کیا پیغمبر غیب نہیں جانتے تھے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
ایک عظیم نعمت کا کفرانپوشیدہ اسرار صرف خدا جانتا ہے

کچھ لوگ جن کا مطالعہ محدود ہے اور جو کسی ایک آیت کو فقط سطحی طورپر دیکھتے ہیں اور دوسری آیاتِ قرآن کو نگاہ میں نہیں رکھتے بلکہ خود اسی آیت میں موجود تمام قرائن پر توجہ نہیں دیتے، فیصلہ کردیتے ہیں ۔ مندرجہ بالا آیت کو بھی ایسے لوگوں نے انبیاء کرام(علیه السلام) سے علم غیب کی مطقاً نفی کی دلیل سمجھا ہے ۔ حالانکہ یہ آیت پیغمبر سے علم بالذات ومستقل کی نفی کرتی ہے جب کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص اپنے بارے میں اور دوسروں کے بارے میں نفع ونقصان کا مالک ہے ۔
لہٰذا قبل کا جملہ گواہ ہے کہ سود وزیاں کی مالکیت کی نفی یا علم غیب کی نفی سے نفیٴ مطلق مراد نہیں ہے بلکہ ہدف نفیٴ استقلال ہے، دوسرے لفظوں میں پیغمبر اپنی طرف سے کچھ نہیں جانتے تھے بلکہ جو کچھ خدا نے غیب اور اسرار نہاں سے انھیں عطا کیا تھا وہ اسے جانتے تھے، جیسا کہ سورہٴ جن کی آیت ۲۶ اور ۲۷ میں ہے:
<عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَایُظْھِرُ عَلیٰ غَیْبِہِ اٴَحَدًا، إِلاَّ مَنْ ارْتَضَی مِنْ رَسُولٍ
خدا تمام امورِ غیب سے آگاہ ہے اور وہ کسی کو اپنے علم غیب سے آگاہ نہیں کرتا مگر ان رسولوں کو جن سے وہ راضی ہے ۔
اصول طور پر مقام رہبری کی تکمیل کے لئے اور بالخصوص ایک عالمی قیادت کے لئے تمام مادی وروحانی امور میں، بہت سے مسائل سے آگاہی ضروری ہے ۔ قیادت کے اس مرتبے کے لئے بہت سے ایسے امور سے واقفیت ضروری ہے جو دوسرے لوگوں سے پوشیدہ ہیں ۔ ایسے رہبر کے لئے نہ صرف احکام وقوانین کا علم ضروری ہے بلکہ جہان ہستی کے اسرار، انسانی عمارت کے امور اور ماضی ومستقبل کے حوادث کا علم کچھ خدا تعالیٰ اپنے بھیجے ہوئے نمائندوں کوعطا کرتا اور اگر نہ کرے تو ان کی رہبری کی تکمیل نہیں ہوتی ۔
باالفاظ دیگر کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ اسرارِ غیب سے بالکل آگاہ نہ ہوں تو ان کے اقدامات اور گفتگو زمان ومکان میں محدود ہوکر رہ جائیں گے اور ان کا قول وعمل ایک دور اور ایک ماحول میں مقید ہوجائے گا لیکن اگر وہ اسرارِ غیب میں سے ایک حصّہ پر مطلع ہوں تو وہ پروگراموں کی اس طرح تشکیل دیں گے کہ وہ آنے والے اور دوسرے حالات ومقتضیات میں موجود لوگوں کے لئے بھی مفید اور کافی وافی ہوں گے ۔
”غیب کی آگاہی“ کے سلسلے میںمزید توضیح تفسیر نمونہ جلد۵ صفحہ۲۰۶ پر ملاحظہ کیجئے ۔


۱۸۹ھُوَ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِیَسْکُنَ إِلَیْھَا فَلَمَّا تَغَشَّاھَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیفًا فَمَرَّتْ بِہِ فَلَمَّا اٴَثْقَلَتْ دَعَوَا اللهَ رَبَّھُمَا لَئِنْ آتَیْتَنَا صَالِحًا لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِینَ.
۱۹۰ فَلَمَّا آتَاھُمَا صَالِحًا جَعَلَالَہُ شُرَکَاءَ فِیمَا آتَاھُمَا فَتَعَالَی اللهُ عَمَّا یُشْرِکُونَ.
۱۹۱ اٴَیُشْرِکُونَ مَا لَایَخْلُقُ شَیْئًا وَھُمْ یُخْلَقُونَ.
۱۹۲ وَلَایَسْتَطِیعُونَ لَھُمْ نَصْرًا وَلَااٴَنفُسَھُمْ یَنصُرُونَ.
۱۹۳ وَإِنْ تَدْعُوھُمْ إِلَی الْھُدیٰ لَایَتَّبِعُوکُمْ سَوَاءٌ عَلَیْکُمْ اٴَدَعَوْتُمُوھُمْ اٴَمْ اٴَنْتُمْ صَامِتُونَ.
ترجمہ
۱۸۹۔وہ خدا وہ ہے کہ جس نے تمھیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے اور اس کی بیوی کو اس کی جنس (اور نوع) سے قرار دیا ہے تاکہ اس سے سکون حاصل کرے ۔ اس کے بعد وہ اس سے نزدیک ہوا تو وہ ایک ہلکے سے (بوجھ کے ساتھ) حاملہ ہوگئی کہ جس کے ہوتے ہوئے وہ اپنے پروردگار سے دعا کی (کہ انھیں نیک اور صالح فرزند عطا کرے اور عرض کیا) کہ اگر تو نے ہمیں نیک فرزند عطا کیا تو ہم شکرگزاروں میں سے ہوں گے ۔
۱۹۰۔پس جب اس نے انھیں نیک بیٹا عطا دیا (تو انھوں نے دوسرے موجودات کو اس میں موٴثر سمجھا اور) خدا نے انھیں جو نعمت بخشی تھی اس کے لئے شرکاء کے قائل ہوگئے اور جسے اس کا شریک قرار دیا جائے خدا اس سے برتر ہے ۔
۱۹۱۔کیا ایسے موجودات کو اس کا شریک قرار دیتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود مخلوق ہیں ۔
۱۹۲۔اور نہ ان کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنی ہی مدد کرسکتے ہیں ۔
۱۹۳۔اور جب انھیں ہدایت کی طرف دعوت دو تو تمھاری پیروی نہیں کرتے ۔ ان کے لئے اس میںکوئی فرق نہیں، چاہے انھیں دعوت دو یا خاموش رہو۔
 

ایک عظیم نعمت کا کفرانپوشیدہ اسرار صرف خدا جانتا ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma