پوشیدہ اسرار صرف خدا جانتا ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
کیا پیغمبر غیب نہیں جانتے تھے؟قیامت کب برپا ہوگی؟

شان نزول

بعض مفسرین نے مثلاً مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں نقل کیا ہے کہ اہل مکہ نے پیغمبر اسلام سے کہا کہ اگر تم خدا سے ارتباط رکھتے ہو تو کیا تمہارا پروردگار آئندہ اجناس کی قیمتوں میں ہونے والی کمی بیشی سے باخبر نہیں کرتا تا کہ اس طرح سے تم اپنے فائدے میں جو کچھ ہو اسے مہیا کرلو اور جو کچھ تمھارے نقصان میں ہو اس سے بچ جاؤ یا پھر وہ تمھیں مختلف علاقوں کی خشک سالی یا سیرابی سے آگاہ نہیں کرتا تاکہ خشک سالی کے دوران پر برکت زمینوں کی طرف کوچ کرجاؤ اس موقع پر زیر نظر آیت نازل ہوئی ۔

پوشیدہ اسرار صرف خدا جانتا ہے

اس آیت کے لئے بھی اگر چہ ایک خاص شان نزول مذکورہے تا ہم گذشتہ آیت سے اس کا ارتباط واضح ہے کیونکہ گذشتہ آیت میں اس سلسلے میں تھی کہ قیامت کے برپا ہونے کا وقت خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور زیر نظر آیت میں علم غیب کی خدا کے علاوہ کسی کے لئے کاملاً نفی کی گئی ہے ۔
پہلے جملے میں پیغمبر اکرم کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے: ان سے کہہ دو کہ اپنے بارے میں میں کسی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر وہ کہ جو خدا چاہے (قُلْ لَااٴَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَاضَرًّا إِلاَّ مَا شَاءَ اللهُ ) ۔
اس میں شک نہیں کہ ہر شخص اپنے لئے نفع حاصل کرسکتا ہے یا ضرر اپنے سے دور کرسکتا ہے لیکن اس کے باوجود جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مندرجہ بالا آیت میں مطلقاً ہر بشر کی اس قدرت کی نفی کی گئی ہے اور یہ اس لئے ہے کہ درحقیقت انسان اپنے کاموں کے لئے اپنی طرف سے کوئی قدرت و طاقت نہیں رکھتا بلکہ تمام قدرتیں خدا کی طرف سے ہیں اور وہی ہے جس نے یہ قدرتیں انسانی اختیار میں دی ہیں ۔
دوسرے لفظوں میں تمام قدرتوں کا مالک اور عالم ہستی میں بالذات صاحب اختیار صرف خدا کی ذات پاک ہے اور باقی سب یہاں تک کہ انبیاء اور ملائکہ بھی اسی سے قدرت حاصل کرتے اور ان کی مالکیت اور قادریت بالغیر ہے الاماشاء اللہ (مگر وہ جو خدا چاہے اور میرے اختیار میں دے دے) یہ بھی اسی مطلب پر گواہ ہے ۔
قرآن مجید کی اور بہت سی آیات میں بھی نفع و نقصان اور سودوزیاں کی غیر خدا سے مالکیت کی نفی کی گئی ہے ۔ اسی بناء پر بتوں اور جو کچھ غیر خدا ہے اس کی پرستش سے منع کیا گیا ہے ۔
سورہٴ فرقان آیہ ۳ میں ہے ۔
<وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِہِ آلِھَةً لَایَخْلُقُونَ شَیْئًا وَھُمْ یُخْلَقُونَ وَلَایَمْلِکُونَ لِاٴَنفُسِھِمْ ضَرًّا وَلَانَفْعًا
انہوں نے خدا کے علاوہ اپنے لئے معبود قرار دے رکھے ہیں، ایسے معبود جو کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں اور اپنے بارے میں سودوزیاں پر اختیار نہیں رکھتے (چہ جائیکہ دوسروں کے بارے میں کچھ کرنے پر قادر ہوں) ۔
ہر مسلمان خدا کے علاوہ کسی کو بھی خالق، رازق اور نفع و نقصان کا مالک نہیں سمجھتا ۔ اسی لئے اگر وہ کسی سے کوئی چیز مانگتا بھی ہے تو یہ حقیقت اس کی نظر میں ہوتی ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ خدا کی طرف سے ہے (غور کیجئے گا) ۔
یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو لوگ انبیاء اور آئمہ کو کسی بھی کام میں وسیلہ قرار دینے کی نفی میں اس آیت کو دستاویز کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسے ایک قسم کا شرک سمجھتے ہیں در اصل اشتباہ کا شکار ہیں، انھوں نے تصور کرلیا ہے کہ پیغمبر اور امام سے توسل کا مفہوم یہ ہے کہ انھیں خدا کے مقابلے میں مستقل اور سودوزیاں کا مالک سمجھا جائے حالانکہ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ پیغمبر اور امام خود سے کچھ نہیں رکھتے بلکہ جو کچھ چاہتے ہیں خدا سے چاہتے ہیں اس حالت میں ان سے توسل یا شفاعت و سفارش چاہنا تو عین توحید اور عین اخلاص ہے ۔ ”الاماشاء اللہ“ میں قرآن نے اسی مفہوم کی طرف اشارہ کیا ہے نیز ”من ذالّذی یشفع عندہٓ الّا باذنہ“ میں ”الا باذنہ“ بھی اسی طرف اشارہ ہے ۔
اس بناء پر دو گروہ توسل کے معاملے میں اشتباہ میں اشتباہ کا شکار ہیں ۔ ایک وہ جو پیغمبر یا امام کے لئے خدا کے مقابلے میں بالذات قدرت اور مستقل دستگاہ کے قائل ہیں اور یہ ایک قسم کا شرک اور بت پرستی ہے اور دوسرے وہ جو انبیاء اور آئمہ سے قدرت بالغیر کی نفی کرتے ہیں اور یہ بھی صریح آیات قرآن سے انحراف ہے ۔ راہِ حق یہ ہے کہ انبیاء اور آئمہ حکم خدا سے اس کے ہاں شفاعت کرتے ہیں اور متوسل ہونے والے کی مشکل کا حل خدا سے چاہتے ہیں ۔
یہ بات بیان کرنے کے بعد قرآن نے ایک اور اہم مسئلے کی نشاندہی کی ہے، یہ مسئلہ در اصل ایک گروہ نے پیغمبر اکرم سے پوچھا تھا جس کے جواب میں قرآن کہتا ہے: ان سے کہہ دو کہ میں غیب اور پوشیدہ اسرار سے آگاہ نہیں ہوں کیونکہ اگر اسرار نہاں سے آگاہ ہوتا تو اپنے لئے بہت سے منافع مہیا کرلیتا اور مجھے کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچتا (وَلَوْ کُنتُ اٴَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِی السُّوءُ)(۱)کیونکہ جو شخص تمام مخفی اسرار سے آگاہ ہو وہ ان چیزوں کوانتخاب کرسکتا ہے جو اس کے لئے نفع بخش ہیں اور جن سے اس کا نقصان ہوسکتا ہے اس سے پرہیز کرے گا ۔
اس کے بعد اپنی رسالت کے حقیقی مقام کو ایک مختصر اور صریح جملے میں بیان فرماتا ہے: میں صرف ایمان لانے والوں کو ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں (إِنْ اٴَنَا إِلاَّ نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ) ۔

 


۱۔در حقیقت زیر نظر آیت میں ”ولا اعلم بالغیب“ کا جملہ محذوف ہے اور بعد والا جملہ اس پر گواہ ہے.
 
کیا پیغمبر غیب نہیں جانتے تھے؟قیامت کب برپا ہوگی؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma