مومن کی پانچ خصوصیات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
تفسیرچند قابل توجہ نکات

گذشتہ آیت میں مسلمانوں کے درمیان غنائم پر ہونے والی بحث کی مناست سے تقویٰ اور ایمان کی بات آگئی تھی۔ اس کی گفتگو کی تکمیل کے لئے زیر نظر آیات میں سچّے اور حقیقی مومنین کی اور پرمعنی عبارتوںمیں بیان کی گئی ہیں۔ ان آیات میں خدا تعالیٰ نے مومنین کی پانچ امتیازی صفات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جن میں سے تین روحانی اور معنوی پہلو رکھتی ہیں اور دوعلمی پہلو رکھتی ہیں۔
پہلے حصّے میں:احساسِ ذمہ داری،ایمان کا تکامل اور تقاضا، اور توکل شامل ہیں۔
دوسرے حصّے میں: خدا سے ارتباط اور خلقِ خدا سے تعلق اور ربط شامل ہیں۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: مومنین صرف وہ لوگ ہیں کہ جب بھی خدا کانام لیاجائے تو ان کے دل احساسِ مسئولیت سے اس کی بارگاہ میں دھڑکنے لگتے ہیں (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُھُمْ)۔
”وجل“ خوف اور ڈر کی اس کیفیت کو کہتے ہیں جو انسان کو دو میں سے کسی ایک وجہ سے لاحق ہوتی ہے اور وہ یہ کہ انسان میں ذمہ داریوں کے ادراک کے ساتھ یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اُس نے خدا کی طرف سے عائد کردہ لازمی فرائض کو ادا نہیں کیا اور یا یہ کہ انسان کی توجہ خدا کے لامتناہی وجود اور پرہیبت وعظمت مقام کی طرف ہوجاتی ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ کبھی انسان کسی بزرگ شخصیت کو گزرتے دیکھ کر جو واقعاً ہر لحاظ سے باعظمت ہو اس کے مقام سے اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ اور اپنے دل میں اس قدرخوف اور وحشت محسوس کرتا ہے کہ بات کرتے ہوئے اس کی زبان میں لکنت پیدا ہوجاتی ہے یہاں تک کہ بعض اوقات وہ اپنی بات بھول جاتا ہے اگرچہ وہ بزرگ شخص اس سے اور دیگر سب سے انتہائی محبّت اور لگاوٴ رکھتا ہو اور ڈرنے والے سے کوئی غلطی بھی سرزد نہ ہوئی ہو اور اس قسم کا عمل عظمت کے ادراک کا عکس العمل ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
<لَوْ اٴَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْآنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَرَاٴَیْتَہُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَةِ اللهِ
یہ قرآن اگر ہم پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ خوفِ خدا سے پھٹ جاتا۔
( حشر/۲۱)
نیز یہ بھی ارشاد ہے:
<إِنَّمَا یَخْشَی اللهَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ
خدا سے صرف علماء اور عظمت الٰہی سے آگاہ لوگ ہی ڈرتے ہیں۔
(فاطر/۲۸)
لہٰذا آگاہی وعلم اور خوف کے درمیان ہمیشہ کا تعلق ہے، اس بناپر یہ اشتباہ ہوگا اگر ہم خوف کا سرچشمہ صرف ذمہ داریوں کی عدم ادائیگی کو سمجھیں۔
اس کے بعد ان کی دوسری صفت بیان کی گئی ہے: وہ راہِ تکامل میں مسلسل آگے بڑھتے رہتے ہیں اور ایک لحظ بھی آرام نہیں کرتے ”اور جب ان کے سامنے آیاتِ خدا پڑھی جائیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے“ (وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ آیاتُہُ زَادَتْھُمْ إِیمَانًَا)۔
رشد ونمو اور تکامل وارتقاء تمام زندہ موجودات کی خاصیت ہے جس میں نمو اور تکامل نہ ہو تو وہ مردہ ہے یا موت کے کنارے پہنچ چکا ہے۔ سچّے اور زندہ مومنین یہ ایمان رکھتے ہیں کہ جن کی ہستی کا نوبہار پودا آیاتِ خدا کی آبیاری سے سدا شاداب رہتا ہے تازہ یہ تازہ پھل وپھول پیدا کرتا ہے، وہ زندہ نُما مُردوں کی طرح ایک ہی جگہ اور حالت کا شکار نہیں رہتے اور اُکتادینے والی ایک ہی موت کی سی کیفیت میں نہیں رہتے۔ ہر نیا دن آتا ہے تو ان کی فکر، ایمان اور صفات بھی تازہ ہوتی ہیں۔
ان کی تیسری نمایاں صفت یہ ہے کہ وہ صرف اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اسی پر توکل کرتے ہیں (وَعَلیٰ رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُونَ)۔
ان کا افقِ فکر اس قدر بلند ہے کہ وہ کمزور اور ناتواں مخلوق پر بھروسہ کرنے سے انکار کردیتے ہیں چاہے وہ مخلوق ظاہر میں کتنی ہی عظمت رکھتی ہو اور پانی سرچشمہ سے لیتے ہیں اور وہ جو کچھ چاہتے ہیں اور طلب کرتے ہیں عالم ہستی کے بے کراں سمندر ذاتِ پاک پروردگار سے چاہتے ہیں۔ ان کی روحِ عظیم ہے اور ان کی سطح فکر بلند ہے اور ان کا سہارا صرف خدا ہے۔
اشتباہ نہ ہو کہ توکّل کا مفہوم جیسا کہ بعض تحریف کرنے والوں نے خیال کیا ہے کہ یہ نہیں کہ عالمِ اسباب سے آنکھیں بند کرلی جائیں، ہاتھ پر ہاتھ دھرکے بیٹھ جایا جائے اور گوشہ نشین ہوجایا جائے بلکہ اس کا مفہوم ہے خود سازی، بلند نظری اور ایرا غیرا سے عدم وابستگی اور محتاط نظری۔ جہانِ طبیعت اور عالم ہستی کے اسباب سے استفادہ کرنا عین توکّل برخدا ہے ۔چونکہ ان اسباب کی تاثیر منشائے ایزدی اور ارادہٴ الٰہی کے مطابق ہی ہے۔
سچّے مومنین کی ان تین قسم کی روحانی صفات کو بیان کرنے کے بعد قرآن کہتا ہے کہ وہ احساس مسئولیت اور عظمت پروردگار کے احساس کے تحت اور اسی طرح بڑھتے ہوئے ایمان اور توکّل کی بدولت وہ عملاً دو محکم رشتوں کے حامل ہیں۔ ایک ان کا خدا سے مستحکم رابطہ اور دوسرا بندگانِ خدا کے لئے خرچ کرتے ہیں (الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنفِقُونَ)۔
”نماز پڑھنے“ کی بجائے ”قیام نماز“ کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ وہ نہ صرف نماز پڑھتے ہیں بلکہ وہ اس طرح سے عمل کرتے ہیں کہ پروردگار سے یہ رابطہ اسی طرح ہر جگہ قائم رہتا ہے۔
”مِمَّا رَزَقْنَاھُمْ“ (اور ہم نے جو انھیں روزی دی ہے) یہ تعبیر ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے جو تمام ترمادی ومعنوی سرمائے پر محیط ہے وہ نہ صرف اپنے اموال سے بلکہ اپنے علم و دانش سے، اپنے ہوش وفکر، اپنے مقام وحیثیت سے اور اپنے اثر ورسوخ بھی اور ان تمام نعمات سے جو اُن کے اختیار میں ہیں بندگانِ خدا کی خدمت کرتے ہیں۔
محل بحث آخری آیت میں اس طرح سچّے مومنین کے بلند مقام ومرتبہ اور فراواں اجر وثواب کو بیا ن کیا گیا ہے۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: حقیقی مومنین صرف وہی ہیں (اٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا)۔
اس کے بعد ان کے لئے تین اہم جزائیںبیان کی گئی ہیں:
۱۔ وہ اپنے پروردگار کے ہاں اہم درجات کے حامل ہیں (لَھُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ)۔وہ درجات کہ جن کی مقدار معیّن نہیں اور یہی ابہام ان کے غیر معمولی اور بے حد وحساب ہونے پر دلالت کرتا ہے۔(۱)
۲۔ علاوہ ازیں اس کی مغفرت، رحمت اور بخشش ان کے شامل حال ہوگی(وَمَغْفِرَةٌ )۔
۳۔ اور رزقِ کریم ان کے انتظار میں (وَرِزْقٌ کَرِیمٌ)۔ یعنی بے حد وحساب، بے عیب عظیم اور دائمی نعمات ان کی انتظار میں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم مسلمان جو اسلام کا دم بھر تے ہیں اور اپنے آپ کو اسلام اور قرآن کا طلبگار سمجھتے ہیں بعض اوقات نادانی کی وجہ سے اپنی پسماندگی کا ذمہ اسلام اور قرآن پر ڈال دیتے ہیں۔ لیکن اگر ہم صرف انہی چند آیات کو کہ جن میں سچّے مومنین کی صفات بیان کی گئی ہیں اپنی زندگی میں اپنالیں یہ ضعف وکمزوری، زبوں حالی اور اِدھر اُدھر سے وابستگی کو ایمان وتوکّل کے زیر سایہ ترک کردیں، ہر نئے دن میں ایمان اور علم کے نئے مرحلے کی طرف قدم بڑھائیں، ایمان کے سائے میں اپنے معاشرے کی پیش رفت کے لئے صرف کردیں، تو کیا پھر بھی ہماری یہی حالت ہوگی جو آج ہے؟
اس امر کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ایمان کے کئی مرحلے اور درجے ہیں بعض مراحل میں ہوسکتا ہے کہ ایمان اس قدر کمزور ہو کہ عملاً دکھائی نہ دے اور بہت سی آلودگیاں بھی انسان کے ساتھ ہوں لیکن ایک حقیقی راسخ اور محکم ایمان کے نہایت پست مرحلے اور درجے پر ہے۔


۵- کَمَا اٴَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِیقًا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ لَکَارِھُونَ
۶- یُجَادِلُونَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ کَاٴَنَّمَا یُسَاقُونَ إِلَی الْمَوْتِ وَھُمْ یَنظُرُونَ
ترجمہ
۵۔ (بدر کے مالِ غنیمت سے متعلق تم میں سے بعض ناکواری) اسی طرح ہے کہ جیسے خدا نے تجھے تیرے گھر سے حق کے ساتھ باہر (میدان بدر کی طرف) نکالا جبکہ موٴمنین کا ایک گروہ اسے پسند نہیں کرتا تھا (لیکن اس کا انجام ایک واضح کامیابی تھا)۔
۶۔ اگرچہ وہ جانتے تھے کہ یہ فرمانِ خدا ہے پھر بھی وہ تجھ سے مجادلہ کرتے تھے (اور خوف وہراس نے انھیں یوں گھیر رکھا تھا) گویا انھیں موت کی طرف لے جایا رہا ہے اور (گویا وہ اسے اپنی آنکھ سے) دیکھ رہے ہیں۔

تفسیرچند قابل توجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma