شان نزول

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیرتفسیر

بعض مفسر ین نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ مکہ کے کچھ لوگ بظاہر مسلمان تھے لیکن حقیقت میں منافقین کی صفت میں سے تھے اسی لئے وہ مدینہ کی طرف ہجرت کرنا نہیں چاہتے تھے اور عملی طور پر بت پرستوں کی خیر خواہ او رمدد گار تھے، لیکن آخر کارمکہ کو چھوڑ نے پر مجبور ہو گئے ( تاکہ وہ مدینہ کے قریب آجائیں اور شاید اپنی خصوصی حیثیت کی وجہ سے جاسوسی کے مقصد کے لئے انھوں نے ہجرت کی ہو)اور وہ خوش تھے کہ انھیں مسلمان اپنے میںسے سمجھتے ہیں لہٰذا ان کا خیال تھا کہ مدینہ میں داخل ہو نا ان کے لئے قدرتی طور پر کو ئی مشکل پید انہیں کرے گا ،مسلمانوں کو اس بات کا پتہ چل گیا لیکن بہت جلد منافقین سے سلوک کے بارے میں مسلمانوں میں اختلافرائے پیدا ہو گیا ایک گروہ کا نظریہ تھا کہ ان کو دھتکا ر دیا جائے کیونکہ حقیقت میں یہ دشمنان اسلام کے مدد گار ہیں لیکن کچھ مسلمان ظاہر بین اور سادہ لوح تھے وہ اس کے مخالف تھے اور کہتے تھے کہ ہم کس طرح ایسے لوگوں سے محاذ آرائی کریں جو تو حید اور رسالت کی گواہی دیتے ہیںاور صرف ہجرت نہ کرنے کے جرم میں ان کے خون کو مباح اور حلال قرار دیں ۔ اس پر درج بالا آیت نازل ہو ئی جس میں دوسرے گروہ کو اس غلط فہمی پر علامت کی گئی اور پھر ان کی رہنمائی بھی کی گئی ۔ ۱

تفسیر

مندرجہ بالا شانِ نزول کی طرف توجہ کرنے سے اس آیت اور بعد والی آیت کا منافقین سے متعلق گذشتہ آیات سے ربط مکمل طور پر واضح ہوتا ہے آیت کی ابتدا میں میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے : منافقین کے بارے میں کیوں بٹ گئے ہو اور تم میں سے ہر ایک جدا فیصلہ کرتا ہے ۔( فما لکم فی المنافقین فئتین ) ۔ ۲
یعنی یہ افرادجو ہجرت نہ کرنے اور مشرکین کے شریک کا ر رہنے اور مجاہدین ِ اسلام کی صف میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے نفاق کو ظاہر کر چکے ہیں ان کے اعمال اور انجام کے بارے میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہئیے ۔ یہ بات مسلم ہے کہ یہ لوگ اول درجہ کے منافقین ہیں تو پھر بعض لوگ کیوں ان کے اظہار توحید اور خدا پر ایمان لانے کے دعوی ٰ سے دھکا کھاتے ہیں اور ان کی شفاعت و شفارش کرتے ہیں جبکہ گذشتہ آیات میں بتا یا جا چکا ہے کہ ( من یشفع شفاعة سیئة یکن لہ کفل منھا )اوراس طرح وہ اپنے آپ کو ان کے برے انجام میں کیوں شریک کرتے ہیں ۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے ۔ منافقین کے اس گروہ سے ان کے برے اور شرمناک اعمال کی وجہ سے خدا نے اپنی حمایت اور توفیق منقطع کر لی ہے اور منصوبے مکمل طور پر ناکام کردیئے ہیں اور ان کی حالت ایسی ہے جسیے کوئی شخص پاوٴں پر کھڑا ہونے کی بجائے سر کے بل کھڑا ہو ( واللہ ارکسھم بما کسبوا )۱
۱ارکسھم رکس (بر وزن مکث) کے مادہ سے کسی چیز کو اوندھا کرنے کے معنی میں ہے اور بعض پھیر نے کے بھی معنی لیتے ہیں ۔
ضمنی طورپر ” بما کسبوا “ معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت ، سعادت ، اور نجات کے راستے سے ہٹ جانا انسان کے خود اس کے اعمال کا نتیجہ ہے اور اگر اس عمل کو خدا سے نسبت دی جائے تو وہ اس وجہ سے ہے کہ خدا حکیم ہے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق سزا دیتا ہے اور لیا قت و اہلیت کی مناسبت سے اسے جزا بھی دے گا ۔ آیت کے آخر میں سادہ لوح افراد کو ، جو منافقین کے اس گروہ کی حمایت کرتے ہیں خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے : کیا تم چاہتے ہوکہ ان لوگوں کو جنھیں خد انے ان کے برے اعمال کی وجہ سے ہدایت سے محروم کردیا ہے ہدایت کرو حالانکہ یہ لوگ ہدایت کے قابل نہیں ہیں
( اٴَ تُریدُونَ اٴَنْ تَہْدُوا مَنْ اٴَضَلَّ اللَّہُ وَ مَنْ یُضْلِلِ اللَّہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہُ سَبیلاً) ۔
کیونکہ یہ تو خدا کی انمٹ سنت ہے کہ کسی شخص کے اعمال کے اثرات اس سے جبر نہیں ہو ں گے تو تم یہ توقع کیوں رکھتے ہو کہ وہ افراد جن کی نیت صحیح نہیں اور جن کے دلوں میں نفاق بھرا ہوا ہے او رجو عملاًخدا کے دشمنوں کی حمایت کرتے ہیں انھیں ہدایت نصیب ہوگی یہ تو بے جا اور غیر منطقی توقع ہے ۔ 3
  ۸۹۔وَدُّوا لَوْ تَکْفُرُونَ کَما کَفَرُوا فَتَکُونُونَ سَواء ً فَلا تَتَّخِذُوا مِنْہُمْ اٴَوْلِیاء َ حَتَّی یُہاجِرُوا فی سَبیلِ اللَّہِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوہُمْ وَ اقْتُلُوہُمْ حَیْثُ وَجَدْتُمُوہُمْ وَ لا تَتَّخِذُوا مِنْہُمْ وَلِیًّا وَ لا نَصیراً۔
۸۹۔ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح کا فر ہو جاوٴاور پھر وہ اور تم ایک دوسرے کے برابر ہو جاوٴ۔ پس ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناوٴ۔ مگر یہ کہ

 ( وہ توبہ کریں اور) خدا کی راہ میں ہجرت کریں ۔ لیکن وہ لوگ جو کام سے منہ موڑلیں

( اور تمہارے خلاف اقدامات جاریرکھیں ) انہیں جہاں پاوٴ قید کرلو اور (ضروری ہو تو ) انھیں قتل کرو اور ان میں سے کسی کو دوست او رمدد گار نہ بناوٴ۔


۱-اس آیت میں اور بعد والی آیات کی اور بھی شان نزول بیان کی گئی ہے انہی میں سے بعض میں اس کو جنگ احد کے واقعہ سے مربوط سمجھا گیا ہے حالانکہ بعد والی آیات، جو ہجرت کی طرف اشارہ کرتی ہیں اس سے مربوط نہیں بلکہ اسی شانِ نزول کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں جس ذکر اوپر ہوا ہے ۔
۲۔ اوپر والے جملے میں حقیقتاً او رلفظ مخفی ہے جو بقیہ جملہ پر توجہ کرنے سے واضح ہوتا ہے اور اصل جملہ یوں بنتا ہے فما لکم تفرقتم فی المنافقین فئتین۔
3 ۔ اس تفسیر کی پہلی جلد میں ہدایت و ضلالت کے بارے میں مفصل بحث آچکی ہے ۔
تفسیرتفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma