”ذرّة“ کیا چیز ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
اس دن ان لوگوں کی کیا حالت ہو گیدکھلاوا اور رضا ئے الٰہی

ذرة اصل میں بہت سی چھوٹی چیونٹی کو کہتے ہیں جو بڑی مشکل سے دکھائی دیتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں غبار کے بہت چھوٹے چھوٹے اجزاء( کے معنی میں ہے ) جو فضا میں معلق ہیں اور تاریک جگہوں کے اندر سورج کی روشنی میں چھوٹے چھوٹے سوراخوں اور روشن دانوں سے ظاہر ہوتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر انسان اپنا ہاتھ مٹی یا سی قسم کی چیز پر رکھ دے اور پھر اپنے ہاتھ پر پھونک مارے تو جو مٹی کے اجزا فضا میں بکھر جائیں گے ان میں سے ہر ایک کو ذرہ کہتے ہیں ۔ لیکن آہستہ آہستہ ہر چگوٹی چیز کو ذرہ کہنے لگے اور آجکل ایٹم کو بھی جو جسم کا کم سے کم جز و ہے ذرہ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ اگر گذشتہ زمانے میں انہیں غبار کے ذرے کہتے تھے تو اس کو بھی یہی وجہ تھی وہ جسم کے بہت ہی چھوٹے چھوٹے اجزا سمجھے جاتے تھے ۔ لیکن آج کی دنیا میں ثابت ہو چکا ہے کہ ایک ” جسم مرکب “ کے چھوٹے سے چھوٹے اجرا سالمے ((MOLECULESاور جسم لبیط کے سب سے چھوٹے اجزا ایٹم (ATOME)ہیں ۔ جو سالموں سے بہت ہی چھوٹے ہیں علمی اصطلاح میں ایٹم اسے کہتے ہیں جو نہ صرف آنکھوں سے نہ دیکھا جاسکتا ہو بلکہ قوی ترین برقی مائیکروسکوپ سے بھی قابل دین نہیں ہے یہ صرف علمی فارملوں اور مخصوص فوٹو گرافیوں کے ذریعے دیکھے جاتے ہیں جو بہت ہی چوٹی چیزوں کو دیکھنے کے لئے بنائے گئے ہیں ۔
مثقال کے معنی وزن اور بھاری پن کے ہیں ۔ تو ” مثقال ذرہ“ سے مراد جسم کا ایک چھوٹے سے چھوٹا مسلم اور محسوس ذرہ ہے اور بوجھ کے معنی میں ہے ۔ آیت مندرجہ بالا کہتی ہے کہ خدا ذرہ بھر وزن کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور نہ صرف یہ کہ ظلم نہیں کرتا بلکہ اگر نیک کام انکام پائے تو اسے کئی گناکردیتا ہے ۔ اور اپنی طرف سے اس کے بدلے میں اجر عظیم دیتا ہے ۔ یہ آیت حقیقت میں بے ایمان اور بخیل افراد سے جن کی حالت گذشتہ آیات میں بیان ہو چکی ہے کہتے ہے کہ یہ سزا ئیں جو تمہیں مل رہی ہیں یہ تو تمہارے اعمال کا نتیجہ ہیں لیکن خدا کی طرف سے تم پر کسی قسم کا ظلم نہیں ہو گا اور اس کے بر عکس اگر تم بخل و کفر کی بجائے خدا کی راہ اختیار کرلیتے تو کئی اجر عظیم کے مستحق قرار پاتے۔
ضمناً توجہ رہے کہ ” ضعف“ یا مضاعف“ کے معنی لغتِ عرب میں اس چیز کے ہیں جس کے برابر یا اس سے چند گنا بڑھا یا جائے ۔ اس لئے زیر نظر آیت اور دوسری آیتوں میں جو یہ ہے کہ خدا کے راستے میں خرچ کرنے والوں کی جزا کبھی دس گنا ہوتی ہے کبھی سات سو گنی یا اس سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں بلکہ ہر صورت میں بندوں پر خدا کا لطف و کرم ظاہر ہوتا ہے۔ وہ ان کے گناہوں کی سزا گناہوں کی مقدار سے زیادہ نہیں دیتا ان کی نیکیوں کی مقدار سے کئی گنا زیادہ دیتا ہے ۔
باقی رہی اس بات کی دلیل کہ خدا ظلم کیوں نہیں کرتا تو وہ واضح ہے کیونکہ ظلمو ستم یا تو جہا لت کی وجہ سے ہوتا ہے یا ضرورت نفسانی کمزوریوں اور نقائص کے سبب سے اب جو ذات تمام چیزوں اور سب لوگوں کے متعلق علم رکھتی ہے اور سب سے بے نیاز ہے اور کسی قسم کی کمی اور نقص اس کی ذات اقدس میں نہیں ہے ، اس کے لئے ظلم کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔
بلکہ وہ باوجود قدرت کے ، علیم وحکیم ہونے کی بناپر ظلم نہیں کرتا ، ہر وہ چیز کو اس وسیع و عریض دنیا میں اپنی جگہ بر قرار رکھتا ہے اور ہر وہ شخص کے ساتھ اس کی لیاقت اور اس کے اعمال و کردار کے مطابق سلوک کرتا ہے ۔


۴۱۔فَکَیْفَ إِذا جِئْنا مِنْ کُلِّ اٴُمَّةٍ بِشَہیدٍ وَ جِئْنا بِکَ عَلی ہؤُلاء ِ شَہیداً۔
۴۲۔یَوْمَئِذٍ یَوَدُّ الَّذینَ کَفَرُوا وَ عَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّی بِہِمُ الْاٴَرْضُ وَ لا یَکْتُمُونَ اللَّہَ حَدیثاً ۔

ترجمہ
۴۱۔ اس دن ان کی کیا حالت ہو ۔ جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ ان کے اعمال پر لائیں گے اور تجھے ان کا گواہ بناکر لائیں گے ۔
۴۲۔ اس دن وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے اور پیغمبر کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑےہوئے یہ تمنا کریں گے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ( وہ مٹی ہوتے اور) ان کی خاک زمین کی سطح سے ملی ہوتی( اور وہ بالکل محو خاموش ہوجاتے اور اس دن ( سب گواہوں کے ہوتے ہوئے) خدا سے کوئی بات نہ چھپاسکیں گے ۔

 

اس دن ان لوگوں کی کیا حالت ہو گیدکھلاوا اور رضا ئے الٰہی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma