قبولیت توبہ کے لئے شرطیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
شان نزول اسلام کے تعزیری قوانین کا سہل اور ممتنع طریقہ

إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللَّہِ لِلَّذینَ یَعْمَلُونَ السُّوء َ بِجَہالَةٍ
گذشتہ آیت میں عفت اور پاک دامنی کے خلاف عمل کرنے والوں کو توبہ کے سبب سزا نہ ملنے کا مسئلہ تفصیل سے بیا ہو چکا ہے ۔ اور اسی سلسلے میں اس جملے کے ذریعے پر وردگار کی طرف سے ان کی توبہ قبول ہونے کی طرف اشارہ بھی ہوا ہے :
ان اللہ کان توابا رحیماً
خدا اپنے بندوں کی توبہ بہت قبول کرتا ہے اور ان پر رحم کرنے والا ہے ۔
خدا وند عالم اس آیت میں وضاحت کے ساتھ مسئلہ توبہ اور اس کی کچھ شرطیں بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ : توبہ تو صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو جہالت کی وجہ سے گناہ کرتے ہیں ۔
آئیے اب دیکھیں کہ جہالت کیا چیز ہے کیا یہ جہل و نادانی اور گناہ سے بے خبری یا اس کے منحوس اثرات اور دردناک نتائج سے نا واقفیت کا نام ہے ۔ لفظ جہل اور اس کے مشتقات اگر چہ مختلف معافی کے لئے آئے ہیں لیکن قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زیر بحث آیت میں خواہشات نفسانی کا تلاطم ۔ سرکش ہوا و ہوس کا غلبہ اور عقل و ایمان کی قوتوں پر ان کا تسلط مراد ہے اگر چہ اس حالت میں گناہ کی وجہ سے علم رخصت نہیں ہو جاتا لیکن وہ اغراض نفسانی سے دب کی عمل طور پر بے اثر ہو جاتا ہے اور جب علم اپنا عمل کھو بیٹھے تو وہ از روئے عمل جہل و نادانی کے برابر ہے ۔ اگر گناہ اس قسم کی جہالت کی وجہ سے نہ ہو بلکہ حکم پروردگار کے انکار اور دشمنی کی بنا پر ہو تو اس قسم کا گناہ کفر ہے ۔ اسی وجہ سے اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی مگر یہ کہ وہ اس روش کو چھوڑ دے اور عنادو انکار سے باز آ جائے ۔
در اصل یہ آیت اسی حقیقت کو بیان کر رہی ہے جسے حضرت امام زین العابدین (ع) نے دعائے ابو حمزہ میں زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، آپ بارگاہ خدا وندی میں عرض کرتے ہیں :
الھی لم اعصل حین عصیتک و انا بربوبیتک جاحد و لا بامرک مستحف ولا لعقوبتک متعرض و لا لوعیدک منھا و لکن خطیئة عرضت وسولت لی نفسی و غلبنی ھوای ۔۔۔
اے خدا جب میں نے تیری نا فرمانی کی اس وقت گناہ کی طرف پیش قدمی تیری خدائی سے انکار کی وجہ سے نہ تھی اور نہ ہی تیرے حکم کو معمولی سمجھنے کے سبب تھی اور نہ ہی تیری سزا کو خفیف سمھتے ہوئے نہ تیری سزا کے وعدے غیر اہم جانتے ہوئے تھی بلکہ ایک غلطی اور خطا تھی ، جو مجھ سے ہو گئی ۔ نفس عمارہ نے مجھ پر حق کو مشکوک کر دیا اور مجھ پر ہوا و ہوس نے غلبہ کر لیا ۔
اس جملے میں توبہ کی ایک اور شرط کی طرف اشارہ ہے ، فرماتا ہے :
ثم یتوبون من قریب
یعنی ۔ وہ جلدی سے توبہ کر لیں ۔
اس بارے میں کہ ” قریب “ سے کیا مراد ہے مفسرین میں اختلاف ہے ۔ ان میں بعض اس سے مراد آثار موت ظاہر ہونے سے پہلے لیتے ہیں اور بعد والی آیت جو یہ بتلاتی ہے کہ موت کی علامتیں ظاہر ہونے کے بعد توبہ قبول نہیں ہوتی ، اس پر بطور گواہ پیش کرتے ہیں ۔ اس بنا پر لفظ قریب شاید اس وجہ سے ہے کہ اصولی طور پر دنیا کی زندگی چاہے کتنی ہی کیوں نہ ہو مختصر ہے اور اس کا خاتمہ نزدیک ہے ۔
لیکن بعض نے گناہ کے قریب کا وقت مراد لیا ہے ۔ یعنی اپنے گناہ سے جلد از جلد پشیمان ہو اور خدا کی طرف لوٹ آئے کیونکہ مکمل توبہ وہ ہے جو گناہ کے آثار و نشانات کو روح و جسم سے بالکل دھو ڈالے ۔ یہاں تک کہ گناہ کا کوئی اثر دل میں باقی نہ رہے اور یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ انسان جلد از جلد اس سے پہلے کہ گناہ اس کے جسم میں جڑ پکڑے اور اس کی طبیعت ثانیہ بنے ، اس سے پچھتائے ۔ ورنہ بصورت دیگر زیادہ تر گناہوں کے اثرات انسان کے قلب و جان کے گوشوں میں باقی رہ جاتے ہیں ۔ پس مکمل توبہ وہ ہے جو گناہ کے فورا ً بعد کی جائے ۔ قریب کا لفظ لغت اور عرف عام کی رو سے ان ہی معنی سے مناسبت رکھتا ہے ۔
یہ درست ہے کہ ایک عرصہ گذرنے کے بعد بھی توبہ قبول ہو جاتی ہے ۔ لیکن وہ پوری توبہ نہیں ہے اور شاید علیٰ اللہ ( یعنی ۔ وہ توبہ جس کا قبول کرنا اللہ پر لازم ہے ) بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ تعبیر قرآن کی طرف صرف اسی آیت میں آئی ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس قسم کی توبہ قبوک کرنا بندوں کے حقوق میں سے ہے جبکہ عرصہ دراز کی توبہ قبول کرنا تفضل الہی ہے نہ کہ حق ۔
فَاٴُولئِکَ یَتُوبُ اللَّہُ عَلَیْہِمْ وَ کانَ اللَّہُ عَلیماً حَکیماً ۔
خدا وند عالم توبہ کی شرطوں کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے کہ خدا ایسے لوگوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور وہ دانا و حکیم ہے ۔
وَ لَیْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذینَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئاتِ ۔۔۔
اس آیت میں ان فراد کی طرف اشارہ ہے جن کی توبہ قبول نہیں ہوتی ۔ فرماتا ہے : وہ لوگ جو موت کی چوکھٹ پر پہنچ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہم گناہ سے توبہ کرتے ہیں ، ان کی توبہ قبول نہیں ہو گی ۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ جاں کنی کے عالم میں جبکہ موت بالکل سامنے دکھائی دے رہی ہو انسانی آنکھ سے پردے اٹھ جاتے ہیں اور اس میں ایک خاص بینائی پیدا ہو جاتی ہے اور کچھ حقائق جن کا تعلق دوسری دنیا کے ساتھ ہے اور اپنے اعمال جو اس دنیا میں کئے تھے ، اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے کیونکہ اب مسائل حسی پہلو اختیار کر لیتے ہیں ۔ لہذا ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ہر گناہ گار اپنے برے کاموں پر پچھتا تا ہے اور اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو اپنے قریب آگ کا شعلہ دیکھ کر اس سے بھاگنا چاہتا ہے ۔ یہ مسلم ہے کہ شرعی ذمہ داری اور آزمائش پروردگار کی بنیاد اس طرح کے مشاہدات پر نہیں ہے بلکہ اس کا دارو مدار غیب کے ایمان اور عقل و خرد کی آنکھ کے مشاہدہ پر ہے ۔
اسی بنا پر کلام مجید میں ہے کہ جس وقت دنیا کے عذاب کی پہلی نشانی گزرے ہوئے زمانے کی بعض قوموں پر ظاہر ہو جاتی تھی تو ان پر توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا تھا ۔ چنانچہ ہم فرعون کی سر گذشت میں پڑھتے ہیں :
حتی اذا ادرکہ الغرق قال اٰمنت انہ لا الہ الا الذی اٰمنت بہ نبو اسرائیل و انا من المسلمین الان و قد عصیت قنل کنت من المفسدین ۔

 

( یونس ۹۰ ،۹۱ )
یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو اس نے پکار کر کہا : اب میں ایمان لاتا ہوں کہ کہ بنی اسرائیل کے معبود کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں سر تسلیم خم کرتا ہوں لیکن اس سے کہہ دیا گیا کہ تو اب یہ بات کہتا ہے جبکہ اس سے پہلے نا فرمانی کرتا رہا ہے اور تو فساد کرنے والوں میں سے تھا ۔ اس وجہ سے تیری توبہ قبول نہیں ہوگی ۔
بعض قرآنی آیتوں ( مثلا ً سورہ ٴ سجدہ کی آیت ۱۲ ) سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ گنہگار قیامت میں عذاب الہی کو دیکھتے ہیں اور اپنے کئے پر پچھتاتے ہیں ۔ لیکن ان کی پشیمانی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی ۔ ایسے لوگ بالکل ان مجرموں کی طرح ہیں جن کی نگاہ جب سولی کی لکڑی پر پڑتی ہے اور اس کا پھندا اپنی گردن میں محسووس کرتے ہیں تو اپنے کئے پر پچھتاتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ پچھتاوٴ نہ باعث فضیلت ہے نہ سبب عزت و افتخار اور نہ ہی ترقیٴ درجات کا ذریعہ اسی لئے یہ تو بے اثر ہے ۔
یقینا یہ آیت ان روایتوں کے خلاف نہیں ہے جو یہ کہتی ہیں کہ توبہ آخری سانس تک قبول ہوسکتی ہے کیونکہ روایات میں آخری سانس سے مراد وہ لمحے ہیں جن میں ابھی موت کی نشانیاں نہ دیکھی ہوں اور اصطلاح کے مطابق ابھی برزخی نگاہ پیدا نہ ہوئی ہو ۔
دوسرا گروہ ان افراد کا ہے جن کی وبہ قبول نہ ہوگی ۔ یہ وہ ہیں جو کفر کی حالت میں مر جائیں ۔ خدا وند عالم آیت بالا میں ان کے بارے میں فرماتا ہے :
ولا الذین یموتون وھم کفار ۔۔
یعنی ” جو حالت کفر میں مر جاتے ہیں ان کے لئے توبہ کا دروازہ بند ہے “ یہ حقیقت قرآن کی دوسری آیتوںمیں بھی واضح کی گئی ہے ۔ ۱
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جو کفر کی حالت میں دنیا سے چلے جاتے ہیں وہ کس وقت توبہ کریں گے کہ ان کی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کی توبہ عالم آخرت میں قبول نہیں ہوگی اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ توبہ سے مراد بندوں کی توبہ نہیں بلکہ خدا کی طرف سے توبہ ۔ یعنی خدا ان کے لئے عفو رحمت کی طرف نہیں آئے گا ۔ لیکن ظاہر ہے کہ آیت کی نظر ایک اور مقصد پر ہے ۔ وہ بتاتی ہے کہ وہ افراد جنہوں نے صحت و سلامتی اور ایمان کی حالت میں اپنے گناہوں سے توبہ کی ہے لیکن موت کے وقت دنیا سے بحالت ایمان نہیں گئے ۔ ان کی گذشتہ توبہ بے معنی ہے ۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کے نیک اعمال کی ایک شرط قبولیت ” موافات بر ایمان “ یعنی ایمان کے ساتھ دنیا سے جانا ہے ۔ اس لئے جو لوگ زندگی کے آخری لمحات میں کافر ہوں ان کے پہلے اعمال ( یہاں تک کہ وہ نیک عمل جو ایمان کی حالت میں کئے تھے ) قرآنی آیتوں 2
کی توضیح کے مطابق رائیگان ہو جائیں گے ۔ اگر چہ انہوں نے ایمان کی حالت میں گناہوں وے توبہ کر لی ہو لیکن اس صورت میں وہ بھی بیکار ہو جائے گی۔ گویا توبہ کے قبو ہونے کی دو شرطیں ہیں ۔
۱۔ موت کی نشانیاں ظاہر ہونے سے پہلے ہو ۔
۲ ۔ انسان ایمان کے ساتھ دنیا سے اٹھے ۔
اس آیت سے ضمنی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ توبہ میں دیر نہ کرے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اچانک موت آجائے اور اس کے لئے توبہ کے دروازے بند ہو جائیں ۔ یہ بات توجہ کے قابل ہے کہ زیر بحث آیت میں توبہ کی تاخیر جس کو ” تسویف “ کہتے ہیں اور ” حالت کفر کی موت “ کو ہم پلہ قرار دیا گیا ہے اور یہ اس اہمیت کی علامت ہے جو اس موضوع کو قرآن دے رہا ہے ۔
آیت کے آخر میں فرماتا ہے -: اولئک اعتدنا لھم عذابا الیما ۔یعنی ہم نے ان دونوں گروہوں کے لئے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
یاد دہانی کی ضرورت نہیں کہ توبہ کے لئے مذکورہ بالا شرطوں کے علاوہ اوربھی شرطیں ہیں جن کی طرف متعلقہ آیتوں میں اشارہ ہوگا ۔

  

۱۹ ۔ یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا یَحِلُّ لَکُمْ اٴَنْ تَرِثُوا النِّساء َ کَرْہاً وَ لا تَعْضُلُوہُنَّ لِتَذْہَبُوا بِبَعْضِ ما آتَیْتُمُوہُنَّ إِلاَّ اٴَنْ یَاٴْتینَ بِفاحِشَةٍ مُبَیِّنَةٍ وَ عاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسی اٴَنْ تَکْرَہُوا شَیْئاً وَ یَجْعَلَ اللَّہُ فیہِ خَیْراً کَثیراً۔
ترجمہ
۱۹ ۔ اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ عورتوں سے سختی سے ( اور انہیں تکلیف پہنچاکر ) میراث لو اور جو کچھ ( بطور حو مہر ) انہیں دیا ہے اسے اپنی ملک بنانے کے لئے ان پر سختی نہ کرو ۔ مگر یہ کہ وہ کھلے بندوں کی برائی کریں ۔ اور ان سے اچھا سلوک کرو اگر چہ تم ان سے ( کئی وجوہات کی وجہ سے ) نفرت و حقارت کرتے ہو ( تو فورا علیحدگی کا پختہ ارادہ نہ کرو ) کیونکہ اکثر اوقات تم کسی چیز کو نا پسن کرتے ہو اور خدا اس میں بہت زیادہ نیکی قرار دیتا ہے ۔


۱ ۔ آل عمران ۹۱ ، بقرہ ۱۶۱ ، بقرہ ۲۱۷ ، اور محمد ۳۴ ۔
2۔ بقرہ ۲۱۷
شان نزول اسلام کے تعزیری قوانین کا سہل اور ممتنع طریقہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma