چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیر شان ِ نزول

1۔ صرف نماز اور زکوٰة کا تذکرہ کیوں ؟

سب سے پہلے یہ سوال ہوتا ہے کہ تمام احکام ِ سلام میں صرف نماز اور زکوٰة کا کیوں ذکر ہوا ہے حالانکہ احکام اسلامی انہی دو میں منحصر نہےںہیں۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نماز خدا سے وابستہ ہونے اور زکوٰة مخلوق خدا سے رشتہ استوار کرنے کی رمز ہے ۔
لہٰذا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو حکم دیا جائے کہ خدا سے محکم و ابستگی اور بند گانِ خدا سے مضبوط رشتہ استوار کرکے اپنے جسم و جان اور اجتماع و معاشرے کو جہاد کے لئے آمادہ کریں ۔ اصطلاح کے مطابق اپنی تربیت کریں ۔ یہ بات مسلم ہے کہ کسی قسم کا جہاد افراد کی روحانی اور جسمانی آمادگی مستحکم رشتوں کے بغیر شکست سے ہمکنار ہو جائے گا۔ مسلمان نماز اور عبادت خدا کے سایے میں اپنے ایمان کو محکم اور اپنے راحانی جذبہ کی پر ورش کرتا ہے اور ہر قسم کے ایثار اور قربانی کے لئے آمادہ ہوتا ہے اور زکوٰة کے ذریعے اجتماعی فاصلوں کو مٹا تا ہے ۔ زکوٰة ہی کے ذریعے آزمودہ کار افراد اور جنگی سازو سامان مہیا کرنے کے لئے ایک اقتصادی معاونت کرتا ہے اور حکم جہاد کے صادر ہونے پر دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہو جاتا ہے ۔

۲۔ مکہ میں حکم زکوٰة

ہم جانتے ہیں کہ زکوٰة کا قانون مدینہ میں نازل ہوا اور مکہ میں مسلمانوں پر زکوٰة واجب نہیں ہوئی تھی اس کے باوجود یہ کیسے ممکن ہے کہ مندروجہ بالا آیت میں مکہ کے مسلمانوں کی حالت و کیفیت بیان کی جارہی ہو ۔ شیخ طوسی مرحوم نے اس سوال کا جواب تفسیر” تبیان “ میں دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ مندرجہ بالاآیت میں زکوٰة سے مراد مستحب زکوٰة تھی ۔ جوکہ مکہ میں نافذ تھی ۔ یعنی قرآن مسلمانوں کو ( حتی مکہ میں بھی ) حاجت مندوں کی مالی امداد نو مسلم افرادکے لئے ضرورات مہیا کرنے کی طرف راغب کرتا ہے ۔

۳۔ مکہ اور مدینہ میں مختلف لائحہ عمل

مندرجہ بالا آیت میں ضمنی طور پر ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مکہ میں مسلمانوں کا ایک لائحہ عمل تھا اور مدینہ میں دوسرا۔ مکہ کا تیرہ سالہ قیام مسلمانوں کے انسان سازی کا تھا ۔ پیغمبر اکرم نے شب و روز مسلسل کوشش کی کہ انھیں بت پرستی اور زمانہ جاہلیت کے بیہودہ عناصر سے نجات دلا کر اس قسم کے انسان بنائیں جو زندگی کے بڑے حادثات کا مقابلہ کرتے ہوئے استقامت ، پا مردی اور ایثار کا مظاہرہ کریں اگر مکہ کے قیام کے زمانے میں یہ چیز موجود نہ ہوتی تو مدینہ کے مسلمانوں کو اتنی حیران کن اور پے در پے کامیابیاں نصیب نہ ہوتیں ۔ مکہ کے قیام کا دور مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور تجربہ حاصل کر نے کا دور ہے ۔ اس بنیاد پر قرآن کی ایک سو چودہ سورتوں میں سے تقریباً نوّے سورتیں مکہ میں نازل ہوئیں ۔ ان میں سے زیادہ تر سورتیں عقیدہ، مکتب اور نظر یات کا منبع تھیں لیکن مدینہ کا زمانہ تشکیل حکومت اور ایک مکمل معاشرے کی بنیادیں استوار کرنے کا دور تھا ۔ اس لئے نہ تو مکہ میں جہاد واجب تھا اور نہ ہی زکوٰة ۔ کیونکہ جہاد اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے جیساکہ بیت المال کی تشکیل بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔

 

۷۸۔اٴَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِکُّمْ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مُشَیَّدَةٍ وَإِنْ تُصِبْہُمْ حَسَنَةٌ یَقُولُوا ہَذِہِ مِنْ عِنْدِ اللهِ وَإِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَةٌ یَقُولُوا ہَذِہِ مِنْ عِنْدِکَ قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللهِ فَمَالِ ہَؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَیَکَادُونَ یَفْقَہُونَ حَدِیثًا۔
۷۹۔ مَا اٴَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنْ اللهِ وَمَا اٴَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِکَ وَاٴَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَکَفَی بِاللهِ شَہِیدًا ۔
ترجمہ
۷۸۔ تم جہاں کہیں بھی رہو ، موت تمھیں پالے گی اگر چہ محکم بوجوں میں جار ہو او راگر انھیں ( منافقین کو ) حسنہ ( اور کامیابی) حاصل ہو تو کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ہے اور سیئہ( اور شکست) سے دوچار ہوں تو کہتے ہیں یہ تمہاری طرف سے ہے کہہ دو کہ سب اللہ کی طرف سے ہیں ۔ پس یہ گروہ کیوں تیار نہیں ہوتا کہ حقائق کا ادراک کرے ۔
۷۹۔ جو نیکیاں تجھ پر پہنچتی ہیں وہ خدا کی طرف سے ہیں اور جو برائی تجھے پہنچتی ہے وہ خود تیری طرف سے ہے اور ہم نے تجھے لوگوںکے لئے رسول بناکر بھبیجا ہے اور اس بارے میں خدا کی گواہی کافی ہے ۔

 

تفسیر شان ِ نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma