”حطّة“ کیا ہے اور اس کے کیا معنی ہیں؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
ایک عبرت انگیز سرگزشتتفسیر

”حطّة“ کیا ہے اور اس کے کیا معنی ہیں؟

قابل توجہ بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو یہ حکم ملا تھا کہ جب وہ بیت المقدس میں وارد ہوں تو ایک خالص اور واقعی توبہ کے ذریعہ جو لفظ ”حطّہ“ کے اندر مضمر ہے، اپنے دل ودماغ کو گناہوں کی آلائش سے دھوڈالیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں جو بیت المقدس پہنچنے سے پہلے انھوں نے خصوصاً اپنے اس عظیم پیغمبر حضرت موسیٰ(علیه السلام) کو تکلیفیں پہنچائی تھیں ان سب کی خدا سے معافی طلب کریں ۔
کلمہ ”حطّہ“ جو بیت المقدس پہنچنے کے وقت ان لوگوں کا نعرہ تھا ”مسئلتنا حطّة“ کا مخفف تھا جس کے معنی ہیں ”ہم اپنے گناہوں کے جھڑنے کاسوال کرتے ہیں“ کیونکہ ”حطّہ“ کے معنی کسی چیز کے اوپر سے نیچے کی طرف آنے کے ہیں ۔
لیکن اس نعرہ کا مقصد صرف یہ نہ تھا کہ دوسرے نعروں کی طرح یہ بھی صرف اپنی پر آکر رہ جائے اور دل گہرائیوں میں نہ اترے، نہیں،بلکہ مقصد یہ تھا کہ ان کی زبان کی روح اور ان کے تمام ذرّاتِ وجود کی ترجمان ہو لیکن جیسا کہ بعد والی آیت میں آیا ہے ان میں سے بہتوں نے اس اصلاحی نعرہ کو بھی مسخ کردیا اور اسے ایک ناشائستہ شکل دے دی اور اسے مذاق اڑانے کا ذریعہ بنالیا ۔

۱۶۳ وَاسْاٴَلْھُمْ عَنْ الْقَرْیَةِ الَّتِی کَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ یَعْدُونَ فِی السَّبْتِ إِذْ تَاٴْتِیھِمْ حِیتَانُھُمْ یَوْمَ سَبْتِھِمْ شُرَّعًا وَیَوْمَ لَایَسْبِتُونَ لَاتَاٴْتِیھِمْ کَذٰلِکَ نَبْلُوھُمْ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ.
۱۶۴ وَإِذْ قَالَتْ اٴُمَّةٌ مِنْھُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللهُ مُھْلِکُھُمْ اٴَوْ مُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِیدًا قَالُوا مَعْذِرَةً إِلیٰ رَبِّکُمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَّقُونَ.
۱۶۵ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ اٴَنْجَیْنَا الَّذِینَ یَنْھَوْنَ عَنْ السُّوءِ وَاٴَخَذْنَا الَّذِینَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِیسٍ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ.
۱۶۶ فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُھُوا عَنْہُ قُلْنَا لَھُمْ کُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِینَ.
ترجمہ
۱۶۳۔ اور ان سے سوال کرو اس شہر کی سرگزشت کے متعلق جو سمندر کے کنارے پر آباد تھا (اور اس وقت کو یاد کرو جبکہ) وہ ہفتہ کے روز ظاہر ہوتی تھی جو اُن کی چھٹی کا دن تھا) اس کے علاوہ دوسرے روز وہ ان کے پاس نہیں آتی تھیں، اس طرح ہم نے ان کیا آزمائش کی جس کے مقابلے میں وہ نافرمانی کرتے تھے ۔
۱۶۴۔ (اور اس وقت کو یاد کرو) جبکہ ان میں سے ایک گروہ نے یہ کہا کہ تم ان گنہگاروں کو کیوں موعظہ کرتے ہو جنھیں خدا آخرکار ہلاک کرنے والا ہے یا عذاب کرنے والا ہے،شدیدعذاب کے ساتھ، (ان کو اپنے حال پر چھوڑدو یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جائیں) انھوں نے کہا یہ نصیحتیں تمھارے پرورگار کے سامنے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے ہیں، علاوہ ازایں شاید وہ ان کی بناء پر (اپنے گناہوں سے باز آجائیں) اور تقویٰ اختیار کرلیں ۔
۱۶۵۔ لیکن جب انھوں نے ان تمام نصیحتوں کوفراموش کردیا جو انھیں وقتاً فوقتاً دی جاتی رہیں تو ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو (لوگوں کو برائی سے) منع کرتے رہے تھے اور جن لوگوں نے ستم کیا تھا انھیں ان کی نافرمانی کی وجہ سے شدید عذاب میں مبتلا کردیا ۔
۱۶۶۔ جب ان لوگوں نے اس فرمان کے مقابلے میں سرکشی کی جو انھیں دیا گیا تھا تو ہم نے ان سے کہا کہ بندروں کی شکل میں ہوکر دُور ہوجاؤ۔ (۱)


۱۔ اگرچہ اس آیت میں ”دُور ہوجاؤ“ کے معنی میں کوئی لفظ نہیں ہے، لیکن مفردات راغب میں ہے: ”خساٴت الکلب فخساٴ زجرتہ فاٴنزجر“ میں نے کتّے کو ذلت کے ساتھ جھڑکا پس اس نے جھڑا جانا قبول کیا یعنی بھاگ گیا، لہٰذا یہاں پر اُردو میں لازمی معنی یہ ہوں گے کہ:ذلت کی حالت میں بندروں کا شکل میں دور ہوجاؤ۔ (مترجم)
 
ایک عبرت انگیز سرگزشتتفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma