دوزخیوں کی نشانیاں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
چند اہم نکاتایک عالم جو فرعونوں کا خدمتگار ہے

یہ آیات اس بحث کی تکمیل کرتی ہیں جو گذشتہ آیات میں دنیا پرست علماء اور اسی طرح ہدایت اور گمراہی کے عوامل ضمن میں گزری ہے ۔ ان آیات میں لوگوں کو دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر ایک گروہ کی صفات کی وضاحت کی گئی ہے اور وہ ہیں دوزخیوں کا گروہ اور بہشتیوں کا گروہ۔
اوّل دوزخیوں کے لئے پیدا کیا (وَلَقَدْ ذَرَاٴْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ) ۔
”‘ذَرَاٴْنَا‘ ‘ ”ذرء“ (بروزن زرع) یہاں خلقت وآفرینش کے معنی میں ہے ۔ لیکن در اصل پراگندہ اور منتشر کرنے کے معنی آٰا ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے ۔
<تذروہ الریاح
”ہوائیں اسے پراگندہ کرتی ہیں“ (سورہٴ کہف/۴۵)
اور چونکہ موجودات کی پیدائش روئے زمین میں ان کے انتشارار اور پھیلنے کا سبب ہے لہٰذا یہ لفظ خلقت وآفرینش کے معنی بھی آیا ہے ۔
بہرحال یہاں جو اہم اعتراض سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کیونکر یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے بہت سے جن وانس کو دوزخ کے لئے پیدا کیا ۔ جبکہ ایک اور مقام پر ہے کہ:
<وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِی(سورہٴ ذاریات/۵۶)
اس آیت کے مطابق تمام جن وانس خدا پرستش، ترقی اور فرمانبرداری کے لئے پیدا کئے گئے ۔ اسی لئے تو مذہب جبر کے بعض طرفداروں نے اپنے مذہب کے اثبات کے لئے اس آیت سے استدلال کیا ہے جیسے فخرالدین رازی وغیرہ۔
لیکن اگر آیات قرآن کو ایک دوسرے کی روشنی میں غور سے دیکھا جائے اور سطحی نتائج اخذ کیے جائیں تو اس سوال کا جواب خود آیت میںموجود ہے اور دوسری آیات میں تو اس طرح وضاحت کے ساتھ نظر آتا ہے کہ قارئین کے لئے غلط فہمی کی کوئی گناجائش باقی نہیں رہتی ۔ کیونکہ پہلے تو یہ تشریح اس طرح درست ہے کہ مثلاً ایک بڑھئی کہتا ہے کہ جو لکڑیاں صاف ستھری، مضبوط اور صحیح وسالم ہیں انھیں پہلے مصرف میں لاؤںگا اور جو لکڑیاں خراب اور ٹوٹی پھوٹی ہیں انھیں دوسرے کام میں صرف کروں گا تو ظاہر یہ ہوا کہ بڑھئی کے دو مقاصد ہیں ایک حقیقی اور اصلی اور دوسرا ثانوی ۔ اس کا ہدف تو بہترین دروازے، ان پر خوبصورت نق ونگار ار لکڑی کا دیگر سامان تیار کرنا ہے ۔ اور وہ اپنی تمام تر کوشش اس مقصد کے حصول میں صرف کرے ۔ لیکن جب وہ دیکھے گا کہ کچھ لکڑی ناکارہ ہے اور اس کے کام کی نہیں تو مجبوراً اُسے جلانے کے لئے الگ کردے گا ۔ تو یہ ثانوی ہدف ومقصد ہے نہ کہ اصلی (غور کیجئے گا) ۔
اس مثال میں اور ہمارے زیرِ بحث موضوع میں فرق صرف یہ ہے کہ لکڑیوں کا ایک دوسرے سے فرق اختیاری نہیں ہے ۔ لیکن انسانوں کا فرق خود اعمال سے وابستہ ہے اور اُن کے اختیار میں ہے ۔ اس گفتگو کا بہترین ثبوت ہیں جو جہنمی اور بہشتی گروہ کی ہم مندرجہ بالا آیات میں پڑھتے ہیں ۔ جو نشاندہی کرتی ہیں کہ اس گروہ کا سرچشمہ خود انھی کے اعمال ہیں ۔
دوسرے لفظوں میں خدا نے مختلف آیات میں صریحاً بتایا ہے کہ اُس نے سب کو پاک وپاکیزہ خلق فرمایا ہے اور یہ ان کے اختیار میں ہے کہ وہ چاہیں تو نیکی کے راستے پر چلیں اور ترقی پائیں لیکن ایک گروہ اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم کا راستہ اختیار کرتا ہے جو بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے ۔ اور ایک گروہ اپنے اعمال کی بنابر اپنے آپ کو بہشت کے لئے نامزد کرتا ہے ۔ اور اس کا انجام خوش بختی ہے اس کے بعد دوزخی گروہ کی صفات کا خلاصہ تین جملوں میں بیان کیا گیا ہے ۔
پہلا یہ کہ وہ دل تو رکھتے ہیں لیکن ان سے غوررفکر اور ادراک کا کام نہیں لیتے (لَھُمْ قُلُوبٌ لَایَفْقَھُونَ بِھَا) ۔ یہ بات متعدد مقامات پر کہی جاچکی ہے قرآن کی اصطلاح میں روح فکر اور قوتِ عقل کے معنی میں ہے یعنی اس کے باوجود کہ وہ قوت فکر رکھتے ہیں اور چوپاؤں کی طرح بے شعور نہیں پھر بھی اس فضیلت سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور نہ ہی سوچ بچار کرتے ہیں اور خ۔حوادث کے عوامل ونتائج پر غور نہیں کرتے اور اس عظیم بدبختی کے چنگل سے نجات پانے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو برُوئے کار نہیں لاتے ۔
دوسرا یہ کہ روشن اور حقیقت کو دیکھنے والی آنکھیں تو رکھتے ہیں لیکن حقائق پر نگاہ نہیں ڈالتے اور اندھوں کی طرح ان کے قریب سے گزرجاتے ہیں

(وَلَھُمْ اٴَعْیُنٌ لَایُبْصِرُونَ بِھَا) ۔
تیسرا یہ کہ ”صحیح وسالم کان رکھنے باوجود سچائی کی بات نہیں سنتے اور بہروں کی طرح اپنے آپ کو حرفِ حق سننے سے محروم رکھتے ہیں

 (وَلَھُمْ آذَانٌ لَایَسْمَعُونَ بِھَا) ۔
یہ لوگ در حقیقت چوپاؤں کی طرح ہیں کیونکہ چوپاؤں سے انسان کا امتیاز بیدار فکر، چشم بینا اور سننے والے کان کی بناپر ہے افسوس کہ یہ ان سب صلاحیتوں کو گنواچکے ہیں (اٴُوْلٰئِکَ کَالْاٴَنْعَامِ) ۔ بلکہ وہ چوپاؤں سے بھی زیادہ گمراہ اور پست تر ہیں (بَلْ ھُمْ اٴَضَلُّ) ۔
کیونکہ چوپائے تویہ استعداد اور وسائل نہیں رکھتے لیکن عقل سلیم، دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان کی بدولت ہر قسم کی ترقی وسعادت کا امکان رکھتے ہیں ۔ چونکہ اُن کا رجحان ہوس پرستی اور ذلّت کی طرف ہوتا ہے اس لئے وہ اپنی عقل اعلیٰ صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کرتے اور یہیں سے اُن کی بدبختی شروع ہوجاتی ہے ۔ ”وہ غافل اور بے خبر افراد ہیں“۔ اور اسی لئے وہ بے راہ روی کا شکار ہیں (اٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْغَافِلُونَ) ۔
آبِ حیات کا چشمہ اُن کے پاس ہے پھر بھی وہ پیاس کے مارے فریاد کررہے ہیں بھلائی کے دروازے ان کے سامنے کھلے ہوئے ہیں لیکن ان کی طرف نظر اٹھاکر نہیں دیکھتے ۔
مذکورہ بالا بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی بدبختی کو خود دعوت دیتے ہیں اور گراں قدر عقل، آنکھ اور کان جیسی نعمتوں سے فیض نہیں اٹھاتے ۔ یہ نہیں کہ خدا نے اُنھیں جبری طورپر دوزخیوں کی صف میں شامل کردیا ہے ۔
چوپاؤں کی طرح کیوں ہیں
قرآن ِ مجید میں بے خبر غافلین کو بارہا بے شعور چوپایوں اور حیوانات سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ ہوسکتا ہے مویشیوں سے تشبیہ اس لئے دی گئی ہو کہ وہ صرف کھانے پینے، سونے اور نسی شہوات میں لگے رہتے ہیں ۔ بالکل ان اقوام وملل کی طرح جو پڑفریب نعروں کے ذریعے عدالتِ اجتماعی اور قوانین بشری کا آخری مقصد روٹی، پانی اور ایک آسودہ مادی زندگی کا حصول قرار دیتے ہیں ۔ حضرت علی علیہ السلام ”نہج البلاغہ“ میں اس سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں:
”کالبھیمة المربوطة ھمھا علفھا والمرسلة شغلھا تقممھا“
مثل بندھے ہوئے جانور کے جو صرف گھاس کی فکر میں ہے یا دوسرے جانور جو چراگاہ میں چھوڑدیئے گئے ہیں اور اِدھر اُدھر بچا کچھا گھاس اٹھالیتے ہیں ۔ (۱)
بالفاظ دیگر آسودہ حال اور دولت مند گروہ گھر میں پرورش پانے والی بندھی ہوئی بھیڑ بکریوں کی طرح ہے اور جو گروہ خوشحال نہیں وہ ان مویشیوں کی طرح ہے جو بیابان میں دربدر پانی اور گھاس کے پیچھے پھرتے رہتے ہیں لیکن ان دونوں گروہوں کا مقصد شکم سیری کے سوا کچھ نہیں ۔
جو کچھ اوپر کہا گیا ہے ہوسکتا ہے یہ ایک ہی فرد پر صادق آئے یا ایک قوم وملت پر۔ وہ قومیں جنھوں نے اپنی فکر وسوچ کا ناکارہ کردیا ہے اور وہ غیرمہذّب سرگرمیوں میں مصروف ہیں نہ تو وہ اپنی بدبختی کی اصل بنیادوں پر غور روفکر کرتی ہیں اور نہ اپنی ترقی کی بنیادوں پر سوچ بچار کرتی ہیں ۔ ان کے کان سنتے ہیں نہ آنکھیں دیکھتی ہیں تو یہ بھی دوزخی ہیں نہ صرف قیامت کی دوزخ میں ہوںگے بلکہ وہ اس دنیا میں بھی زندگی کی دوزخ میں گرفتار ہیں ۔
بہد والی آیت میں اہلِ بہشت کی وضع وکیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کی صفات بیان کی گئی ہیں ۔ اوّل دوزخیوں کی سف سےباہر نکالنے کے لئے لوگوں کو خدا کے اسماء حسنیٰ پر گہری توجہ دینے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے: خدا کے لئے بہترین نام ہیں اسے انہی کے ساتھ پکارُو

(وَلِلّٰہِ الْاٴَسْمَاءُ الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِھَا) ۔
اسماء حسنیٰ سے مراد پروردگار کی مختلف صفات ہیں جو سب اچھی اور سب کی سب حسنیٰ ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ خداوندعالم ہے، قادر ہے، رازق ہے، عادل ہے، جواد ہے، کریم ہے، رحیم ہے اور اسی طرح اس کی اور بھی بہت سی صفات ہیں ۔
خدا کو ان ناموںکے ساتھ پکارنے سے مراد صرف یہ نہیں کہ ان الفاظ کو ہم اپنی زبان پر جاری کرلیں، مثلاً ہم کہیں یا عالم، یا قادر، یا ”ارحم الراحمین“ بلکہ چاہیے یہ کہ ہم ان صفات کو حتی المقدور اپنے اندر پیدا کریں ۔ خدا کے علم ودانش کا پرتو، اس کی قدرت وتوانائی کی ایک کرن اور اس کی وسیع رحمت کا ایک اہم ذرّہ ہم ہیں اور ہمارے معاشرے میں عمل شکل اختیار کرلے، دوسرے لفظوں میں اس جیسے اوصاف خود میں پیدا کریں اور اس کے اخلاقِ حسنیٰ کو اپنائیں اور اُسے مسعل راہ بنائیں تاکہ اس علم وقدرت اور اسی عدالت ورحمت کے سائے میں ہم اپنے آپ کو اور اس معاشرے کو جس میں زندگی بسرے کررہے ہیں دوزخیوں کی سف سے نکال لیں ۔
اس کے بعد خدا لوگوں کو اس بات سے ڈراتا ہے کہ وہ اُس کے ناموں میں تحریف نہ کریں لہٰذا ارشاد ہوتا ہے: انھیں چھوڑدو جو خدا کے ناموں میں ردّوبدل کرتے ہیں وہ عنقریب اپنے بُرے اعمال کی سزا پائیں گے (وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی اٴَسْمَائِہِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ) ۔
”الحاد“ اصل میں ”لحد“ (بروزن مہد) اس گڑھے کے معنی میں ہے جو ایک ہی طرف ہو اسی بناپر گڑا جو قبر کی ایک طرف ہو اسے لحد کہتے ہیں ۔ اس کے بعد ہر سا کام کو الحاد کہا جانے لگا جو اعدال اور وسط کی حد سے افراط وتفریط کی طرف مائل ہو۔ شرک وبت پرستی پر بھی اسی وجہ سے الحاد کا اطلاق ہوتا ہے ۔
اسماء خدا میں الحاد سے مراد یہ ہے کہ ہم ان کے ان الفاظ اور مطالب کو تبدیل کردیں یا اسے اوصاف کے ساتھ متصف کریں کہ جو خدا کے شایانِ شان نہ ہو۔ عیسائیوں کی طرح جو تین خداؤں کو مانتے ہیں یا یہ کہ خدا کی صفات کو اس کی مخلوق پر منطبق کریں بت پرستوں کی طرح جو بتوں کے ناموں کو خدا کے نام سے اخذ کرتے تھے مثلاً ایک بت کو ”اللات“ دوسرے کو ”العزیٰ“ اور تیسرے کو ”منات“ کہتے تھے جو بالترتیب ”الله“، ”العزیز“ اور ”المنّان“ سے مشتقتھے ۔ یا مثل عیسائیوں کے جو خدا کا نام عیسیٰ اور روح القدس کودیتے ہیں ۔
یا یہ کہ اس کی صفات میں اس طرح ردّوبدل کریں کہ جس کا نتیجہ مخلوقات سے تشبیہ یا صفات کی تعطیل یا اس قسم کی کوئی چیز ہو یا صرف نامک پر اکتفاء کریں بغیر اس کے کہ ان صفات کو اپنے اُوپر یا اپنے معاشرے پر منطبق کریں ۔
آخری آیت میں دو حصّوں کی طرف کہ جو بہشتی گروہ کی بنیادی صفات ہیں، اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان میں سے کہ جنھیں ہم نے خلق کیا ہے ایک امّت اور گروہ ایسا ہے جو لوگوں کو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اور حق کے مطابق حکم کرتا ہے (وَمِمَّنْ خَلَقْنَا اٴُمَّةٌ یَھْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِہِ یَعْدِلُونَ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کے دو واضح پروگرام اور ان کی حکومت حق اور حقیقت کی بنیاد پر قائم ہے ۔

 


۱۔ نہج البلاغہ، خط نمبر۴۵.

 

چند اہم نکاتایک عالم جو فرعونوں کا خدمتگار ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma