ان آیات میں مشرکین کے حالات اور طرزِ فکر کے ایک اور پہلو اور ان کے اشتباہ کا جواب دیا گیا ہے ۔ گذشتہ آیت میں سود وزیاں اور علم غیب سے آگاہی کو خدا میں منحصر قرار دیا گیا ہے اور در حقیقت خدا تعالےٰ کی توحید افعالی کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، ، اب یہ آیات گذشتہ آیات کے مضمون کی تکمیل شمار ہوتی ہیں کیونکہ یہ بھی خدا کی توحیدِ افعالی کی طرف اشارہ ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: وہ خدا وہ ہے کہ جس نے تمھیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور اس کی بیوی کو اس کی جنس سے قرار دیا تاکہ اس سے سکون حاصل کرے (ھُوَ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِیَسْکُنَ إِلَیْھَا) ۔
یہ دونوں ایک دوسرے کے پہلو می آرام بخش زندگی گزار رہے تھے ”لیکن جب شوہر نے اپنی بیوی سے جنسی ارتباط کیا تو وہ ہلکے سے بوجھ سے حاملہ ہوگئی، ابتداء میں تو اس حمل سے کوئی مشکل پیدا نہ ہوئی اور حاملہ ہونے کے باوجود اپنے دوسرے کاموں کو جاری رکھے ہوئے تھی (فَلَمَّا تَغَشَّاھَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیفًا فَمَرَّتْ بِہِ) ۔ (۱)
لیکن جوں جوں روز وشب گزرے حمل کا بوجھ بڑھتا گیا یہاں تک کہ اس نے بہت بوجھ محسوس کیا (فَلَمَّا اٴَثْقَلَتْ) ۔ اس وقت وہ دونوں ایک فرزند کے انتظار میں تھے اور ان آرزو تھی کہ خدا انھیں نیک فرزند عطا فرمائے لہٰذا وہ بارگاہ الٰہی کی طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے اپنے پروردگار کو اس طرح پکارا: بارالٰہا! اگر تونے ہمیں صالح اور نیک فذزند عطا کیا تو ہم شکرگزار میں سے ہوں گے (دَعَوَا اللهَ رَبَّھُمَا لَئِنْ آتَیْتَنَا صَالِحًا لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِینَ) ۔لیکن جب خدا نے انھی صحیح وسالم اور باصلاحیت فرزند عطا کیا تو وہ اس نعمت کی عنایت میں خدا کے شرکاء کے قائل ہوگئے لیکن خدا ان کے شرک سے برتر وبالاتر ہے (فَلَمَّا آتَاھُمَا صَالِحًا جَعَلَالَہُ شُرَکَاءَ فِیمَا آتَاھُمَا فَتَعَالَی اللهُ عَمَّا یُشْرِکُونَ) ۔