قتل عمد کی سزا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
قتل کی اقسام چند اہم نکات

قتل اشتباہ کی سزا بیان کرنے کے بعد اس آیت میں اس شخص کی سزا بیان ہوئی ہے جو جان بوجھ کر کسی با ایمان شخص کو قتل کردے ۔ چونکہ انسان کشی ایک بہت بڑا جرم ہے اور گناہ کبیرہ ہے اور اگر اسے روکا نہ جائے اور اس کا مقابلہ نہ کیا جائے تو امن و امان جو ایک صحیح معاشرے کی اہم ترین شرائط میں سے ہے بالکل ختم ہو جائے گا ۔ قرآن نے مختلف آیات میں اسے اہمیت دی ہے یہاں تک کہ ایک انسان کا قتل روئے زمین کے تمام لوگوں کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے :
من قتل نفساً بغیر نفس اوفساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعاً
جو شخص کسی نفس کو (اگر وہ قاتل نہ ہو یا زمین پرفساد نہ پھیلائے ) قتل کردے گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا ہے ۔
اسی لئے زیربحث آیت میں ان لوگوں کے لئے جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردیں ۔ چار سزائیں اور آخرت کے شدید عذاب کا ( علاوہ قصاص کے جو دنیا وی سزا ہے ) ذکر ہوا ہے ۔
۱۔ خلود یعنی ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا(وَ مَنْ یقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُہُ جَہَنَّمُ خالِداً فیہا) ۔
۲۔ خشم و غضب الہٰی ( و غضب اللہ علیہ ) ۔
۳۔ رحمتِ خدا وندی سے محرومی ( لعنہ ) ۔
۴۔ عذاب عظیم میں مبتلا کیا جانا ( وَ لَعَنَہُ وَ اٴَعَدَّ لَہُ عَذاباً عَظیماً ) ۔
اس طرح قتل عمد کے لئے اس قدر سخت ترین سزا کا ذکر ہوا ہے جس قدر سخت سزا قرآن میں کسی اور چیز کے متعلق بیان نہیں ہوئی اس کے علاوہ قتل عمد کی دنیاوی سزا وہی قصاص ہے جس کی تفصیل جلد اول میں سورہ ٴ بقرہ آیت ۱۷۹ کے ذیل میں بیان ہو چکی ہے ۔
کیا انسانی قتل ابدی سزا کا موجب ہے
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ” خلود“ یعنی ہمیشہ کے لئے سزا تو ان لوگوں کو ملے گی جو ایمان لائے بغیر دنیا سے رخصت ہو جائیں جبکہ قتل عمد کرنے والوں کے لئے ممکن ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہوں اور یہاں تک امکان ہے کہ وہ پشمان ہو کر اس گناہ عظیم سے ( جو ان سے سرزد ہو چکا ہے ) حقیقی توبہ کرلیں اور گذشتہ گناہ کی جس قدر ممکن ہو تلافی کرلیں ۔
۱۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ آیت میں مومن کے قتل سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص کو ایمان لانے کی وجہ سے قتل کرے یا اس کے قتل کو جائز اور مباح قرار دے ۔ جان لینا چاہئیے کہ اس طرح کا قتل ، قاتل کے کفر کا ثبوت ہے اور اس کا لازمہ ابدی اور ہمیشہ کا عذاب ہے ۔
اسی مفہوم کی ایک حدیث حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے ۔۱
۲۔ یہ احتمال بھی ہے کہ صاحب ایمان او ربے گناہ افراد کو قتل کرنے کی وجہ سے انسان بے ایمان ہو کر دنیا سے رخصت ہو اور اسے توبہ کی بھی توفیق نصیب نہ ہو اور اسی وجہ سے وہ ابدی او رہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہوجائے ۔
۳۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خلود سے مراد اس آیت میںبہت طویل عذاب ہو نہ کہ ہمیشہ کا عذاب۔
یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ اصولی طور پر کیا قتل عمد قابل ِ تو بہ ہے ؟
بعض مفسرین اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں اور کہتے ہیںکہ قتل عمد درج بالاآیت کے مطابق بنیادی طور پر قابلِ توجہ نہیں ہے اور چندایک روایات میں بھی جو آیت کے ذیل میں آئی ہے اس معنی کی طرف اشارہ موجود ہے کہ ” لا توبة لہ“ ( اس کی کوئی توبہ نہیں ) لیکن تعلیمات اسلام کی روح اور عظیم ہادیانِ حق کی روایات اور توبہ کے فلسفہ( جو تربیت کی بنیاد اور آیندہ کی زندگی میں گناہ سے محفوظ رہنا ہے ) سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی گناہ ایسا نہیں جو قابلِ توبہ نہ ہو ۔ اگر چہ گناہوں سے توبہ کی بہت سخت اور سنگین شرائط ہیں ۔
قرآن مجید کہتا ہے :
ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذٰلک لمن یشاء ( نساء: ۴۸)
خدا صرف شرک کے گناہ کو نہیں بخشتا لیکن اس کے علاوہ جس کے لئے چاہتا اور مصلحت سمجھتا ہے ، اسے بخش دیتا ہے ۔
یہاں تک کہ اس آیت کے ذیل میں پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ یہ آیت شفاعت اور گناہوں سے بخشش کے متعلق ہے ورنہ تو شرک کا گناہ بھی توبہ کرنے اور توحید و اسلام کی طرف پلٹ آنے سے قابل ِ بخشش ہے جیسا کہ صدر اسلام کے اکثر مسلمان ابتدا میں مشرک تھے اور پھر انھوں نے توبہ کی اور خدا نے ان کے گناہوں کو بخش دیا ۔ اس وجہ سے صرف شرک ایسا گناہ ہے کہ جو توبہ کئے بغیر بخشا نہیں جاسکتا۔ لیکن توبہ کرنے سے تمام گناہ یہاں تک کہ شرک بھی قال ِ بخشش ہے جیسا کہ سورہ زمر کی آیہ ۵۳اور ۵۴ میں ہے :
ان اللّہ یغفر الذنوب جمیعاً انہ ھو الغفورالرحیمو انیبوا الیٰ ربکم و اسلموا لہ ۔
خدا تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے کیونکہ وہ بخشنے والا او رمہر بان ہے خد اکی طرف پلٹ آوٴ اور توبہ کرلو اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرلو ۔
بعض مفسرین نے جو یہ کہا ہے کہ توبہ کے سایہ میں تمام گناہوں کی بخشش سے متعلق آیات، اصطلاح کے مطابق جو آیات عام تخصیص کے زمرے میں آئی ہیں ، صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ ان آیات کی زبان جوکہ گناہ گاروں کو جہاں مناعی کرتی ہیں اور مختلف تاکید ات کے ساتھ ہیں۔ قابل تخصیص نہیں ہے اور اصطلاح کے مطابق تخصیص سے انکار نہیں کرتی ہیں ۔ علاوہ از ین اگر واقعاًوہ شخص جس سے قتل عمد سر زد ہوا ہے مکمل طور پر ہمیشہ کے لئے خدا کی بخشش سے مایوس ہ وجائے ( یہاں تک کہ اپنے برے عمل کی بار بار معافی مانگے اور بہت سے نیک اعمال سے برائی کی تلافی بھی کرے) پھر بھی ہمیشہ کی لعنت اور عذاب میں مبتلا رہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنی باقی ماندہ عمر میں خدا کی عبادت زیادہ کرے ، برے اعمال سے توبہ کرے اور یہاں تک کہ انسانوں کے بار بار قتل سے توبہ کرے ۔ یہ امر جو تعلیمات انبیاء کی روح کے منافی ہے کیونکہ وہ تو نوع بشر کی ہر مر حلہ میں تربیت کے لئے آئے ہیں تاریخ اسلام میں ہے کہ پیغمبراکرم نے خطر ناک قسم کے گناہ گاروں مثلاً حمزہ بن عبد المطلب کے وحشی قاتل تک کو معاف کردیا اور اور اس کی توبہ قبول کرلی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ شرک اور ایمان کی مختلف حالتوں میں قتل اتنا مختلف سمجھا جائے کہ ایک حالت میں تو بخشا جائے اور دوسری حالت میں قابل بخشش نہ ہو ۔ اصولی طور پر جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ ہم کسی گناہ کو شرک سے بڑھ کر نہیں سمجھتے اور ہم جاتنے ہیںکہ یہ گناہ بھی توبہ اور قبول اسلام سے بخشا جا سکتا ہے ۔ اب کس طرح باور کرسکتے ہیںکہ قتل گناہ حقیقی توبہ کے ذریعے بھی قابل بخشش نہ ہو ۔
ہم نے جواوپر کہا ہے اس سے کوئی اشتباہ نہ ہو اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ قتل عمد معمولی اور کم اہمیت کا حامل ہے یا اس سے توبہ بہت آسان ہے بلکہ اس کے برعکس اس گناہ سے حقیقی توبہ بہت ہی مشکل ہے اور یہ اس عمل کی تلافی کی محتاج ہے اور یہ تلافی کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ 2

 


۱- کافی تفسیر عیاشی میں اس آیت کے ذیل میں امام صادق سے اس طرح منقول ہے کہ آپ نے فرمایا من قتل مومناً علی دینہ فذٰلک المتعمد الذی قال اللہ تعالیٰ عز و جل فی کتابہ وَ اٴَعَدَّ لَہُ عَذاباً عَظیماً ۔
2- روایات میں بے گناہ صاحب ایمان افراد کے قتل کی اہمیت کے بارے میں ایسی تعبیرات بیان ہوئی ہیں جو انسان کو جھنجوڑ دیتی ہیں ایک حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
” لزوال الدنیا اھون علی اللہ من قتل امرء مسلم“
” دنیا کا زوال اور ختم ہو جانا خدا کے ہاں ایک مرد مسلمان کے قتل ہونے سے کمتر ہے “ نیز فرماتے ہیں :
” لو ان رجلا قتل بالمشرق و آخر رضی بالمغرب لا شرک فی دمہ“
اگر ایک شخص مشرق میں قتل ہو جائے اور دوسرا مغرب میں ہو اور اس راضی ہو تو وہ اس کے خون میں شریک ہے “ ( المنارج ۵ ص ۲۶۱)

 

قتل کی اقسام چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma