تدریجی سزا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
شان نزولچند اہم نکات

اس بحث کے بعد جو گذشتہ آیات میں دوزخیوں کے بارے میں ہوئی تھی ۔ان دو آیات میں خدا کی طرف سے سزا کا ذکر ہے جو ایک سنت کے طور پر بہت سے سرکش ۔گنہگاروں کودی جاتی ہے اور یہ وہی سزا ہے جسے ”عذاب استدراج“ یا ”تدریجی سزا “کہتے ہیں ۔
”استدراج“ قرآن میں دو مواقع پر آیا ہے ۔ ایک زیر نظر آیت میں اور دوسرا سورہٴ ”قلم“ کی آیت ۴۴ میں، دونوں مواقع پر ”استدراج“کا استعمال آیاتِ الٰہی کا انکار کرنے والوں کے لئے ہوا ہے ۔
لغت میں ”استدراج“ کے دومعانی ہیں: ایک یہ کہ کسی چیز کو تدریجاً اور آہستہ آہستہ لینا (کیونکہ یہ لفظ ”درجہ“ سے اخذ کیا ہے جو سیڑھی کے ایک قدم کے معنی میں ہے جس طرح انسان اوپر چڑھنے اور نیچے اتر نے یا عمارت کے نچلے حصّوں سے اوپر کی طرف جاتے ہوئے سیڑھی کے درجوںیا قدموں سے فائدہ اتھاتا ہے اسی طرح جب کسی چیز کو تدریجاً اور مرحلہ بمرحلہ لیں یا گرفتار کریں تو اس عمل کو استدراج کہتے ہیں) استدراج کا دوسرا معنی ہے لپیٹنا اور تہ کرنا ۔ جس طرح کاغذوں کے ایک پلندے کو لپیٹتے ہیں (ان دونوں معانی ایک کلی اور جامع مفہوم ”انجام تدریجی“) کی ہی ترجمانی کرتے ہیں ۔
استدراج کا معنی واضح ہوجانے کے بعد ہم آیت کی تفسیر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں خداوند عالم پہلی آیت میں فرماتا ہے: جنہوں نے ہماری آیات کی تذلیل کی اور انکار کیا تدریجاً اور آہستہ آہستہ اس راستے سے کہ جسے وہ نہیں جانتے ہم سزا کے پھندے میں انھیں گرفتار کرلیں گے اور ان کی زندگی (کی بساط) کو لپیٹ دیں گے ( وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِنْ حَیْثُ لَایَعْلَمُونَ) ۔ دوسری آیت میں تاکید مطلب کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اس طرح نہیں کہ جلد بازی میں ایسے افراد کو ہم فوراً سزا دے دیں بلکہ انھیں ہم کافی مہلت اور وقت دیتے ہیں تاکہ وہ واپس سیدھے راستے پر آجائیں اور ہوش میں آجائیں اور جب وہ نہیں سمجھتے تو انھیں گرفتار کرتے ہیں ( وَاٴُمْلِی لَھُم) ۔ کیونکہ جلد بازی اور تیزی کرنا تو ان لوگوں کا کام ہے جو کافی قدرت نہیں رکھتے ۔ اور انھیں ڈر ہوتا ہے کہ موقع ان کے ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔ ”لیکن میرا طریقہٴ کار قوی ہے اور سزا اس طرح منصوبہ کے مطابق ہوتی ہے کہ کسی شخص میں اس سے فرار کی قدرت نہیں “ (إِنَّ کَیْدِی مَتِینٌ.) ۔ ”متین“ قوی اور شدید کے معنی میں ہے اور اصل میں ”متن“ سے لیا گیا ہے کہ جو اس مضبوط پٹھے کو کہتے ہیں جو پشت پر ہوتا ہے ۔
”کید “اور ”مکر “ہم معانی ہیں اورجس طرح سورہٴ آلِ عمران کی آیت ۵۴(جلد۲)میں بیان کیاگیاہے ”مکر“لغت میں چارہ جوئی ، باز رکھنے اور کسی کے مقصد تک پہنچنے کے معنی میں ہے اور ”تکلیف دہ سازشیں“ والا معنی جو آجکل کی فارسی میں پایا جاتا ہے وہ اس کے عربی مفہوم میں نہیں ہے ۔
”استدراجی سزا“ کے بارے میںکہ جس کی طرف اوپر والی آیت میں اشارہ ہوا ہے اور دوسری آیات قرآن اور احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے توضیح یہ ہے کہ خدا گنہگاروں اور منہ زور سرکشوں کو ایک سنت کے مطابق فوراً سزا نہیں دیتا بلکہ نعمتوں کے روازے ان پر کھول دیتا ہے تو وہ زیادہ سرکشی دکھاتے ہیں خدا کی نعمتوں کو ضرورت سے زیادہ اکٹھا کر لیتے ہیں ۔ اس کے دو مقاصد ہوتے ہیں یا تو یہ نعمتیں ان کی اصلاح اور سیدھے راستے پر آنے کا سبب بن جاتی ہیں اور اس موقع پر ان کی سزا دردناک مرحلہ پر پہنچ جاتی ہے کیونکہ جب وہ خدا کی بے شمار نعمتوں اور عنائتوں میں غرق ہوجاتے ہیں تو خدا ان سے وہ تمام نعمتیں چھین لیتا ہے اور زندگی کی بساط لپیٹ دیتا ہے ایسی سزا بہت ہی سخت ہے ۔
البتہ یہ معنی اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ صرف لفظ استدراج میں پنہان نہیں ہے بلکہ (من حیث لا یعلمون) کی شرط کی طرف متوجہ ہونے سے معلوم ہوتا ہے ۔
بہر حال اس آیت میں تمام گنہگاروں کے لئے تنبیہ ہے کہ وہ عذاب الٰہی کی تاخیر کو اپنی پاکیزگی اور راستی یا پروردگار کی کمزوری پر محمول نہ کریں اور وہ عنایات اور نعمتیں جن میں وہ غرق ہیں انھیں خدا سے اپنے تقرب سے تعبیر نہ کریں ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو کامیابیاں اور نعمتیں انھیںملتی ہیں ۔ پروردگار کی استدراجی سزا کا پیش خیمہ ہوتی ہیں ۔ خدا انھیں اپنی نعمتوں میں محو کردیتا ہے اور انھیں مہلت دیتا ہے انھیں بلند سے بلندتر کرتا ہے لیکن آخر کار انھیں اس طرح زمین پر پٹختا ہے کہ ان کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے ۔ اور ان کے تمام کاروبار زندگی اور تاریخ کو لپیٹ دیتا ہے ۔
امیرالمومنین حضرت علی (علیه السلام) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں ۔
انہُ من وسع علیہ فی ذات یدہ فلم یرہُ ذٰلک استدراجاً فقد امن مخوفا
”وہ شخص کہ جسے خدا بے بہا نعمات اور وسائل دے اور وہ اسے استدراجی سزا نہ سمجھے تو وہ خطرے کی نشانی سے غافل ہے ۔“(۱)
نیز حضرت علی (علیه السلام) سے کتاب ”روضہ کافی“ میں نقل ہوا ہے آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
”ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں کوئی چیز حق سے زیادہ پوشیدہ اور باطل سے زیادہ ظاہر اور خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ بولنے سے زیادہ نہیں ہوگی ۔“
یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:
”اس زمانے میں کچھ افراد ایسے ہوں گے کہ صرف قرآن کی ایک آیت سن کر (اس کی تحریف کریں گے) اور خدا کے دین سے نکل جائیں گے اور ہمیشہ وہ ایک حاکم کے دین کی طرف اور ایک شخص کی دوستی سے دوسرے کی دوستی کی طرف اور ایک حکمران کی اطاعت سے دوسرے حکمرانکی اطاعت کی طرف اور ایک کے عہد و پیمان سے دوسرے کی طرف منتقل ہوتے رہیں گے اور آخر کار ایسے راستے سے کہ جس کی طرف ان کی توجہ نہیں ، پروردگار کی استدراجی سزا میں گرفتار ہوجائیں گے ۔“(2)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
کم من مغرو ر بما قد انعم اللّٰہ علیہ و کم من مستدرج یستر اللّٰہ علیہ و کم من مفتون بثناء الناس علیہ.
”کتنے لوگ ایسے ہیں جو پروردگار کی نعمتوں کی وجہ سے مغرور ہوجاتے ہیں اور کتنے گنہگار ایسے ہیں جن کے گناہوں پر خدا نے پردہ ڈال رکھا ہے لیکن و گناہ کو جاری رکھتے ہوئے سزا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں کہ لوگوں کی خوشامد سے دھوکا کھا جاتے ہیں ۔“(3)
نیز امام جعفر صادق(علیه السلام) سے مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے ارشاد فرمایا:
ھو العبد یذنب الذنب فتجدد لہ لنعمة معہ تلھیة تلک النعمة عن الاستغفار عن ذٰلک الذنب۔
”اس آیت سے مراد گنہگار بندہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے اور خدا اسے اپنی نعمتیں عطا کرتا ہے (کہ شاید وہ سدھر جائے) لیکن وہ اس نعمت کو اپنی اچھائی کے حساب میں ڈال لیتا ہے اور وہ اسے گناہ سے توبہ کرنے کی بجائے غفلت میں ڈال دیتی ہے ۔“(4)

نیز اسی امام (علیه السلام) سے کتاب کافی میں اس طرح نقل ہوا ہے:
ان اللّٰہ اذا اٴراد بعبد خیراً فاذنب ذنباً اتبعہ بنقمة و یذکرہ الا ستغفار و اذا اٴراد بعبد شراً فاذنب ذنبا اتبعہ بنعمة لینسیہ الاستغفار و یتمادی بھا و ھو قولہ عزوجل سنستد رجھم من حیث لا یعلمون بالنعم عند المعاصی ۔ (۴)
”جب خدا کسی بندے کی خیر چاہتا ہے تو جب وہ گناہ کرتا ہے تو (فوراً) اسے سزادے دیتا ہے تاکہ وہ توبہ کو یاد رکھے اور جب کسی بندے کی برائی (اس کے اعمال کے نتیجہ میں) چاہتا ہے تو جب وہ گناہ کرتا ہے تو اسے نعمت عطا کرتا ہے تاکہ وہ استغفار کو بھول جائے اور اس (گناہ) کو جاری رکھے ۔“
اور یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
<سنستدرجہم من حیث لا یعلمون
یعنی نعمتوں کے ذریعہ گناہوں کے وقت تریجاً ایسے طریقے سے کہ جسے وہ نہیں جانتے ہم انھیں سزا میں مبتلا کرتے ہیں ۔

 

۱۸۴ اٴَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوا مَا بِصَاحِبِھِمْ مِنْ جِنَّةٍ إِنْ ھُوَ إِلاَّ نَذِیرٌ مُبِینٌ.
۱۸۵ اٴَوَلَمْ یَنظُرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ وَاٴَنْ عَسیٰ اٴَنْ یَکُونَ قَدْ اقْتَرَبَ اٴَجَلُھُمْ فَبِاٴَیِّ حَدِیثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُونَ.
۱۸۶ مَنْ یُضْلِلْ اللهُ فَلَاھَادِیَ لَہُ وَیَذَرُھُمْ فِی طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُونَ.
ترجمہ
۱۸۴۔ کیا وہ سوچتے نہیں کہ ان کا ہم نشین (پیغمبر خدا) پر کوئی جنون کے آثار نہیں ہیں (تو پھر وہ کس طرح ایسے بے ہودہ الزام اس پر لگاتے ہیں) وہ تو صرف ان کو ڈرانے والا ہے (جو لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے) ۔
۱۸۵۔ کیا وہ آسمان و زمین کی حکومت میں جسے خدانے پیدا کیا ہے (توجہ سے عبرت کی) نظر نہیں ڈالتے (اور کیا اس میں بھی فکر نہیں کرتے کہ) شاید ان کی زندگی ختم ہونے کے قریب ہے ہے (اگر وہ اس واضح آسمانی کتاب پر ایمان نہ لائے) تو اس کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے ۔
۱۸۶۔ جسے خدا (اس کے برے اعمال کی پاداش میں) گمراہ کردے تو پھر کوئی اسے ہدایت کرنے والا نہیں اور خدا انھیں ان کی بغاوت اور سرکشی میں چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ سرگرداں رہیں ۔

  


۱۔ نوالثقلین جلد ۲ صفحہ ۱۰۶.
2۔نورالثقلین جلد ۲ صفحہ ۱۰۶.
3۔نورالثقلین جلد ۲ صفحہ ۱۰۶.
4۔تفسیر برہان جلد ۲ صفحہ ۵۳.

 

شان نزولچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma