دشمن کے مقابلہ میں جہاد

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
مومنین کو جہاد کے لئے آمادہ کرنابیداری تیار رہنے اور خطرے کے مقابلے میں چوکس

دشمن کے مقابلہ میں جہاد اور تیاری کے عمومی حکم کے بعد کہ جو گذشتہ آیت میں بیان ہوا ہے ، اس آیت میں منافقین کی ایک جماعت کی حالت بتاتے ہوئے اللہ فرماتا ہے : یہ دو چہروں والے افراد جو تمہارے درمیان ہیں پوری کوشش کرتے ہیں کہ حق کی راہ میں لڑنے والوں کی صفوں میں شریک ہونے سے بچ جائیں ۔
(وَإِنَّ مِنْکُمْ ۱
۱ یہ بات توجہ طلب ہے کہ اوپر والی آیت میں خطاب مومنین سے ہے لیکن بات منافقین سے کہی جارہی ہے ، باوجود اس کے کہ ” منکم “ کی تعبیر کےس اتھ انھیں مومنین کا جزو شمار کیا ہے ۔ یہ اس بنا پر ہے کہ منافقین ہمیشہ مومنین کے درمیان ہی رہتے تھے اور ظاہراً انہی میں شمار ہوتے تھے ۔
لَمَنْ لَیُبَطِّئَن۲)
۲لیبطئن مادہ بطئو( بر وزن قطب) چلنے میں کاہلی اور سستی کے معنی میں ہے اور اہل لغت اور مفسرین کی ایک جماعت کے بقول لازم اور متعدی دونوں معنی رکھتا ہے یعنی چلنے میں بھی کاہل اور سست ہیں اور دوسروں کو بھی اس کام میں شریک کرتے ہیں شاید اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ باب تفصیل میں ہے لہٰذا صرف متعدی و الا معنی رکھتا ہے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کبھی اپنے آپ کو اور کبھی دوسرو ں کو کاہلی اور سستی پر ابھارتا ہے ؟
لیکن جب مجاہدین میدان جنگ سے واپس آتے ہیں یا میدان جنگ کی خبریں انھیں ملتی ہیں اگر مسلمانوں کو شکست یا شہادت نصیب ہوئی ہو تو مسرت و انبساط سے کہتے ہیں کہ خدانے ہمیں کتنی بڑی نعمت دی ہے ۔ ہم یہ دلخراش منظر دیکھنے کے لئے ان کے ساتھ نہیں تھے ۔
فَإِنْ اٴَصَابَتْکُمْ مُصِیبَةٌ قَالَ قَدْ اٴَنْعَمَ اللهُ عَلَیَّ إِذْ لَمْ اٴَکُنْ مَعَہُمْ شَہِیدًا۔
لیکن اگر انھیں یہ خبر ملے کہ حقیقی مومنین کامیاب ہوگئے ہیں اور نتیجے میںمال غنیمت ان کے ہاتھ لگا ہے تو یہ منچلے بیگانوں کی طرح حسرت و یاس سے کہتے ہیں کہ کاش ہم بھی مجاہدین کے ساتھ ہوتے اور ہمیں بھی بڑا حصہ ( مال غنیمت کا)ملتا۔ جیسے مومنین سے تو ان کا کوئی ربط ہی نہ ہو ۔
وَلَئِنْ اٴَصَابَکُمْ فَضْلٌ مِنَ اللهِ لَیَقُولَنَّ کَاٴَنْ لَمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُ مَوَدَّةٌ یَالَیْتَنِی کُنتُ مَعَہُمْ فَاٴَفُوزَ فَوْزًا عَظِیمًا۔
اگر چہ اوپر والی آیت میں مال غنیمت کا ذکر نہیں ہوا۔ لیکن واضح ہے کہ جو راہ خدا میں شہادت کو ایک بلا اور مصیبت تصور کرتا ہے اور شہادت کا شعور نہ رکھنے کو خد اکی نعمت تصور کرتا ہے ، اس کے نزدیک صرف مادی اور جنگی غنائم کا حصول عظیم کامیابی اور فتح ہے ۔ یہ دو رخے افراد جن کے متعلق افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر معاشرے میں تھے اور ہیں ، وہ حقیقی مومنین کی کامیابیوں اور شکستوں سے اپنے قیافے فورا ً بدل لیتے ہیں ۔ غم و آلام میں کبھی ان کا ساتھ نہیں دیتے، مصیبت او رمشکل میں ان کے ہم قدم نہیں ہوتے لیکن اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کامیابیوں اور کامرانیوں کی صورت میں انھیں ( مال غنیمت) ملے اور حقیقی مومنین جیسے امتیازات انھیں حاصل ہوں ۔


۷۴۔فَلْیُقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللهِ الَّذِینَ یَشْرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا بِالْآخِرَةِ وَمَنْ یُقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللهِ فَیُقْتَلْ اٴَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیہِ اٴَجْرًا عَظِیمًا۔
ترجمہ
۷۴۔ وہ لوگ جنھوں نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے بیچی ہے انھیں چاہئیے کہ خدا کی راہ میں جنگ کریں اور جو شخص راہ ِ خدا میں جنگ کرے اورقتل ہو جائے یا غالب آجائے تو ہم اسے اجر عظیم دیں گے ۔
تفسیر

مومنین کو جہاد کے لئے آمادہ کرنابیداری تیار رہنے اور خطرے کے مقابلے میں چوکس
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma