اپنے پیغمبر کی پیروی کرو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
چند قابل توجہ امورمیعادگاہ الٰہی میں بنی اسرائیل کے نمائندوں کا حضور

اپنے پیغمبر کی پیروی کرو

موجودہ آیت دز اصل اس گذشتہ آیت کی تفصیل وتکمیل ہے جس میں ان لوگوں کی صفات بیان کی گئی ہیں جنھیں الله کی وسیع رحمت میسر ہے، یعنی تقویٰ، ادائے زکوٰة اور آیاتِ الٰہی پر ایمان، ان صفات سہ گانہ کو ذدکر کرنے کے بعد، اس آیت میں توضیح کے طور پر کچھ مزید صفات کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ پیغمبر اسلام کی پیروی کرنا ہے کیونکہ خدا پر ایمان لانا، پیغمبر پر ایمان لانے اور ان کی پیروی کرنے سے جدا نہیں ہے، اسی طرح تقویٰ اور زکوٰةبھی رسول الله کی پیروی اور رہبری کے بغیر مکمل نہیں ہے ۔
اس لئے فرمایا گیا ہے: وہ لوگ اس رحمتِ الٰہی میں داخل ہیں جو پرورگارِ عالم کے اس فرستادہ رسول کی پیروی کریں (الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ) ۔
اس کے بعد اس رسول کے متعلق خداوندکریم رسالت کے علاوہ چھ علامتیں بیان فرماتا ہے:
۱۔وہ الله کا پیغمبر ہے(النَّبِیَّ ) ۔
نبی اس شخص کو کہتے ہیں جو خدا کا پیغام بیان کرے اور اس پر وحی نازل ہوتی ہے چاہے اسے دعوت الی الحق اور تبلیغ کرنے اور اس راہ میں قیام کرنے کا حکم بھی ملا ہو۔
درحقیقت رسالت کا درجہ نبوّت سے بالاتر ہے اس بناپر رسالت میں نبوت کا درجہ بھی شامل ہے لیکن چونکہ آیہ مذکورہ مقامِ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی تشریح وتوضیح کرنا چاہتی ہے لہٰذا اس نے دونوں کا مستقلاً ذکر کیا ہے، واقع میں جو معنی لفظ ”رسول“ میں پوشیدہ ہیں اسے مستقل اور واضح طور پر اس کی تحلیل کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے ۔
۲۔ ایسا پیغمبر جس نے کسی سے درس پڑھا اور وہ عام لوگوں میں سے مبعوث ہوا، اس نے سرزمین مکّہ ام القریٰ سے توحید کا حقیقی آفتاب بن کر طلوع کیا ہے(الْاٴُمِّیَّ) ۔
لفظ ”اٴُمِّی“(جو یا تو مادّہٴ ”ام“ جس کے معنی ماں کے ہیں، یا مادّہٴ ”امّت“ جس کے معنی مجمع اور گروہ کے ہیں، سے ماخوذ ہوا ہے) کے بارے میں مفسرین میں بحث ہے، کچھ لوگ اس کے معنی یہ لیتے ہیں کہ اُمّی وہ شخص ہے جس نے کسی سے درس نہ پڑھا ہو یعنی جس حالت میں ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا اسی طرح باقی رہا ہو کسی استاد کے مردسہ میں داخل نہ ہوا ہو۔
بعض نے اس کے یہ معنی لئے ہیں کہ اُمّی وہ ہے جو عام افراد کے گروہ سے نکلا ہو، اشراف ، عیاش اور جبّار طبقہ سے نہ نکلا ہو۔
بعض کا خیال یہ ہے کہ لفظ ”اُمّی“”مکی“ کے مترادف ہے یعنی ام القریٰ (مکہ) کا رہنے والا کیونکہ مکہ کا ایک نام ”امّ القریٰ“ بھی ہے ۔
اسلامی روایات جو مختلف ماخذوں سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں بھی ”اُمّی“بمعنی ”اَن پڑھ“ نہیں ہے بلکہ ان میں سے بعض روایات میں ”اُمّی“ کی تفسیر ”مکی“ سے کی گئی ہے ۔ (۱)
لیکن اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ لفظ ”اُمّی“ سے تینوں مفہوموںکی طرف اشارہ مقصود ہو جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ ایک لفظ کا استعمال چند معنی میں جائز ہے ادبیاتِ عرب میں اس کے بہت سے شواہد ملتے ہیں (پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اُمّی ہونے کے معنی پر اس آیت کی تفسیر کے بعد تفصیلی طور سے روشنی ڈالی جائے گی ۔
۳۔ ”نیز ایسا پیغمبر ہے جس کی صفات، علامتیں اور اس کی حقانیت کی نشانیاں گذشتہ آسمانی کتابوں (توریت وانجیل وغیرہ) میں لوگ پاتے ہیں“ (الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِیلِ) ۔
اس آیت کی تفسیر مکمل ہونے کے بعد ہم اس بارے میں بھی مفصل طور پر بحث کریں گے کہ کتب عہدین (توریت وانجیل) میں حتّیٰ کہ موجودہ تحریف شدہ کتب میں کہاں کہاں ہمارے نبی کی حقانیت کی مختلف بشارتیں اور پیشن گوئیاں پائی جاتی ہیں ۔
۴۔ وہ ایسا پیغمبر ہے جس کی دعوت کا مفہوم عقل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے، وہ ان نیکیوں کی طرف جن کی عقل گواہی دیتی ہے لوگوں کو دعوت دیتا ہے اور بُرے کام جن سے عقل منع کرتی ہے روکتا ہے (یَاٴْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْھَاھُمْ عَنْ الْمُنکَرِ) ۔
۵۔ اس کی دعوت کا مفہوم فطرتِ سلیم سے بھی ہم آہنگ چنانچہ وہ تمام پاک وپاکیزہ چیزوں کو جن کو طبعِ سلیم پسند کرتی ہے لوگوں کے لئے پسند کرتا ہے اور وہ ان کے لئے حلال قرار دیتا ہے اور جو چیز خبیث اور قابلِ نفرت ہے اسے لوگوں پر حرام قرار دیتا ہے (وَیُحِلُّ لَھُمْ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمْ الْخَبَائِثَ) ۔
۶۔ وہ ان جھوٹے نبیوں کی طرح نہیں ہے جن کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ سادہ لوح افراد کو پھانسیں اور ان سے ناجائز فائدہ حاصل کریں، یہ نبی صرف اتنا ہی نہیں کہ ان کے کندھے پر کسی قسم کا بار نہیں رکھتا بلکہ ان کے دوش سے بھاری بوجھ اتارتا ہے اور ان تمام طوق وسلاسل کو ان سے الگ کرتا ہے جنھوں نے بشریت کے ہاتھوں اور پیروں کو (جاہلانہ عقائدہ ورسوم کی زنجیروں سے) جکڑ دیا تھا (وَیَضَعُ عَنْھُمْ إِصْرَھُمْ وَالْاٴَغْلَالَ الَّتِی کَانَتْ عَلَیْھِمْ) ۔ (2)
چونکہ یہ چھ صفات مقامِ رسالت کو ملانے کے بعد سات صفتیں بنتی ہیں، یہ سب رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے دعوے کی روشن دلیلیں ہیں اس لئے فرمایا گیا ہے: جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کے درجہ کو بلند سمجھیں اور تبلیغِ رسالت میں اس کی مدد کریں اور اس آشکار نور (یعنی قرآن مجید) کی پیروی کریں جو اس پر نازل ہوا ہے بلاشبہ ایسے افراد کامیاب ہیں (فَالَّذِینَ آمَنُوا بِہِ وَعَزَّرُوہُ وَنَصَرُوہُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی اٴُنزِلَ مَعَہُ اٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْمُفْلِحُونَ) ۔
”عَزَّرُوہُ “ مادّہٴ ”تعزیر“ سے ہے جس کے معنی اس طرح کی حمایت ومدد کرنے کے ہیں جس میں احترام کی آمیزش بھی ہو، بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی کسی چیز سے منع کرنے اور روکنے کے ہیں، اگر دشمن سے بچایا اور روکا جائے تو اس کا مفہوم مدد کرنے کا ہوگا اور اگر یہ منع کرنا گناہ س ہو تو اس کے معنی سزا اور تنبیہ کرنے کے ہوتے ہیں، اسی بناپر ہلکی سزاؤں کو ”تعزیر“ کہتے ہیں ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں ”اٴُنزِلَ اِلَیہ“ ”اٴُنزِلَ مَعَہُ “(اس کے ساتھ نازل ہوا) آیا ہے جبکہ ہمیں پتہ ہے کہ آنحضرت آسمان سے نازل نہیں ہوئے تھے، لیکن چونکہ آپ کی نبوت ورسالت قرآن کے ساتھ خدا کی جانب سے نازل ہوئی ہے لہٰذا لفظ ”مَعَہُ “ کی تعبیر استعمال کی گئی ہے ۔ (3)


۱۔ مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر نور الثقلین، ج۲، ص۷۸، ۷۹ اور تفسیر روح المعانی، ج۹، ص۷۰ زیر بحث آیت کے ذیل میں.
2 ”اصر“ کے معنی لغت میں نگہداشت کرنے اور محبوس کرنے کے ہیں اس بناپر اس سنگین کام کو جو انسان کو دوسرے کاموں سے روک دے کہتے ”اصر“ ہیںن اگر عہد وپیمان یا کیفر وسزا کو بھی ”اصر“ کہتے ہیں تو ان محدویتوں کی بناپر ہے جو یہ چیزیں انسان کے لئے پیدا کرتی ہے ۔
3۔ تفسیر برہان میں علی بن ابراہیم قمی سے منقول ہے کہ ”النُّورَ الَّذِی اٴُنزِلَ مَعَہُ “ سے مراد حضرت امیر المومنین علیہ السلام ہیں، نیز اس کی تائید ”انا وعلی من نور واحد“سے بھی ہوتی ہے ۔ (مترجم)

 

چند قابل توجہ امورمیعادگاہ الٰہی میں بنی اسرائیل کے نمائندوں کا حضور
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma