مشرک، منافق اور شیطانی وسوسے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
متغیّر نہ ہونے والی ایک سنتجہاد کے بارے میں چھ اور احکام

ان آیات میں گذشتہ آیات کی مناسبت سے جنگ بدر کے ایک اور منظر کی تصویر کشی کی گئی ہے یا پھر یہ آیات گذشتہ آخری آیت کی مناسب سے ہیں کہ جس میں جنگ بدر میں مشرکین کے شیطانی عمل کے بارے میں گفتگو تھی۔
جیسے مرادان حق کو راہ حق میں پروردگار اور اس کے فرشتوں کی تائید حاصل ہوتی ہے اسی طرح باطل کی طرف میلان رکھنے والے اور بداندیش لوگ شیطانی وسوسوں اور گمراہ کن طاغوتی سائبان کے نیچے رہتے ہیں۔
بعض گذشتہ آیات میں مجاہدین بدر کے لئے فرشتوں کی حمایت کی کیفیت اور اس کی تفسیر بیان کی جاچکی ہے۔ یہاں زیر بحث پہلی آیت میں مشرکین کے لئے شیطان کی بد انجام حمایت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے: اور اس دن شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے سامنے آراستہ کیا اور زینت دی تاکہ وہ اپنی کار گردگی پر خوش، پُر جوش اور پُراُمید ہوں (وَإِذْ زَیَّنَ لَھُمْ الشَّیْطَانُ اٴَعْمَالَھُمْ)۔
شیطان کی طرف سے زینت دینا اور آراستہ کرنا اس طرح سے ہے کہ وہ انسان کو شہوات، ہوسنا کیوں اور قبیح و ناپسندیدہ صفات کی تحریک دیتا ہے اور اس طریق سے انسان کے عمل خیال کرتا ہے ”اور انھیں اس طرح سمجھاتا ہے کہ تمہاری اتنی افرادی قوت اور جنگی وسائل کی وجہ سے لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور تم نا قابلِ شکست فوج ہو“ (وَقَالَ لَاغَالِبَ لَکُمْ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ)۔ ”ہلاوہ ازیں میں تمہارا ہمسایہ ہوں اور تمھارے پاس رہتا ہوں“ اور ایک وفادار اور ہمدرد ہمسائے کی طرح ضرورت کے وقت کسی قسم کی حمایت سے دریغ نہیں کروں گا ( وَإِنِّی جَارٌ لَکُمْ)۔
اس جملے کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ لفظ ”جار“ سے مراد ہمسایہ نہیں ہے بلکہ ایسا شخص مراد ہے جو امان اور پناہ دیتا ہے کیونکہ عربوں کی یہ عادت تھی کہ طاقتور افراد اور قبائل بوقتِ ضرورت اپنے دوستوں کو اپنی پناہ میں لے لیتے تھے اور اس موقع پر اپنے تمام وسائل کے ساتھ اس کا دفاع کرتے تھے۔ شیطان نے اپنے مشرک دوستوں کو امان نامہ دیا۔
لیکن جب دونوں لشکر ایک دوسرے سے ٹکڑائے اور فرشتے لشکر توحید کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور اس نے مسلمانوں کی قوت ایمان اور پامردی کا مشاہدہ کیا تو الٹے پاؤں لوٹ گیا اور اس نے پکار کر کہا کہ میں تم سے (یعنی مشرکین سے) بیزار ہوں (فَلَمَّا تَرَائَتْ الْفِئَتَانِ نَکَصَ عَلیٰ عَقِبَیْہِ وَقَالَ إِنِّی بَرِیءٌ مِنْکُمْ)۔اس نے اپنے وحشت زدہ فرار کی دودلیلیں پیش کیں پہلی یہ کہ اس نے کہا: میں ایسی چیز دیکھ رہا ہوںجو تم نہیں دیکھ رہے (إِنِّی اٴَریٰ مَا لَاتَرَوْنَ)۔ میں مسلمانوں کے ان پر جلال با ایمان چہروں پر کامیابی کے واضح آثار دیکھ رہا ہوں، ان میں الٰہی حمایت، غیبی امداد اور فرشتوں کی کمک کے آثار مشاہدہ کررہا ہوں اور اصولی طور پر جہاں پروردگار کی خاص مدد اور غیبی قوتوں کی کمک کارِ فرما ہو میں وہاں سے فرار ہی اختیار کروں گا۔
دو سری دلیل پیش کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ”میں اس منظر میں پروردگار کی دردناک سزا سے ڈرتا ہوں‘ اور اسے اپنے نزدیک دیکھتا ہوں (إِنِّی اٴَخَافُ اللهَ)۔
خدا کی سزا کوئی معمولی سی بات نہیں کہ جس کا سامنا کیا جاسکے بلکہ ”اللہ کی سزا شدید اور سخت ہے“ (وَاللهُ شَدِیدُ الْعِقَابِ)۔
شیطان وسوسے ڈالتا ہے یا بہروپ اختیار کرتا ہے؟
اس سلسلے میں جنگ بدر کے موقع پر شیطان نے مشرکین کے دل میں کیسے نفوذ کیا اور اس نے یہ گفتگو کیونکر کی، متقدمین اور موجودہ مفسّرین میں اختلاف ہے اور تقریباً دو نظریے موجود ہیں:
۱۔ بعض کا عقیدہ ہے کہ یہ کام باطنی وسوسوں کی صورت میں انجام پایا۔ شیطان نے اپنے وسوسوں سے اور مشرکین کی شیطانی، منفی اور قبیح صفات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے اعمال ان کی نظر میں پسندیدہ بنادیئے اور انھیں یہ اعتماد دلایا کہ تمھارے پاس ایسی قوت ہے جسے شکست نہیں ہوسکتی اور یوں ایک طرح کی باطنی پناہ گاہ اور سہارا ان کے لئے پیدا کردیا۔
دوسری طرف مسلمانوں کو شدید جہاد اور پر اعجاز واقعات کے سبب کامیابی حاصل ہوئی اور جہاد اور انہی معجزانہ واقعات سے مشرکین کے دلوں سے ان وسوسوں کے آثار ختم ہوگئے اور انہوں نے محسوس کیا کہ شکست ان کے سامنے کھڑی ہے اور ان کے لئے کوئی سہارا اور امان نہیں بلکہ نہایت سخت عذاب اور سزا ان کے انتظار میں ہے۔
۲۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ شیطان انسانی شکل میں مجسّم ہوا اور ان کے سامنے ظاہر ہوا۔ ایک روایت جو بہت سی کتب میں نقل ہوئی ہے، میں ہے:
قریش نے جب میدانِ بدر کی طرف جانے کا پختہ ارادہ کرلیا تو وہ بنی کنانہ کے حملے سے ڈرتے تھے کیونکہ ان کے ساتھ ان کا پہلے ہی سے جھگڑا تھا۔ اس موقع پر ابلیس سراقہ بن مالک کی شکل میں ان کے پاس آیا۔ سراقہ بنی کنایہ کا ایک جانا پہنچانا آدمی تھا۔ اس نے انھیں اطمینان دلایا کہ میں تم سے موافق ہوں اور تمھارے ساتھ ہم آہنگ اور کوئی شخص تم پر غالب نہیں ہوگا اور اس نے میدانِ بدر میں شرکت کی۔ لیکن جب اس نے ملائکہ کو نازل ہوتے دیکھا تو پیچھے ہٹ آیا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ فوج بھی جو مسلمانوں سے سخت ضربیں کھاچکی تھی ابلیس کی حالت دیکھ کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ جب وہ مکہ میں پلٹ کر آئے تو کہنے لگے کہ سراقہ بن مالک قریش کے فرار کا سبب بنا ہے۔ جب یہ بات سراقہ تک پہنچی تو اس نے قسم کھائی کہ مجھے اس بات کی قطعاً کوئی خبر نہیں ہے۔ جب انہوں نے میدانِ بدر میں اس کی مختلف نشانیاں اور کیفیتیں یاد دلانا چاہئیں تو اس نے سب کا انکار کیا اور قسم کھائی کہ ایسی حتماً کوئی بات نہیں ہوئی اور اس نے کہا کہ میں مکہ سے باہر گیا ہی نہیں۔ اس طرح سے معلوم ہوا کہ وہ شخص سراقہ بن مالک نہیں تھا۔(۱)
پہلی تفسیر کے طرفداروں کی دلیل یہ ہے کہ ابلیس انسانی شکل میں ظاہر نہیں ہوسکتا جب کہ دوسری تفسیر کے طرفدار کہتے ہیں کہ اس کے محال ہونے پر کوئی دلیل میّسر نہیں ہے خصوصاً جب کہ اس کی نظیر یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کے ہجرت کے موقع پر ایک بوڑھا نجدی لوگوں کے بھیس میں دارالندوہ میں آیا تھا۔ علاوہ ازیں ظاہری تعبیرات اور باتیں جو مندرجہ بالا آیت میں آئی ہیں ابلیس کے مجسم ہونے کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتی ہیں۔
بہر حال مندرجہ بالا آیت نشاندہی کرتی ہے کہ خاص طور پر جب کوئی گروہ حق و باطل کی راہ پر گامزن ہو تو خدائی قوتوں اور امداد کا یا شیطانی قوتوں اور امداد کا ایک سلسلہ فعالیت کرتا ہے اور یہ قوتیں اور امداد مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہیں۔ راہ خدا پر چلنے والوں کو یہ امر ہمیشہ نظر میں رکھنا چاہیے۔
بعد والی آیت میں معرکہ بدر میں شریک مشرکوں اور بت پرستوں کی فوج کے طرفداروں کے ایک گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: اس وقت منافقین اور وہ کہ جن کے دل میں بیماری تھی کہتے تھے کہ یہ مسلمان اپنے دین پر مغرور ہوگئے ہیں اور اس تھوڑی سی تعداد اور معمولی اسلحہ کے ساتھ انہوں نے کامیابی کے گمان میں یاراہ خدا میں شہادت اور حیات جاوید کے خیال میں اس خطرناک مہم میں قدم رکھا ہے کہ جس کا انجام موت ہے

(إِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِھِمْ مَرَضٌ غَرَّ ھٰؤُلَاءِ دِینُھُمْ)۔
لیکن وہ ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے اور الطاف الٰہی اور اس کی غیبی امداد سے آگاہی نہ رکھنے کے سبب اس حقیقت سے باخبر نہیں ہیں کہ ”جو شخص خدا پر توکل کرے اور اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کرنے کے بعد خود کو اس کے سپرد کردے تو خدا اس کی مدد کرے گا کیونکہ خدا قادرو قوی ہے کہ کوئی شخص اس کے مقابلے میں کھڑا ہونے کا یار انھیں رکھتا اور وہ ایسا حکیم ہے کہ جس سے ممکن نہیں کہ وہ اپنے دوستوں اور اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو تمہا چھوڑدے“ (وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ فَإِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ)۔
اس سلسلے میں کہ ”منافقین“ اور ”الذین فی قلو بہم مرض“ سے کون سے افراد مراد ہیں، مفّسرین میں بہت اختلاف ہے لیکن بعید نہیں کہ دونوں عبارتیں منافقین مدینہ کی طرف اشارہ ہوں کیونکہ قرآن مجید منافقین کے بارے میں جن کی تفصیلی حالت سورہ بقرہ کی ابتدائے میں آئی ہے کہتا ہے:
<فِی قُلُوبِہِم مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہ مرضاً
ان کے دلوں میں بیماری ہے۔ خدا بھی ان کی بیماری میں اضافہ کرتا ہے۔ (بقرہ۔۱۰)
یا پھر یہ وہ منافق ہیں جو مکہ میں ظاہراً ایمان لائے تھے لیکن انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے روگردانی کی تھی اور میدان بدر میں مشرکوں کی صفوں سے وابستہ تھے اور جب انہوں نے لشکر کفر کے مقابلے میں مسلمانوں کی کم تعداد دیکھی تو انھیں تعجب ہوا اور وہ کہنے لگے کہ ان مسلمانوں نے اپنے دین و آئین سے دھوکا کھایا ہے اور جبھی اس میدان میں قدم رکھا ہے۔
بہر حال خدا ان منافقین کی باطنی کیفیت کی خبر دیتا ہے اور ان کے ہم فکر لوگوں کی غلطی واضح کرتا ہے۔
اگلی آیت کفار کی موت اور ان کی بدبخت زندگی کے اختتام کی منظر کشی کرتی ہے۔ پہلے روئے سخن پیغمبر اکرم کی طرف کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: اگر تم کفار کی عبرت انگیز کیفیت کو دیکھتے کہ جب موت کے فرشتے ان کے چہروں اور پشتوں پر مارتے تھے اور انھیں کہتے تھے کہ جلانے والے عذاب کا مزہ چکھو، تو ان کے رقت آمیز انجام سے آگاہ ہوتے (وَلَوْ تَریٰ إِذْ یَتَوَفَّی الَّذِینَ کَفَرُوا الْمَلَائِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوہَھُمْ وَاٴَدْبَارَھُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ)۔
اگر چہ ”ترٰی“ فعل مضارع ہے لیکن ”لو“ کے ہونے کی وجہ سے ماضی کا معنی دتا ہے۔ اس بناء پر مندرجہ بالا آیت کفار کی گذشتہ کیفیت اور ان کی دردناک موت کی طرف اشارہ ہے۔اس لئے بعض مفّسرین اسے میدان بدر میں فرشتوں کے ہاتھوں ان کی موت کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں اور وہ اس سلسلے میں کچھ ایسی روایات بھی نقل کرتے ہیں جن کی تائید نہیں ہوئی۔ لیکن جیسا کہ ہم بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ ایسے قرائن موجود ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں سے میدان بدر کی جنگ میں براہِ راست دخل نہیں دیا لہٰذا مذکورہ آیت میں موت کے فرشتوں اور قبضِ روح کے وقت اور اس دردناک سزا کی طرف اشارہ ہے جو دشمنان حق اور بے ایمان گنہ گاروں کو اس وقت ہوگی ۔”عذاب الحریق “ روزِ قیامت کی سزا کی طرف اشارہ ہے کیونکہ قرآن کی دوسری آیات میں مثلاً سورہ حج کی آیہ ۹ اور ۲۲ اور بروج کی آیہ ۱۰ میں بھی یہی معنی آیا ہے۔
اس کے بعد قرآن کہتا ہے: ان سے کہا جائے گا کہ یہ دردناک سزا جو اس وقت چکھ رہے ہو ان امور کی وجہ سے تمھارے ہاتھوں نے اس سے پہلے فراہم کیے ہیں اور اس جہان میں بھیجے ہیں (ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اٴَیْدِیکُمْ)۔
”ہاتھ“ کی تعبیر اس بناء پر ہے کہ انسان عام طور پر اپنے اعمال ہاتھ کی مدد سے انجام دیتا ہے ورنہ مندرجہ بالا آیت تمام جسمانی اور روحانی اعمال پر محیط ہے۔
آیت کے آخر میں مزید ارشاد ہوتا ہے: ”خدا کبھی بھی اپنے بندوں پر ظلم و ستم روا نہیں رکھتا“ اور اس جہان میں یا اس جہان میں جو بھی سزا یا عذاب انھیں دامن گیر ہوگا وہ خود انہی کی طرف سے ہے (وَاٴَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیدِ)۔
لفظ ”ظلام“ مبالغے کا صیفہ ہے۔ اس کا معنی ہے ”بہت ظلم کرنے والا“۔
اس جگہ اور دوسری جگہوں پر اس لفظ کے استعمال کی وجہ اور اسی طرح ظلم سے متعلق دیگر مباحث ہم نے تفسیر نمونہ جلد سوم صفحہ ۱۴۶

(اردو ترجمہ) پر ذکر کیے ہیں۔

 

۵۲- کَدَاٴْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ کَفَرُوا بِآیَاتِ اللهِ فَاٴَخَذَھُمْ اللهُ بِذُنُوبِھِمْ إِنَّ اللهَ قَوِیٌّ شَدِیدُ الْعِقَابِ-
۵۳- ذٰلِکَ بِاٴَنَّ اللهَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِعْمَةً اٴَنْعَمَھَا عَلیٰ قَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاٴَنفُسِھِمْ وَاٴَنَّ اللهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ-
۵۴- کَدَاٴْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ کَذَّبُوا بِآیَاتِ رَبِّھِمْ فَاٴَھْلَکْنَاھُمْ بِذُنُوبِھِمْ وَاٴَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَکُلٌّ کَانُوا ظَالِمِینَ-
ترجمہ
۵۲ ۔ (مشرکین کے اس گروہ کی حالت) فرعون کے رشتہ داروں اور ان سے پہلے والوں کی سی ہے۔ انہوں نے آیاتِ الٰہی کا انکار کیا۔ خدانے بھی انھیں ان کے گناہوں کی وجہ سے سزادی۔ اللہ قوی ہے اور اس کی سزا سخت ہے۔
۵۳۔ یہ اس بناء پر ہے کہ خدا جو نعمت بھی کسی گروہ کو دیتا ہے اسے متغیّر نہیں کرتا مگر یہ گروہ خود اپنے آپ کو متغیّر کریں اور خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔
۵۴۔ اور یہ (بالکل) فرعونیون اور ان سے قبل کے لوگوں کی طرح ہیں کہ جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیات کو جھٹلایا اور ہم نے بھی ان کے گناہوں کی وجہ سے انھیں ہلاک کیا اور فرعونیوں کو غرق کیا اور یہ سب ظالم (اور ستمگر) گروہ تھے۔

 


۱۔ تفسیر محمع البیان، نور الثقلین اور دیگر تفاسیر، مذکورہ آیت کے ذیل میں۔
متغیّر نہ ہونے والی ایک سنتجہاد کے بارے میں چھ اور احکام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma