دکھلاوا اور رضا ئے الٰہی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
”ذرّة“ کیا چیز ہے دس احکامات اور قواعد

یہ آیت حقیقت میں گذشتہ آیتو کا ضمیمہ ہے جو متکبر اور بندہٴ ہوا وہوس افراد کی طرف اشارہ کررہی ہے وہ ایسے گئے گزرے لوگ ہیں جو نہ صرف لوگوں سے نیکی میں بخل کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی بخل پر ابھارتے ہیں ( الذین یبخلون و یاٴمرون الناس بالبخل )۔
علاوہ از یں وہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ خدا وند عالم نے جو کچھ انہیں مر حمت فرمایا ہے اسے چھپاکر رکھیں ” و یکتمون ما اٰتاھم اللہ من فضلہ“ اس کے بعد ان کے انجام اور نتیجہ کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ ہم نے کافروں کے لئے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے (واعتدنا للکافرین عذابا مھیناً)
شاید اس تعبیر کا راز یہ بخل کا سر چشمہ زیادہ تر کفر ہی ہوتا ہے کیونکہ بخیل لوگ حقیقت میں خدا وند عالم کی لامحدود نعمتوں اور اس کے نیک لوگوں سے کئے ہوئے وعدوں پر ایمان کامل رکھتے اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ وہ دوسروں کی مدد کریں گے تو فقیر بن جائیں گے اور یہ جو فرمایا ہے کہ ان کے لئے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب ہے ، تو یہ اس لئے ہے تاکہ وہ تکبر اور گھمنڈ کی سزا کو اپنے کئے کا سبب سمجھیں ۔
ضمنی طور پر سوچنا چاہئیے کہ بخل صرف مالی امور تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ خدا وند عالم کی ہر قسم کی نعمت کو روکنے کے معنی بھی اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مالی لحاظ سے بخل نہیں کرتے لیکن علم و دانش اور اسی قسم کے دوسرے مسائل میں بخیل ہیں ۔ دوسری آیت میں من مانی کرنے والے متکبروں کی ایک اور صفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : و الذین ینفقون اموالھم رئاء الناس ولا یوٴمنون باللہ ولا بالیوم الآخرمیں آن...
وہ ایسے لو گ ہیں کہ اگر خرچ کرتے بھی ہیں تو لوگوں کو دکھانے اور شہرت کے لئے اور ان کا مقصد خدمت خلق اور رضائے خالق نہیں ہے ۔ اسی لئے تو خرچ کے وقت لینے والے مستحق ہونے کی پابندی نہیں ہے ۔ بلکہ ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کس طرح خرچ کریں جس سے خود انہیں زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچنے اور وہ اپنی حیثیت کو ثا بت کر سکیں ۔ کیونکہ وہ خدا تعالیٰ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اس لئے ان کی سضاوت میں روحانی جذبہ نہیں ہے بلکہ ان کا جذبہ نام و نمود اور جھوٹا وقارہے کہ تکبر اور خود غرضی کی نشانیوں میں سے ہے ۔
و من یکن الشیطان لہ قریناً فساء قرینا ً
انہوں نے شیطان کو اپنا ساتھ بنالیا ہے اور جو ایساکرے اس نے اپنے لئے بہت برا ساتھی چنا ہے اور اس کی تقدیر اس سے بہتر نہیں ہوگی کیونکہ ان کی منطق اور پروگرام شیطان کی منطق اور پروگرام ہی ہے ۔ وہی ہے جو ان سے کہتا ہے کہ خلوص کے ساتھ خرچ کرنا فقر و فاقہ کا سبب ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :
الشیطان یعد کم الفقر ( بقرہ ۔ ۲۶۸)
اب اس وجہ سے یاتو وہ خرچ ہی نہیں کرتے اور بخل سے کام لیتے ہیں ( جیسا کہ گذشتہ آیت میں ارشاد کیا گیا ہے اور یا اگر وہ خرچ کریں تو ایسی جگہوں پہ کرتے ہیں جہاں سے انہیں ذاتی فائدہ پہنچے( جیسا کہ اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے )۔ اس آیت سے ضمنی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک برا ساتھی انسان کی تقدیر کو تباہ و بر باد کرسکتاہے یہاں تک کہ وہ اسے پستی کے آخری درجہ تک پہنچا دیتا ہے ۔ نیز اس سے یہ بھی نتیجہ کلتا ہے کہ تکبر کرنے والوں کا شیطان سے مستقل تعلق ہے نہ کہ وقتی ۔ کیونکہ انہوں نے شیطان کو دوست اور ساتھی بنا رکھا ہے ۔
وما ذا علیھم لو اٰمنوا باللّہ و انفقوا مما رزقھم اللہ .......
یہاں اس گروہ کی حالت پر اظہار افسوس کے طور پر فرماتا ہے : کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ اس بے راہروی سے باز آجاتے اور خدا اور روز جزا پر ایمان لے آتے اور ان نعتموں میں سے جو خدا تعالیٰ نے ان کے اختیارمیں دی ہیں نیک نیتی کے ساتھ اس کے بندوں کو دیتے اور اس طر ح اپنے لئے دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کرتے۔ اب وہ کیوں اپنے طریق کار پر نظر ثانی نہیں کرتے باوجوداس کے کہ یہ راستہ زیادہ صاف ، روشن تر اور مفید ترین ہے اور جو راستہ انہوں نے اختیار کررکھا ہے وہ سوائے نقصان اور بد بختی کے کسی نتیجہ پرنہیں پہنچاتا ۔
و کان اللہ بھم علیماً
ہر حالت میں خدا وند عالم ان کی نیتوں اور اعمال سے باخبر ہے اور اس کے مطابق انہیں جزا یا سزا دیتا ہے ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ گذشتہ آیت جس میں ریا کارانہ مصارف کے متعلق گفتگو تھی وہاں مال کی نسبت خرچ کرنے والوں کی طرف دی گئی تھی اس آیت میں مما رزقھم اللہ کی نسبت ہے ممکن ہے کہ یہ تعبیر کا فرق تین نکات کی طرف اشارہ رہا ہو :
پہلا یہ کہ دکھاوے کے اخر اجات میں مال کے حلا و حرام ہونے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ۔ حالانکہ جومال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے ۔ اس کاحلا ل ہو نا اور ” مما رزقھم اللہ “کامصداق ہونا ضروری ہے ۔
دوسرا یہ کہ جو کچھ دکھلاوے کے لئے خرچ ہوتا ہے وہاں خرچ کرنے والے افراد چونکہ مال کا تعلق اپنی ذات سے سمجھتے ہیںتو وہ تکبر کرنے اور احسان جتانے سے گریز نہیں کرتے حالانکہ جو مال خدا کے لئے خرچ ہو وہاں چونکہ توجہ اس بات کی طرف ہوتی ہے کہ یہ مال خد انے انہیں دیا ہے ۔ اب اگر اس کا حصہ اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو احسان جتانے کا مقام نہیں ۔ اس لئے ہر قسم کے تکبر اور احسان سے پرہیز کرتے ہیں ۔
تیسرا یہ ہے کہ دکھاوے کے خرچ کا تعلق زیادتر مال سے ہوتا ہے ۔ کیونکہ ایسے لوگ روحانی اور معنوی سرمایہ سے بے بہرہ ہوتے ہیں پھر اس میں سے خرچ کیسے کریں ۔ لیکن جو خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کیا جاتا ہے اس کا دامن وسیع ہے ۔ وہ تمام مادی ، راحانی اور باطنی نعمات کو چاہے ان کا تعلق مال، علم ، اجتماعی وجاہت اور حیثیت ہی سے کیوں نہ ہو محیط ہے ۔


۴۰۔إِنَّ اللَّہَ لا یَظْلِمُ مِثْقالَ ذَرَّةٍ وَ إِنْ تَکُ حَسَنَةً یُضاعِفْہا وَ یُؤْتِ مِنْ لَدُنْہُ اٴَجْراً عَظیماً ۔
ترجمہ
۴۰ خدا وند عالم کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگر نیک کام ہو تو اسے کئی گنا کردیتا ہے ( اور اس کے بدلے ) اجرعظیم دیتا ہے ۔

”ذرّة“ کیا چیز ہے دس احکامات اور قواعد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma