تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
آیات 66 تا 68 سوره نساء

یہاں گذشتہ بحث کی تکمیل کی گئی ہے جو ان لوگوں کے متعلق تھی جو حضرت رسول اکرم (ص) کے عادلانہ فیصلوں پر چیں بہ جبیں ہوتے تھے ۔ گذشتہ امتوں کے تکلیف دہ اور سخت احکام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے : ہم نے کوئی مشکل فرض ان کے کندھوں پر نہیں رکھا۔ اگر ہم گذشتہ امتوں کی طرح(مثلاً یہودی کہ جنہیں ان کی بت پرستی اور گوسالہ پرستی کے بعد حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس عظیم گناہ کے کفارہ میں ایک دوسرے کو قتل کریں یا اپنے عزیز وطن کو چھوڑ کر کہیں باہر جائیں ) انہیں بھی اس قسم کا سخت حکم دیتے تو اس کو کس طرح بجا لاتے یہ تو ایک باغ کی آبیاری کے بارے میں بھی پیغمبر کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے تو پھر یہ دوسری آزمائشوں پر کس طرح پورا اتر سکتے ہیں مسلم ہے کہ انہیں اس قسم کا حکم دیتے کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کریں یا وطن چھوڑ دیں تو بہت کم لوگ اس پر عمل کرے
(وَ لَوْ اٴَنَّا کَتَبْنا عَلَیْہِمْ اٴَنِ اقْتُلُوا اٴَنْفُسَکُمْ اٴَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِیارِکُمْ ما فَعَلُوہُ إِلاَّ قَلیلٌ مِنْہُمْ) ۔
بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ قتل کے لئے آمادگی اور وطن سے نکلنے کی تیاری کئی لحاظ سے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں کیونکہ بدن انسانی روح کا وطن ہے اور ایک اہمیت کا حامل ہے ۔ اس طرح وہ ملک جس میں ہم رہتے ہیں جسم انسانی کے لئے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ اس لئے جسم کے وطن کو چھوڑنا انسان کے لئے بہت مشکل ہے کیونکہ وہ انسان کی پیدا ئش اور رہنے کی جگہ ہے ۔
اس کے بعد فرماتا ہے : اگر وہ خدا و رسول کے پند و نصائح قبول کرلیں تو اس میں خود کا بھی فائدہ ہے اور ان کے ایمان کی تقویت کا سبب بھی ہے
( وَ لَوْ اٴَنَّہُمْ فَعَلُوا ما یُوعَظُونَ بِہِ لَکانَ خَیْراً لَہُمْ وَ اٴَشَدَّ تَثْبیتاً ) ۔
یہ بات قابل غور ہے کہ یہاں خدا وند عالم کے احکام کو وعظ و نصیحت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ احکام ایسے نہیں ہیں جن سے حکم دینے والے ( خدا وند عالم ) کو ذرہ بھر فائدہ پہنچے ۔ بلکہ حقیقت میں وہ ایسی نصیحتیں ہیں جو خود تمہارے نفع میں ہیں ۔
اس لئے بلافاصلہ فرماتا ہے : ان کی اطاعت بھی تمہارے لئے منفعت بخش ہے اور تمہارے ایمان کی تقویت کا موجب بھی ہے ۔ اس نکتے کی طرف توجہ رہے کہ آیت کا آخری حصہ بتا تا ہے کہ جس قدر انسان خدا کے حکم کی اطاعت کی راہ میں قدم بڑھائے اس قدر اس میں اثبات اور استقامت پیدا ہوتی ہے ۔ حقیقت میں خدا کے فرمان کی اطاعت ایک روحانی ورزش ہے جس کا لگاتار عمل جسمانی ورزش کی طرح روز بروز قوت، قدرت،ثبات، اور استحکام میں اضافہ کرتا رہتا ہے اس طرح آہستہ آہستہ انسان ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ کوئی طاقت اس کے ایمان کی قوت پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتی اور نہ اسے دھوکا دے سکتی ہے ۔
اس کے بعد والی آیت میں خدا کے سامنے تسلیم و اطاعت کا تیسرا فائدہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : اس وقت ( علاوہ اس کے جو کچھ بیان کیا جاچکا ہے ) انہیں عظیم اجر و ثواب بھی دیں گے ۔
(وَ إِذاً لَآتَیْناہُمْ مِنْ لَدُنَّا اٴَجْراً عَظیماً ) ۔
زیر نظر آیات میں سے آخری آیت میں چوتھے فائدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم انہیں سیدھی راہ کی ہدایت
وَ لَہَدَیْناہُمْ صِراطاً مُسْتَقیماً ۔


آیات 66 تا 68 سوره نساء
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma