اولوالامر کون ہیں ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
ایک قابل توجہ بات رہبری کے بارے میں بحث

اس بارے میں مفسرین اسلام میں بہت اختلاف ہے جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے :
۱۔ اہل سنت کے کچھ مفسرین کا نظریہ ہے کہ اولو الامر سے مراد ہر زمانے اور ہر ماحول سے تعلق رکھنے والے بادشاہ اور صاحبان اقتدار ہیں ۔ وہ اس میں کسی استثنا کے قائل نہیں ہیں ۔ اس نظریے کا نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ہر حکومت کی چاہے وہ کسی شکل میں کیوں نہ ہو پیروی کریں ۔ چاہے وہ تاتاریوں کی حکومت کیوں نہ ہو۔
۲۔ بعض دوسرے مفسرین مثلاً صاحب تفسیر المنار و صاحب تفسیر ظلال القرآن وغیرہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولو الامر سے مراد عام طبقات کے نمائندے ، سربراہ ، حکام ، علماء اور کوائف زندگی کے تمام عہدہ دار ہیں لیکن مطلق طور پر نہیں اور کسی شرط، قید او رپابندی کے بغیر نہیں بلکہ ان کی طاعت کے لئے یہ پابندی اور شرط ہے کہ ان کے احکام اسلام کے مقر رکردہ احکام کے خلاف نہ ہوں ۔
۳۔ بعض دوسرے مفسرین کا اعتقاد ہے کہ اولو الامر سے مراد وہ معنوی اور فکری رہنمائی یعنی علماء ہیں جو عادل ہوں او رکتاب و سنت سے مکمل آگاہی رکھتے ہوں ۔
۴۔ بعض اہل سنت کے مفسرین کا یہ نظریہ ہے کہ اس لفظ سے مراد پہلے چار خلفاء ہیں اور یہ لفظ انہی تک محدود ہے اس وجہ سے دوسرے زمانوں میں اولوالامر نہ ہوگا ۔
۵۔ بعض مفسرین اولوالامر سے مراد اصحاب پیغمبر لیتے ہیں ۔
۶۔ اولو الامر کی تفسیر میں ایک اور احتمال یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ اس سے مراد اسلامی لشکروں کے سپہ سالار ہیں ۔
۷۔ تمام شیعہ مفسرین اس سلسلے میں ایک متفق نظریہ رکھتے ہیں کہ اولو الامر سے مراد ائمہ معصومین(ع) ہیں ۔ جن کو تمام امورِ زندگی میں اسلامی معاشرے کی مادی اور روحانی رہنمائی خدا اور پیغمبر کی طرف سے سپرد کی گئی ہے ۔ ان کے علاوہ یہ لفظ کسی پر صادق نہیں آتا۔ البتہ ایسے لوگ جو ان کی طرف سے کسی مرتبے یا عہدے کے لئے مقرر کئے جائیں اور اسلامی معاشرے کے کسی عہدہ پر فائز ہوں تو معینہ شرائط کے ساتھ ان کی طاعت بھی ضروری ہے ۔ لیکن یہ اس لحاظ سے نہیں کہ وہ اولوالامر ہیں بلکہ اس کی وجہ سے وہ اولوالامر کے نمائندے ہیں ۔ اب مندرجہ بالاتفاسیر کی تحقیق اور مطالعہ کے لئے پوری تن وہی سے توجہ دیتے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ پہلی تفسیر کسی طرح بھی مفہوم آیت اور تعلیمات اسلام کی روح سے مطابقت نہیں رکھتی ممکن نہیں ہے ہر حکومت کی اطاعت و پیروی کسی قید و شرط کے بغیر خدا و رسول کی اطاعت کے ساتھ ملادی جائے۔ اسی بناء پر شیعہ مفسرین کے علاوہ اہل سنت کے بڑے بڑے مفسرین نے بھی اس کی نفی کی ہے ۔
تیسری تفسیر یعنی اولو الامر کی تفسیر کتاب و سنت سے آگاہ علماءِ اہل عادل کے ساتھ کرنا بھی آیت کے مطابق نہیں ہے کیونکہ علماء کی اطاعتبھی کچھ شرائط سے مشروط ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو۔ اس وجہ سے اگر اشتباہ میں پڑجائیں ( چونکہ وہ معصوم نہیں ہیں اس لئے انہیں اشتباہ ہو سکتا ہے )یا اور کسی وجہ سے حق سے منہ موڑ لیں تو اس صورت میں ان کی طاعت ضروری نہیں ہوگی جبکہ آیت اولو الامر کی اطاعتِ مطلق پیغمبر کی طرح لازم قراردے رہی ہے علاوہ ازیں علماء کی طاعت تو ان احکام میں ہے جن کا وہ کتاب و سنت سے استفادہ کرتے ہیں ۔ بنا پر ان کی اطاعت خدا تعالی ٰ اور پیغمبر کی اطاعت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔
چوتھی تفسیر اولو الامر( کو پہلے چار خلفاء تک محدود کردینا) تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ آج دنیائے اسلام میں لفظ اولوالامر کا کوئی مصداق نہیں ہے علاوہ ازیں اس تخصیص کے بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔
پانچویں اور چھٹی تفسیر میں ا س کو صحابہ یا افسرانِ لشکر کے ساتھ مخصوص کرنا، اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔
اہل سنت کے بعض مفسرین جیسے مصر کے مشہور عالم محمد عبدہ اور معروف مفسر فخر الدین کی بعض باتوں کے مطابق اولو الامر کے معنی دو ہیں جنہیں دوسرے نمبر پربیان کیا گیا ہے ، ان کی نظر میں اس کے مجموعی مفہوم میں اسلامی معاشرے کے مختلف طبقوں کے نمائندے ول عالم ہوں یا حاکم اور دوسرے طبقوں کے نمائندے وہ عالم ہو یا حاکم اور دوسرے طبقوں کے نمائندے شامل ہیں ۔ وہ انہیں کچھ شرطوں اور پابند یوں کے ساتھ اولو الامر مانتے ہیں اور ان شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ وہ مسلمان ہوں ۔ جیسا کہ ” منکم “ سے معلوم ہوتا ہے ، ان کا حکم کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو، وہ اپنے اختیار سے حکم دیں نہ کہ مجبوری سے ، وہ مسلمانوں کے مصالح کے مطابق حکم دیں اور صرف انہی مسائل کا حکم دے سکتے ہیں جن میں دخالت کا انہیں حق نہیں ہے نہ کہ عبادات اور ان چیزوں ک اجو اسلام نے مقرر اور معین کردی ہیں ۔ وہ اس مسئلہ کا حکم دینے کا حق رکھتے ہیں جس کے بارے میں نص شرعی نہ ہو ان سب چیزوں کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سب متفقہ طور پر اپنا نظریہ پیش کریں ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ تمام امت یا ان کے سب نمائدے مل کر غلطی نہیں کرسکتے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ام ت اجتماعی طور پر معصوم ہے ۔
ان شرطوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس قسم کے حکم کی طاعت مطلق طور پر ہر قسم کی پابندی کے بغیر رسول اکرم کی اطاعت کی طرح واجب ہوگی ( اس گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ اجماعِ امت حجت ہے ) لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس تفسیر میں بی کئی اشکالات موجود ہیں ۔ کیونکہ اول تو اجتماعی مسائل میں فکر و نظر کا اتفاق بہت ہی کم مواقع پر ہوتا ہے ۔ اس لئے مسلمانوں کے زیادہ تر حالات واقعات میں ہمیشہ بے چینی اور بے اطمینانی رہے گی ۔ اگر اکثریت کے نظریہ کو قبول بھی کرنا چاہیں تو پھریہ اشکال سامنے آئے گا کہ اکثریت کبھی معصوم نہیں ہوتی ۔ اس لئے ان کی طاعت مطلق ہونے کی حیثیت سے لازمی نہ ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ علم اصول میں یہ امر ثابت ہوچکا ہے کہ امام معصوم کا نکال کر تمام امت کے معصوم ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہاس تفسیر کے طرفداروں نے ایک شرط کا ذکر کیا ہے جو یہ ہے کہ ان کا حکم کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو تو اب دیکھان یہ ہے کہ اس بات کی تشخیص کہ یہ حکم کتاب و سنت کے مطابق ہے کہ مخالف ، کون کرے گا یقینا مجتہدین او رکتاب و سنت سے آگاہ علماء ہی ا س کے ذمہ دار ہیں ۔ تو اس تحریر کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ مجتہدین اور علماء کی اجازت کے بغیر اولوالامر کی اطاعت جائز نہیں کیونکہ اہل علم کی طاعت تو اولوالامر کی طاعت سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر ہے اور یہ مفہوم ظاہر بظاہر آیت شریفہ کے مطابق نہیں ہے ۔
یہ صحیح ہے کہ انہوں نے علماء کو بھی اولو الامر کا جزو قرار دیا ہے لیکن حقیقت میں اس تفسیر کے مطابق اہل علم باقی طبقاتی نمائندوں کی نسبت مرجع عالی تر اور ناظر کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ دوسرے کیونکہ علماء اور دانشمند دوسرون کی نسبت یہ بہتر جانتے ہیں کہ کوئی چیز کتاب و سنت کی نظر سے درست ہے یا نہیں ۔ اس بناپر وہ مرجع اعلیٰ ہوں گے ۔ اور یہ مندرجہ بالاتفسیر کے ساتھ موافق نہیں ہے ۔ اس بنا پر مذکورہ تفسیر کئی پہلووٴں سے اشکالات کا سامنا ہے واحد تفسیر مذکورہ اعتراضات کی ضد میں نہیں آسکتی وہ ساتویں تفسیر ہی ہے ( یعنی اولو الامر سے مراد معصوم رہبر اور آئمہ ہیں ) کیونکہ یہ تفسیر اس وجوب ِ اطاعت کے اطلاق کے ساتھ ہے جس کا مندرجہ بالاآیت سے پتہ چلتا ہے ۔ اور یہ اس کے ساتھ سوفی صد موافقت رکھتی ہے کیونکہ مقام” عصمت“ ایسے امام کے ہر خطا ، گناہ اور اشتباہ سے محفوظ ہونے کی گواہی دیتا ہے ۔ اس لئے اس کا ہر حکم فرمانِ پیغمبر کی طرح کسی قید و شرط کے بغیر واجب الاطاعت ہے اور یہ اس امر کی استعداد رکھتا ہے کہ رسول کی اطاعت کا ہم ردیف اور ہم پلہ قرار پائے ۔ یہاں تک کہ ” اطیعوا “ کی تکرار کے بغیر اس کا عطف رسول پر ہو ۔

 

ایک قابل توجہ بات رہبری کے بارے میں بحث
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma