شان نزول

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
قیامت کب برپا ہوگی؟تدریجی سزا

مفسرین نے بیان کیا ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم ابھی مکہ میں تھے تو ایک رات آپ صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئے اور لوگوں کو ایک خدا کو ماننے اور اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی ۔ خصوصاً آپ نے تمام قبائل قریش کو پکارا اور انھیں خدا کی سزا سے ڈرایا یہاں تک کہ رات کا کافی حصّہ گزرگیا تو بت پرست کہنے لگے (ان صاحبھم قد جنّ بات لیلا یصوت الی الصباح) ہمارا ساتھی پاگل ہوگیا ہے شام سے لے کر صبح تک پکارتا رہتا ہے اس موقع پر مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی اور انھیں منھ توڑ جواب دیا گیا ۔
باوجودیکہ اس آیت کی مخصوص شان نزول ہے، پھر بھی اس میں چونکہ پیغمبر کا تعارف اور اس کی تخلیق کا مقصد اور دوسری زندگی کے لئے تیاری کی دعوت ہے یہ گذشتہ مباحث سے تعلق رکھتی ہے جو دوزخی اور بہشتی گروہوں کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ۔

تہمت تراشیاں اوذر بہانہ سازیاں

اس آیت میں پہلے پیغمبر پر جنون کے الزام کے بارے میں بت پرستوں کی بے بنیاد بات کا خدا تعالیٰ اس طرح جواب دیتا ہے: کیا وہ اپنی سوچ بوجھ سے کام نہیں لیتے تاکہ جان لیں کہ ان کا ہم نشین (پیغمبر) میں کسی قسم کے جنون کے آثار نہیں (اٴَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوا مَا بِصَاحِبِھِمْ مِنْ جِنَّةٍ) ۔ (۱)
اس طرف اشارہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم ان کے درمیان کوئی اجنبی نہ تھے بلکہ ان کی اپنی اصطلاح میں ”صاحب“ یعنی دوست وہمسر تھے ۔چالیس سال سے زیادہ عرصہ سے ان میں آپ کا آنا جانا تھا، ہمیشہ انھوں نے آپ کے فکر وتدبّر کو دیکھا اور ہمیشہ دانشمندی کے آثار آپ میں مشاہدہ کئے، جو شخص اس دعوت سے پہلے معاشرے کے مدبّر ترین لوگوں میں شمار ہوتا تھا ۔ تو کس طرح انھوں نے اچانک اس پر یہ بہتنان لگادیا ۔ اس قسم کا بیہودہ الزام لگانے سے بہتر نہیں تھا کہ وہ سوچتے کہ ہوسکتا ہے وہ درست ہی کہہ رہا ہو اور دعوت حق کے لئے خدا نے ہی اُسے مامور کیا ہو۔ جس طرح اس پر الزام تراشی کے بعد قرآن کہتا ہے: ”وہ فقط واضح ڈارنے والا ہے جو اپنی قوم کو آنے والے خطرات سے خبردار کرتا ہے“ (إِنْ ھُوَ إِلاَّ نَذِیرٌ مُبِینٌ) ۔ مذکورہ بالا دوسری آیت میں اس بیان کی تکمیل کے لئے عالمِ ہستی، آسمانوں اور زمین کے مطالعہ کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے: ”کیا وہ آسمان وزمین کی حکومت اور اُس مخلوق پر جسے خدا نے پیدا کیا ہے راستی کی نظر نہیں ڈالتے (اٴَوَلَمْ یَنظُرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ) ۔ تاکہ وہ جان لیں کہ اس وسیع عالم کو بنانا اور اس میں حیرت انگیز نظام قائم کرنا فضول نہیں بلکہ اس کا کوئی مقصد تھا اور پیغمبر جو دعوت حق دیتے ہیں وہ در حقیقت اُسی مقصد خلقت کی تکمیل اور انسان کی تربیت وترقی کے مقصد کی ہی ایک کڑی ہے ۔
”مَلَکُوت“ در اصل ”ملک“ سے بنا ہے، جو حکومت اور مالکیت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس میں ”واو“ اور ”ت“ کا اضافہ تاکید اور مبالغہ کے لئے آتا ہے اور عام طور پر عالم ہستی پر خدا کی مکمل حکومت کے لئے بولا جاتا ہے اس عالم ہستی کے بہترین نظام پر نظر ڈالنا جو خدا کے ملک وحکومت کی وسعت رکھتا ہے ایک تو خداپرستی اور حق پر ایمان کو تقویت دیتا ہے ساتھ ہی اس عظیم ومنظم عالم میں ایک اہم مقصد بھی واضح ہوجاتا ہے ۔ دونوں باتیں انسان سے اس بات کا تقاضا کرتی ہیں اور اُسے خدا کے نمائندے اور اس کی رحمت کی جستجو پر ابھارتی ہیں تاکہ انسان اپنے مقصدِ تخلیق کو پورا کرسکے ۔
اس کے بعد اُنھیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے: کیا انھوں نے اس امر پر غور نہیں کیا کہ ہوسکتا ہے کہ ان کی زندگی کی آخری گھڑیاں آپہنچی ہوں اور اگر آج ایمان نہ لائے اور اس پیغمبر کی دعوت کو قبول نہ کیا اور جو قرآن اس پر نازل ہوا ہے اسے ان واضح نشانیوں کے باوجود تسلیم نہ کیا تو اس کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے (وَاٴَنْ عَسیٰ اٴَنْ یَکُونَ قَدْ اقْتَرَبَ اٴَجَلُھُمْ فَبِاٴَیِّ حَدِیثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُونَ) ۔
یعنی پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ان کی عمر جاودانی اور دائمی ہو، مہلت کی گھڑیاں تیزی سے گزررہی ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ کل زندہ ہوگا یا نہیں تو پھر ایسے میں آج اور کل کرنا اور مسائل کو پسِ پشت ڈالنا ہرگز دانشمندانہ کام نہیں ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ قرآن پر باوجود ان سب نشانیوں کے جو خدا کی طرف سے اس میں ہیں، ایمان نہ لائے تو کیا اس سے برتر اور بالاتر کتاب کے انتظار میں ہیں، کیا ممکن ہے کہ وہ کسی دوسری بات اور دعوت پر ایمان لے آئیں گے ۔
جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں زیرِ نظر آیت نے مشرکین کے لئے تمام راستے بند کردیئے ہیں، ایک طرف سے انھیں رسول الله کی اعلانِ رسالت سے قبل کی عقل ودانش کی متوجہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اپ پر جنون کی تہمت لگاکر ان کی دعوت سننے سے فرار نہ کریں، دوسری طرف سے انھیں نظام خلقت، خالق اور مقصدِ خلقت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے، تیسری طرف سے انھیں دنیا کی زندگی کے جلد گزرجانے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اور چوتھی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس طرح کی واضح کتاب پر ایمان نہیں لائے تو کسی چیز پر بھی ایمان نہیں لائیں گے، کیونکہ اس سے بالاتر کا تصوّر نہیں ہوسکتا ۔
آخرکار زیرِ نظر آیات میں سے آخری آیت میں گفتگو کو یوں سمیٹا گیا ہے کہ: جسے خدا اُس کے قبیح اور دائمی بُرے اعمال کی وجہ سے گمراہ کردے اس کے لئے کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے اور خداوندعالم انھیں اس طرح طغیان وسرکشی میں چھوڑدے گا تاکہ وہ حیران وسرگرداں رہیں (مَنْ یُضْلِلْ اللهُ فَلَاھَادِیَ لَہُ وَیَذَرُھُمْ فِی طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُونَ) ۔

 

۱۸۷ یَسْاٴَلُونَکَ عَنْ السَّاعَةِ اٴَیَّانَ مُرْسَاھَا، قُلْ إِنَّمَا عِلْمُھَا عِنْدَ رَبِّی لَایُجَلِّیھَا لِوَقْتِھَا إِلاَّ ھُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ لَاتَاٴْتِیکُمْ إِلاَّ بَغْتَةً یَسْاٴَلُونَکَ کَاٴَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْھَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُھَا عِنْدَ اللهِ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُونَ.
ترجمہ
۱۸۷۔ تجھ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب واقع ہوگی، کہہ دو : اس کا علم میرے پروردگار کو ہے اور اس کے علاوہ کوئی اس وقت کو واضح نہیں کرسکتا (لیکن قیامت کا قیام) آسمانوں اور زمین (تک) میں سخت (اہمیت کا حامل) ہے اور وہ تمھارے تعاقب میں نہیں آئے گی مگر یہ کہ اچانک اور ناگہانی طور پر (پھر وہ) تجھ سے یوں سوال کرتے ہیں گویا تو اس کے وقوع پذیر ہونے کے زمانے سے باخبر ہے ۔ کہہ دو: اس کا علم صرف خدا کے پاس ہے لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے ۔

 



۱۔ جیسا کہ بزرگ اہل لغت نے کہا ہے: ”جنة“ جنون کے معنی میں ہے اور اس کا اصلی معنی پوشش ڈھاپنا اور حائل ہونا ہے گویا جنون کے وقت ایک پردہ عقل کے اوپر پڑجاتا ہے (مزید وضاحت کے لئے جلد پنجم) نمونہ صفحہ ۲۵۷ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
قیامت کب برپا ہوگی؟تدریجی سزا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma