پیغمبرکی عالمگیر دعوت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
بنی اسرائیل پر الله کی نعمتوں کی ایک جھلکچند قابل توجہ امور

پیغمبرکی عالمگیر دعوت

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ایک حدیث میں ہے:
کچھ یہودی حضرت رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے عرض کی: اے محمد! کیا تمہی وہ شخص ہو جس نے یہ خیال کیا کہ وہ الله فرستادہ ہے اور حضرت موسیٰ(علیه السلام) کی طرح تم پر وحی نازل ہوتی ہے؟!
حضرت رسول الله نے تھوڑا سکوت کیا اس کے بعد فرمایا:ہاں میں ہوں سیّد اولادِ خاتم، لیکن اس پر فخر نہیں کرتا، میں ہی خاتم الانبیاء، امامِ اتقیاء اور رسول پروردگار عالم ہوں، انھوں نے پوچھا: تم کس کی طرف بھیجے گئے ہو؟ عرب کی طرف یا عجم کی طرف، یا ہماری طرف؟
ان کے سوال کے جواب میں یہ آیہٴ (مذکورہ بالا) نازل ہوئی جس میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ آپ کی رسالت تمام جہانوں کے لئے ہے(۱)
لیکن اس کے باوجود اس آیت کا ربط گذشتہ آیت سے قابل انکار نہیں ہے کیونکہ گذشتہ آیت میں بھی صفاتِ پیغمبر کا تذکرہ کیا گیا تھا اور اس آیت میں بھی صفات پیغمبر کا ذکر ہے ۔
ابتدا میں پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے: ”کہدو! اے لوگو! میں تم سب کی طرف الله کا رسول ہوں“ (قُلْ یَااٴَیُّھَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللهِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا) ۔
یہ آیت بھی دیگر بہت سی قرآنی آیات کی طرح اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت کی رسالت عالمی اور جہانی تھی ۔
اسی طرح سورہٴ سبا کی ۲۸ ویں آیت میں ہے:
<وَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ إِلاَّ کَافَّةً لِلنَّاسِ
ہم نے تمھیں نہیں بھیجا ہے مگر تمام انسانوں کی طرف“
اور سورہٴ انعام کی ۱۹ ویں آیت میں ہے:
<وَاٴُوحِیَ إِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْآنُ لِاٴُنذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ
اس قرآن کی وحی میری طرف اس لئے ہوتی ہے کہ تمھیں اس کے ذریعے ڈراؤں اور ان لوگوں کو ڈراؤں جن تک اس (قرآن) کی آواز پہنچے ۔
اور سورہ فرقان کے شروع میں ہے:
<تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلیٰ عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا
پائبند وبرقرار ہے(2) وہ خدا جس نے اپن بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ تمام جہانوں کے رہنے والوں کو (ان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کے بارے میں ڈارئے ۔
یہ آیتیں نمونے کے طور پر پیش کی گئی ہیں جو اس بات کی گواہ ہیں کہ آپ کی رسالت جہانی تھی، نیز اس کے بارے میں انشاء الله ہم سورہٴ شوریٰ کی آیت ۷ کے ذیل میں مزید بحث کریں گے نیز سورہٴ انعام کی آیت ۹۲ کے ذیل میں بھی ہم اس موضوع پر کافی بحث کر آئے ہیں(3)
اس کے بعد جس خدا کی طرف پیغمبر نے دعوت دی اس کی تین صفتیں بیان ہوتی ہیں:
وہ خدا جس کے علاوہ کوئی دوسرا معبود ایسا موجود نہیں ہے جو پرستش کے لئے سزاوار ہو (لَاإِلَہَ إِلاَّ ھُوَ) ۔
ایسا خدا جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، اور زندگی اور موت کا نظام اسی کے ہاتھ میں ہے (یُحْیِ وَیُمِیتُ) ۔
اس طرح سے یہ آیت ہر اس الوہیت کی نفی کرتی ہے جو آسمانوں اور زمینوں کی خالق نہ ہو، اسی طرح ہر قسم کی بت پرستی، تثلیث مسحیت کی نفی کرتی ہے، نیز اس بات کی بھی مظہر ہے کہ وہ اس بات کی قدر رکھتا ہے کہ سارے جہانوں کے لئے کوئی رسول بھیجے اور وہ روزِ قیامت برپا کرنے کی بھی طاقت رکھتا ہے ۔
آخر میں تمام اہلِ جہان کو دعوت دی گئی ہے کہ: ایمان لے آؤ الله پر اور اس کے اس رسول پر جس نے کسی سے درس نہیں پڑھا اور وہ عام لوگوں کے گروہ میں سے مبعوث ہوا ہے (فَآمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِہِ النَّبِیِّ الْاٴُمِّیِّ) ۔
”ایک ایسا پیغمبر جو صرف دوسرے لوگوں کو ہی ان حقائق کی دعوت نہیں دیتا بلکہ پہلے وہ اپنی بات پر یعنی خدا اور اس کے فرمانوں پر ایمان رکھتا ہے“ (الَّذِی یُؤْمِنُ بِاللهِ وَکَلِمَاتِہِ) ۔
وہ صرف ان آیات کو قبول نہیں کرتا کہ جو اس کے اوپر نازل ہوئی ہیں بلکہ وہ تمام سچّے گذشتہ نبیوں کو بھی مانتا ہے ۔
اس کا اپنے آئین پر ایمان لانا اس کے اعمال وکردار سے صاف آشکار ہے جو اس کی حقانیت پر ایک روشن دلیل ہے کیونکہ کسی کہنے والے کا عمل کافی حد تک اس بات کا مظہر ہے کہ وہ اپنی بات پر خود کتنا ایمان رکھتا ہے، اپنی بات پر بات پر ایمان رکھنا اس کی صداقت کی دلیلوں میں سے ایک ہے، حضرت رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ اپنے احکام کی کتنی لاج رکھتے تھے اور آپ کو اپنی گفتار پر کس قدر یقین وایمان تھا ۔
ہاں ”ایسے پیغمبر کی پیروی، تاکہ ہدایت کا نور تمھارے دلوں میں چمک اٹھے اور تم سعادت کے راستے پر چل پڑو“ (وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُونَ) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تنہا ایمان کافی نہیں ہے بلکہ یہ اس وقت مفید ہے جب نہایت اقلیت میں تھے ان کی تعداد اس قدر کم تھی کی کسی کو یہ گمان نہ ہوتا تھا شاید پیغمبر اسلام ایک آنے والے وقت میں مکّہ پر مسلط ہوسکتے ہیں چہ جائیکہ جزیرة العرب یا دنیا کا ایک حصّہ ان کے زیرِ اقتدار آسکتا ہے ۔
لہٰذا جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پیغمبر اسلام نے پہلے تو صرف مکّہ والوں کے لئے اپنی رسالت کا دعویٰ کیا تھا، پھر جب ان کے مشن نے قوت پکڑی اور لوگ زیادہ سے زیادہ دینِ اسلام اختیار کرنے لگے تو انھیں پورے حجاز پر قبضہ کرنے کی فکر ہوئی پھر اس کے بعد دیگر ممالک کو فتح کرنے کا خیال آیا اور دنیا کے مختلف بادشاہوں کو خط لکھے جانے لگے اور تب انھوں نے اپنے آئین کے عالمی ہونے کا اعلان کیا، ان تمام باتوں کا جواب آیہٴ مذکورہ بالا دے رہی ہے جو مکہ میں نازل ہوئی ہے یہ آیت صاف اعلان کررہی ہے کہ آپ نے اپنی رسالت کے آغاز میں اس کے جہانی اور عالمی ہونے کا اعلان کردیا تھا ۔

 

۱۵۹ وَمِنْ قَوْمِ مُوسیٰ اٴُمَّةٌ یَھْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِہِ یَعْدِلُونَ.
۱۶۰وَقَطَّعْنَاھُمْ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اٴَسْبَاطًا اٴُمَمًا وَاٴَوْحَیْنَا إِلیٰ مُوسیٰ إِذْ اسْتَسْقَاہُ قَوْمُہُ اٴَنْ اضْرِب بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ اٴُنَاسٍ مَشْرَبَھُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْھِمْ الْغَمَامَ وَاٴَنزَلْنَا عَلَیْھِمْ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا اٴَنفُسَھُمْ یَظْلِمُونَ.
ترجمہ
۱۵۹۔ اور قومِ موسیٰ میں سے ایک گروہ حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اور اسی حق کے ساتھ عدالت کرتا ہے ۔
۱۶۰۔ اور ہم نے انھیں بارہ گروہوں میں تقسیم کردیا جس میں سے ہر ایک گروہ (بنی اسرائیل کے خاندانوں کی) ایک شاخ تھا اور جس وقت موسیٰ نے اپنی قوم (جو بیابان میں تشنہ کام تھا) کے لئے پانی مانگا تو ہم نے ان کی طرف وحی نازل کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، ناگہاں اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے، اس طرح کہ ہر گروہ اپنے چشمے کو پہچانتا تھا اور ہم نے بادل کو ان کے اوپر سایہ فگن کیا، اور ہم نے ان پر من وسلویٰ نازل کیا اور ان سے کہا کہ ہم نے جو پاکیزہ روزی تمھیں عطا کی ہے اس میں سے کھاؤ (اور الله کا شکر بجالاؤ لیکن انھوں نے شکر کی بجائے ہماری نافرمانی اور ظلم کیا) لیکن انھوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنی جانوں پر ستم ڈھایا ۔
 

 


۱۔ تفسیر صافی، آیت مذکورہ بالا کے ذیل میں کتاب مجالس کے حوالے سے.
2۔ برکتوں والا ہے(مترجم)
3۔ تفسیر نمونہ، ج۵.
بنی اسرائیل پر الله کی نعمتوں کی ایک جھلکچند قابل توجہ امور
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma