نکات

۱۔ وعدہ کتنی راتوں کا تھا ؟:آیہ مذکورہ بالا کے متعلق پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے پہلے ہی سے چالیس راتوں کا وعدہ کیوں نہ کیا بلکہ پہلے تیس راتوں کا وعدہ کیا اس کے بعد دس راتوں کا اور اضافہ کردیا، حالانکہ سورہٴ بقرہ کی آیت ۱۵۱میں ایک جگہ چالیس راتوں کا ذکر ہے؟ ! ۔
مفسرین کے درمیان اس تفریق کے بارے میں بحث ہے، لیکن جو بات بیشتر قرین قیاس ہے ، نیز روایات اہلبیت علیہم السلام کے بھی موافق ہے وہ یہ ہے کہ یہ میعاد اگر چہ واقع میں چالیس راتوں کا تھا لیکن خدا نے بنی اسرائیل کی آزمائش کرنے کے لئے پہلے موسیٰ (علیه السلام) کو تیس راتوں کی دعوت دی پھر اس کے بعد اس کی تجدید کردی تاکہ منافقین مومنین سے الگ ہوجائیں ۔
اس سلسلہ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا:
جس وقت حضرت موسیٰ (علیه السلام) وعدہ گاہ الٰہی کی طرف گئے تو انھوں نے بنی اسرائیل سے یہ کہہ رکھاتھا کہ ان کی غیبت تیس روز سے زیادہ طولانی نہ ہوگی لیکن جب خدا نے اس پر دس دنوںکا اضافہ کردی تو بنی اسرائیل نے کہا: موسیٰ(علیه السلام) نے اپنا وعدہ توڑدیا اس کے نتیجہ میں انھوں نے وہ کام کئے جو ہم جانتے ہیں (یعنی گوسالہ پرستی میں مبتلا ہوگئے )(۱)
ر ہا سوال کہ یہ چالیس راتیں، اسلامی مہینوں میں سے کونسا زمانہ تھا ؟ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مدت ذیقعدہ کی پہلی تاریخ سے لے کر ذی الحجہ کی دس تاریخ تک تھی ، قرآن میں چالیس راتوں کا ذکر ہے نہ کہ چالیس دنوں کا، تو شاید یہ اس وجہ سے ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اپنے رب سے جو مناجاتیں تھیں وہ زیادہ تر رات ہی ہے کے وقت ہُوا کرتی تھیں ۔
۲۔ پیغمبر اور جانشینی؟: دوسرا سوال جو یہاں درپیش ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہارون(علیه السلام) تو خود پیغمبر تھے لہٰذا انھیں موسیٰ(علیه السلام) نے بنی اسرائیل کی رہبری اور امامت کے لئے اپنا جانشین کیونکر مقرر کیا ؟
اس سوال کا جواب ایک نکتہ پر غور کرنے کے بعد واضح ہوجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مقام نبوت کچھ اور مقامِ امامت کچھ اور، حضرت ہارون(علیه السلام) اگرچہ خد پیغمبر تھے مگر بنی اسرائیل کی عام رہبری کے منصب دار نہ تھے، یہ منصب وہ تھا جو صرف حضرت موسیٰ(علیه السلام) کو ملا ہُوا تھا لیکن جب آپ نے چاہا کہ ایک مدت کے لئے اپنی قوم سے جدا ہوں تو اپنے بھائی کو مقامِ امامت وپیشوائی کے لئے انتخاب کیا ۔
اور یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ مقامِ امامت بالاتر از مقامِ نبوّت ہے، ہم نے اس مطلب کو وضاحت کے ساتھ حضرت ابراہیم(علیه السلام) کے قصّہ میں سورہٴ بقرہ کی آیت ۱۲۴ کی تفسیر میں بیان کیا ہے (ملاحظہ ہو، جلد اوّل، ص۳۲۲ اردو ترجمہ)
۳۔ حضرت ہارون(علیه السلام) کوتلقین؟: اس کے بعد ایک اور سوال سامنے آتا ہے، وہ یہ کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) نے کس طرح اپنے بھائی ہارون(علیه السلام) سے یہ کہا کہ: قوم کی اصلاح کی کوشش کرنا اور مفسدوں کی پیروی نہ کرنا، جبکہ حضرت ہارون(علیه السلام) ایک نبیٴ برحق اور معصوم تھے وہ بھلا مفسدوں کی پیروی کیوں کرنے لگے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ: در حقیقت اس بات کی تاکید کے لئے تھا کہ حضرت ہارون(علیه السلام) کو اپنی قوم میں اپنے مقام کی اہمیت کا احساس رہے اور شاید اس طرح سے خود بنی اسرائیل کو بھی اس بات کا احساس دلانا چاہتے تھے کہ وہ ان کی غَیبت میں حضرت ہارون(علیه السلام) کی رہنمائی کا اچھی طرح اثر لیں اور ان کا کہنا مانیں اور ان کے امر ونواہی (احکامات) کو اپنے لئے سخت نہ سمجھیں، اس سے اپنی تحقیر خیال نہ کریں اور ان کے سامنے اس طرح مطیع وفرمانبردار رہیں جس طرح وہ خود حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے فرمانبردار تھے ۔
۴۔ ایک میقات یا کئی میقات؟: چوتھا سوال جو درپیش ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا حضرت موسیٰ(علیه السلام) صرف اسی چالیس دن روزہ میقات پر ایک ہی دفعہ گئے تھے اور انہی چالیس دنوں میں توریت اور تمام شریعت واحکامات نازل ہوگئے، نیز کیا انہی چالیس دنوں کی بات ہے کہ اپنی قومکے کچھ منتخب شدہ افراد کو بطور نمائندہ اپنے ہمراہ لے گئے تھے کہ وہ نزولِ توریت کے گواہ نہیں اور انھیں حضرت موسیٰ(علیه السلام) یہ بتلادیں کہ وہ ذات خداوندی کو نہیں دیکھ سکتے اور نہ کوئی دوسرا اسے دیکھ سکتا ہے؟! یا یہ کہ متعدد چلّے گذرے؟ ایک چلّہ صرف صرف احکام الٰہی لینے کے لئے پھر دوسرا چلّہ بزرگان بنی اسرائیل کو لے جانے کے لئے، پھر شاید تیسرا چلّہ دیگر مقاصد کے لئے (جیسا کہ موجودہ توریت کے سفر خروج باب ۱۹ تا ۲۴ میں مذکور ہے) ۔
ایک مرتبہ پھر مفسّرین کے درمیان اس بارے میں بحث ہوئی ہے، لیکن آیات قبل وبعد پر اگر نظر کی جائے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ان سب کا تعلق ایک ہی واقعہ سے ہے کیونکہ کیونکہ ایک تو یہ جملہ: ”ولمّا جاء موسیٰ لمیقاتنا“ (جب موسیٰ ہماری وعدہ گاہ میں آئے) اچھی طرح سے ان دونوں واقعات کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے، علاوہ بریں اسی سورہ کی آیت ۱۴۵ ہمیں پورے سے بتلاتی ہے کہ ”الواحِ توریت“ اور ”نزول احکامِ شریعتِ موسیٰ“ یہ دونوںواقعات اسی سفر میں ہوئے تھے ۔
اس سورہ میں صرف ایک آیت (نمبر۱۵۵) ایسی ہے جس سے تعدد ّمیقات کا احتمال ہوتا ہے <وَاخْتَارَ مُوسیٰ قَوْمَہُ سَبْعِینَ رَجُلًا لِمِیقَاتِنَا انشاء الله ہم جب اس کی تفسیر کریں بیان کریں گے تو وہاں تحریر کریں گے کہ یہ آیت بھی مذکورہ مطلب کے خلاف نہیں ہے ۔
۵۔ حدیث منزلت: بہت سے سُنّی اور شیعہ مفسّرین نے اس مقام پر حدیث منزلت (یا علی انت منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ) کی طرف اشارہ کیا ہے، بس فرق اتنا ہے کہ شیعہ مفسرین نے اسے حضرت علی علیہ السلام کی خلافتِ بلافصل پر ایک زندہ دلیل مانا ہے جبکہ بعض مفسّرین اہلسنّت نے اسے ردّ کرتے ہوئے شیعوں پر بے رحمی اور تعصّب کے ساتھ اعتراضات کئے ہیں ۔
اس بحث کی مزدید وضاحت کے لئے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہم اس حدیث کی اسناد اور متن کو مختصر طور پر پیش کردیں، اس کے بعد ان اعتراضات کے متعلق بحث کریں گے جو فریق مخالفت نے اس جگہ پیش کئے ہیں ۔

 

۱۔ تفسیر برہان،جلد ۲ ،ص ۳۳، نورالثقلین،جلد ۲، ص ۶۱-
 
حدیث منزلت کے اسنادچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma